ColumnKashif Bashir Khan

اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش! .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

پاکستان میں سیاسی استحکام کی خواہش جو عمران خان کے چند روز قبل حکومت کو مذاکرات کے بیان سےپیدا ہوئی تھی وہ ختم ہوچکی ہے اوراتحادی حکومت نے جہاں مذاکرات سے پہلو تہی اختیار کی ہے وہاں عمران خان نے بھی حکومت سے کسی مذاکرات کی اس وقت تک تردید کر دی ہے جب تک حکومت جلد نئے انتخابات کا اعلان نہیں کردیتی۔
سیاسی عدم استحکام روز بروز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور حکومت جو سیاسی میدان کے علاوہ معاشی میدان میں بھی ناکام ہو چکی ہے، کسی قیمت پر بھی جلد انتخابات میں جانے کو تیار نہیں۔اس ساری سیاسی صورتحال کا نقصان مسلم لیگ نون کو سب سے زیادہ ہوا ہے اور 10اپریل 2022 تک نون لیگ جو تمام ضمنی انتخابات جیسے رہی تھی، حکومت میں آتے ہی اول تو اپنے بیانیے’’ووٹ کو عزت دو‘‘کوکھو بیٹھی دوسرا عوام کی زندگیاں مشکل ترین کرنے ولے اقدامات کی وجہ سے عوام میں اس تیزی سے غیر مقبول ہوئی کہ کس کا تصور انہوں نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں کبھی بھی نہیں کیا ہو گا۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستان اپنے بدترین دور سے گزر رہا ہے اور ہر آنے والا دن پاکستان کی بدترین معاشی حالت کی وجہ سے ڈیفالٹ کے خطرات کو تیزی سے مزید قریب لاتا دکھائی دے رہا ہے۔ عام عوام کو ڈیفالٹ سے کچھ لینادینا نہیں اسے تو یہ پتا ہے کہ پٹرول 225،روٹی 15 روپے اور مرغی کا گوشت
چار سو روپے کلو کے علاوہ قریباً تمام سبزیاں اور دالیں تین سے چار سوروپے کلو سے کم نہیں ہیں۔پاکستان کی موجودہ بدترین معاشی حالت کوئی ایک دن یا سال کی کہانی نہیں ہے اور ہم جیسے زمانہ طالب علمی سے اب تک ہر حکومت بدلنے کے بعد نئی آنے والی حکومت سے یہ ہی سنتے آ رہے ہیں کہ پچھلی حکومت نے ملک کو تباہ کر دیا۔کسی حکومت نے بھی اس تباہی کو ملک کی خوشحالی میں نہیں بدلا بلکہ اس تناظر میں کبھی بھی کوئی حقیقی کوشش سامنے ہی نہیں آئی۔جس طرح پنجابی کا محاورا ہے کہ اگر گھر بیٹھ کر کھانا شروع کر دیں تو کنواں بھی خالی ہو جاتا ہے اسی طرح پاکستان کا حال ہوا ہے کہ اس کے اقتدار پر بیٹھنے والوں نے اسے ایسا کھایا ہے کہ اب یہ خالی ہو چکا ہے۔بیرون ملک سے جو ترسیلات زر پاکستان آتی تھیں اس میں قریباً 8 فیصد کی کمی کا موجودہ حکومت بتا رہی ہے جو بہت افسوسناک ہے۔ پاکستان میں اس وقت ڈالر ناصرف مہنگا بلکہ نایاب ہو چکا ہے اور مختلف شعبوں کی صنعتیں خام
مال امپورٹ نہیں کرپارہیں،جس کی وجہ سے ادویات سمیت بہت سی مصنوعات کی پیداوار بند ہونے کے بعد ان کی کمیابی کا شدید خطرہ ہے بلکہ پاکستان میں بے روزگاری کا ایک بڑا طوفان بھی نظر آ رہا ہے لیکن بطور صحافی میرے خدشات پاکستان کی سالمیت کے تناظر میں بہت شدید ہیں اور پاکستان جو دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت ہے، موجودہ سیاسی و معاشی عدم استحکام کا بالکل بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔اگر موجودہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری بھی کرتی ہیں تو اس کی معیاد اگست 2023 میں ختم ہو جائے گی اور دسمبر کا مہینہ اگر نکال دیا جائے تو بقایا 8 مہینے رہ جاتے ہیں۔
