Editorial

روس سے رعایتی قیمت پرتیل ملنے کی اُمید

روس پاکستان کو رعایتی قیمت پر تیل اور ڈیزل فراہم کرے گا۔ سرکاری ایل این جی کے معاہدوں اور بعض روسی کمپنیوں سے ایل این جی کے حصول کے لیے بات چیت طے ہو گئی ہے۔ توانائی معاہدوں پر پیش رفت کے لیے روس کا سرکاری وفد جنوری کے وسط میں پاکستان کا دورہ کرے گا۔ وزیر مملکت برائے پٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک کے مطابق ایران نے انسانی بنیادوں پردو ملین پاؤنڈ کی ایل پی جی دینے کا اعلان کیا ہے جس پر بات چیت مکمل ہو گئی ہے،اور آئندہ دس یوم کے اندر ایل پی جی پاکستان آ جائے گی تاکہ توانائی کے مسائل کو حل کیا جائے۔اسی پر بات آگے بڑھائی جائے تو روس پاکستان کو روایتی نرخوں پر خام تیل فراہم کرے گا چونکہ حکومت خام تیل درآمد نہیں کرتی لہٰذا آئل ریفائنریاں خام تیل روس سے درآمد کریں گی اور سستے خام تیل کا براہ راست فائدہ بھی انہی کو ہوگا اور اگر حکومت مداخلت کرتی ہے تو عین ممکن ہے کہ آٹے میں نمک کے برابر عوام کو ریلیف دے دیا جائے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے روس سے سستا تیل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہی ہے تو اس کا مکمل فائدہ عوام تک منتقل کرنا چاہیے کیونکہ موجودہ حکومت کے دور میںعامۃ الناس کو پچھلی حکومت کے برعکس قریباً ایک سو روپے مہنگا پٹرول مل رہا ہے، حکومت روسی تیل کے ذریعے نہ صرف عوام کو ریلیف دے سکتی ہے بلکہ اِس کے نتیجے میں سیاسی فائدہ بھی اٹھاسکتی ہے مگر اِس کے لیے بہترین حکمت عملی کی ضرورت ہوگی۔ عوام یہی سمجھتے ہیں کہ روسی سستا تیل لیکر ملک میںمہنگائی کی شرح انتہائی کم کی جاسکتی ہے، جب پٹرول سستا ہوگا تو یقیناً ہر شہری اور ہر گھر کو ریلیف ملے گا، سستے تیل سے بجلی بھی سستی پیدا ہوگی اور اگر پورے اخلاص کے ساتھ بجلی کے نرخ کم کردیئے جاتے ہیں تو اس سے گھریلو اور صنعتی صارفین کو فائدہ پہنچے گا، جہاں عام صارف سکون کا سانس لے گا وہیں صنعتیں بھی سستی بجلی سے کم لاگت مصنوعات تیار کریں گی جو بلاشبہ زرمبادلہ لے کر آئیں گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ منیر نیازی کے شعر ’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں‘ کے مصداق ہماری قیادت ہر اہم نوعیت کے معاملے میں دیر کرنے کی عادی نظر آتی ہے حالانکہ دنیا جس تیزی کے ساتھ اپنی ضروریات کو پوراکرنے کے لیے متبادل ذرائع کی طرف جارہی ہے ہمیں اُن کے برابر نہ سہی اُن کے پیچھے پیچھے تو ضرور چلنا چاہیے مگر ہم داخلی الجھنوں کا شکارہوکر ہمیشہ دیر بھی کرتے ہیں اور ہمیشہ پیچھے بھی رہ جاتے ہیں شاید ویژن سے عاری کہلوانا ہمیں بہت پسند ہے، ہمارے سامنے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی مثال رہنی چاہیے، یو اے ای کی قیادت نے محسوس کیا کہ تیل کے ذخائر ہمیشہ نہیں رہیں گے لہٰذا انہوں نے دبئی کو پوری دنیا کی تجارت اور توجہ کا مرکز بناکر اپنا مستقبل محفوظ کرلیا، اسی سوچ کے ساتھ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی تیزی کے ساتھ کام کررہے ہیں کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ تیل کی آمدن ہمیشہ نہیںرہے گی، ہم نے بروقت جاگنا ہوتا تو چین، ملائیشیا، دبئی اور سعودی عرب سمیت کئی مثالیں ہمارے سامنے تھیں مگر افسوس کہ ہم دبئی میں اثاثے بنانا اور زندگی گزارنا تو پسند کرتے ہیں مگر اپنے ملک کو دبئی جیسا ترقی یافتہ بنانے کی شاید اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ ہر آزمائش نے پوری دنیا کو مستقبل کے خطرات سے متعلق چوکنا کردیا ہے، اگر چوکنا نہیں ہوئے تو بس ہم ہی نہیں ہوئے۔ کرونا وائرس کے دوران اور بعد میں دنیا میں آن لائن کاروبار کا فروغ پایا مگر ہمارے یہاں اِس پر توجہ ہی نہیں دی گئی شاید جنہوں نے توجہ دینا تھی اُن کو ایسے معاملات کا ادراک ہی نہیں تھا۔ روس یوکرین جنگ کے نتیجے میں جہاں مغرب نے قابل تجدید توانائی کی حکمت عملی اپنائی اور پٹرول کی بجائے متبادل ذرائع پر گئے، اِس معاملے پر ہمیں مغرب کی حکمت عملی اور اِس کے دور رس نتائج کو سمجھنا چاہیے تھا مگر افسوس کہ ہم صرف وہی کچھ نہیں کرتے جو فوراً کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو عرب ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں وہ اِس کے باوجود متبادل ذرائع کی طرف جارہے ہیں جبکہ ہمارے یہاں ہر انڈسٹری کو توانائی کے اُن ذرائع کی جانب موڑ کر چلایا جارہا ہے جس کے لیے ہمیں بیرونی دنیا کی محتاجی ہوتی ہے۔ ڈیم ہم نے نہیں بنائے حالانکہ ڈیم بروقت بنتے رہتے تو آج ہمارے ہاں انڈسٹری کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہوتی، ہر صارف کو بجلی کا بل انتہائی مناسب آتا، چوبیسوں گھنٹے بجلی دستیاب ہوتی، کارخانے چلتے رہتے اور ہم زرمبادلہ کماتے رہتے مگر دور اندیشی سے عاری شخصیات نے ڈیموں کی بجائے درآمدی ایندھن سے چلنے والے بجلی کے کارخانے لگانے کو ترجیح دی کیونکہ اِس کاواحد مقصد رائے عامہ اپنے حق میں کرنا تھا۔ سابق دورحکومت میں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ سستا ایندھن روس سے لیکراپنے عوام کو فراہم کرنا چاہتے تھے مگر اتفاق سے یہ پیش رفت اتحادی حکومت کے دور میں وزیر مملکت مصدق ملک کے ذریعے سننے کو ملی ہے۔ لہٰذا حکومت کے لیے سنہری موقعہ ہے کہ وہ روس اور ایران سمیت دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دے کر اپنی ضروریات کی تمام چیزیں سستے داموں خرید کر عوام کو فراہم کریں تاکہ اِس کے نتیجے میں مہنگائی سے پسے عوام کو ریلیف مل سکے، اور ہمہ وقت ارباب اختیار پر واضح رہنا چاہیے کہ جو طاقتیں روس اور ایران سے سستے ایندھن کے حصول میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں اُن کا واحد مقصد ہماری معیشت کو زمین بوس کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ ہمیں اِس معاملے پر کسی کے دبائو میں نہیں آنا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنی سیاسی ساکھ اور ملکی ضروریات کو مقدم رکھے اور جہاں سے بھی سستی اشیا درآمد کی جاسکتی ہیں ، ضرور کی جائیں اور اِس کے لیے بھارت واضح مثال ہونا چاہیے جو روس کا بھی دوست ہے اور امریکہ کابھی مگر اُس نے کبھی روس سے سستا تیل خریدنے کے معاملے پر امریکہ کے دبائو کو قبول نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اپنی عوام کے مفاد میں فیصلے کیے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ روس سے سستے ایندھن کے حصول کے لیے جلد مثبت پیش رفت سامنے آئے گی مگر اِس کا جبھی فائدہ ہوگا جب عوام اور صنعتوں کو اِس سستے ایندھن کا ریلیف پوری طرح منتقل کیا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button