آج بھی میرے پروگرام میں قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ ہم عمران خان کے ساتھ مذاکرات کرنے کو تیار ہیں لیکن جب میں نے ان کی توجہ وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر اعظم کے مذاکرات کے تناظر میں تلخ بیانات کی جانب مبذول کروائی تو ان کا جواب تھا کہ آپ تحریک انصاف کو مذاکرات کے لیے آمادہ کر لیں،ہم ان سے مذاکرات کر لیں گے۔موجودہ ملکی صورتحال کو اس نہج تک پہنچانے کی تمام تر ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہی ہے اور موجودہ طرز حکمرانی سے تو اس خطرناک صورتحال سے فی الفور نکلنے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔اقتدار کی ہوس میں ہم نے ماضی میں اپنا مشرقی بازو کٹوا دیا تھا اور آج پھر اقتدار پر قابض اقلیتی حکمران ملک کے مقبول ترین لیڈر عمران خان کو کبھی الیکشن کمیشن کے ذریعے نا اہل قرار دلوانا چاہ رہے ہیں اور کبھی توشہ خانہ کی بابت انہیں الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے تحت تحریک انصاف کی چیئرمین شپ سے فارغ کروانا چاہتے ہیں لیکن میں بار بار لکھ چکا کہ سیاسی میدانوں میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں بھی اس وقت عمران خان اور تحریک انصاف کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں اور مختلف سروے رپورٹوں کے مطابق عوام میں عمران خان کی مقبولیت 59 فیصد ہے جبکہ میاں نواز شریف کی 19 فیصد اور شہباز شریف کی محض 4 فیصد مقبولیت ہے جو اتحادی جماعتوں کے لیے ڈراؤنے خواب کی مانند ہے۔ نہایت دکھ اور افسوس سے وزیر اعظم شہباز شریف کی وزیر اعظم آزاد کشمیر سے بد زبانی اور ہتک آمیز رویے کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں۔دنیا بھر میں ہم پرچار کرتے ہیں کہ آزاد کشمیر ایک آزاد خطہ ہے اور ہم مقبوضہ کشمیر کو بھی بھارتی تسلط سے آزاد کروا کر اسے آزاد حیثیت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔پاکستانی وزیر اعظم کی منگلا ڈیم کے توسیعی منصوبہ کے افتتاح کے موقعہ پر وزیر اعظم آزاد کشمیر کے ساتھ تلخی کو دنیا بھر میں دیکھا گیا اور اگر اس طرز عمل کی گہرائی میں جایا جائے تو بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس کے اثرات تحریک آزادی کشمیر پر کتنے منفی ہوں گے۔ خیر بات ہو رہی تھی پاکستان کے دن بدن بگڑتے سیاسی اور معاشی حالات پر۔وفاقی حکومت نے اگر اب بھی سیاسی بڑھک بازی بند نہ کی اور درمیانی راستہ نکالنے کی کوئی مخلصانہ کوشش نہ کی تو پھر ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کسی کے ہاتھ بھی کچھ نہ آئے۔ ملک کی معیشت تو تباہ کر ہی چکے ہیں۔معاشی استحکام ہمیشہ سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ اقتدار میں ا گر اسے چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے بالخصوص جب آپ کو عوام نے رد کیا ہو اور آپ کے پاس اکثریت نہ ہو پھر میدان سیاست میں عوام آپ کو مسلسل رد بھی کر رہے ہوں اور تمام ضمنی انتخابات کے نتائج گواہ ہیں لیکن اب پاکستان تاریخ کے اس دوراہے پر کھڑا ہے جہاں سیاسی استحکام کا واحد راستہ جو شفاف انتخابات کے ذریعے ہی ممکن ہے، کو اپنانا ہو گا ورنہ ہوس انتخابات میں مبتلا قابض حکمران اس ملک کو شدید نقصان کے علاؤہ کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔تاہم اداروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے عمران خان کو انتخابی سیاسی عمل سے باہر کرنے کی ہر کوشش اپوزیشن اتحادی جماعتوں کو سیاسی طور پر اور تباہ کر دے گا اور انتخابات جب بھی ہوں گے ایسی تمام کوششوں یا عمل کو تحریک انصاف اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ سے بآسانی ختم کر دے گی۔ مستحکم پاکستان کی جانب قدم بڑھانے کے لیے جہاں واحد حل نئے انتخابات ہیں وہاں تمام اداروں کو حکمرانوں کی خواہشات کے تابع ہونے کی روش فوری ترک کرنا ہو گی کہ وفاقی پر قابض حکمرانوں کی اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش سے زیادہ پاکستان کا معاشی،سیاسی اور دفاعی استحکام افضل ہے اور وقت کی اہم ضرورت بھی۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button