Editorial

متاثرین کی بحالی کا طویل اور صبر آزما مرحلہ

 

وزیراعظم شہبازشریف نے سیلاب زدہ علاقوں میں نظام زندگی کی بحالی کے لیے نظام مواصلات، بجلی کی ترسیل اور دیگر امدادی کارروائیوں کو مزید مؤثر بنانے کے لیے ضروری اقدامات کرنے اور سیلاب زدہ علاقوں میں اشیائے خورونوش کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔نیز وزیراعظم کی ہدایت پر سیلاب زدگان کی امدادکی تقسیم وترسیل میں شفافیت کے لیے ڈیجیٹل فلڈ ڈیش بورڈ قائم کر دیا گیا ہے اور ڈیش بورڈ سے عوام کو امدادی سامان کی وصولی، تقسیم اور ترسیل کی تمام معلومات فوری فراہم ہوں گی۔ ڈیجیٹل ڈیش بورڈ سے سیلاب متاثرین کے لیے آنے والی امداد اور اس کی تقسیم کے تمام عمل کو شفاف بنانے میں مدد ملے گی اور وزیراعظم شہباز شریف اِس کی خود نگرانی کریں گے۔ بلاشبہ توقع سے کہیں زیادہ طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے آفت زدہ علاقوں میں توقع سے کہیں سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں اور ہر طرح کی املاک بھی سیلابی ریلوں کی نذر ہوچکی ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں دستیاب انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوکر اِس کے نام و نشان بھی ختم ہوچکے ہیں، سڑکیں، بجلی کا نظام، سکولز، تعلیمی ادارے، مساجد، کاروباری مراکز کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ سیلابی ریلیوں کی نذر ہونے والے مویشیوں اور دیگر چرند کی باقیات بھی اُن علاقوں میں اب وبائی امراض کا باعث بن رہی ہیں جہاں سے ریلا گذر تو چکا ہے لیکن پیچھے ہنستے بستے شہروں کو کھنڈرات اور دیہات کو جیسے قبرستانوں میں بدل چکا ہے۔ مٹی کے کچے مکانات کا تو نام و نشان بھی باقی نہیں رہی اور اگر کہیں پکے مکانات تھے اور ان میں سے کچھ بچ بھی گئے ہیں تو اب وہ استعمال کے قابل نہیں ہیں، بنیادی صحت کے مراکز اور انفراسٹرکچر سے متعلق محکموں کی عمارتوں کی بھی یہی صورت حال ہے ۔ دوسری طرف متاثرہ افراد ریسکیو آپریشنز کے ذریعے محفوظ مقامات پر تو منتقل ہیں لیکن انہیں خوراک، لباس، وبائی امراض سے محفوظ رہنے کے ادویات اور بدلتے موسم کے لحاظ سے گرم کپڑوں اور اُسی مناسبت سے خوراک کی بھی ضرورت ہے۔ بلاشبہ پاک فوج، ریاستی مشینری اور فلاحی ادارے اپنے وسائل اور اہلیان پاکستان کی ہر ممکن مدد سے اُن متاثرہ خاندانوں کو ریلیف دے رہے ہیں مگر ہر کوئی اپنے گھر جانا چاہ رہا ہے مگر انفراسٹرکچر کی مکمل تباہی کے باعث ان کا وہاں جانا نہ صرف خطرناک ہے بلکہ ان تک رسائی بھی مشکل ہوجائے گی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اداروں کو انفراسٹرکچر کی بحالی کی ہدایت کی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہم جس تباہی سے دوچار ہوئے ہیں اِس تباہی کے بعد انفراسٹرکچر کی بحالی میں دن یا مہینے نہیں بلکہ سال لگ
جائیں گے کیونکہ عینی شاہدین کے مطابق انہوں نے تباہی کےایسے مناظر قیام پاکستان کے بعد کبھی نہ دیکھے تھے۔ پس اگر ایسی تباہی پہلی مرتبہ دیکھنے آئی ہے تو اس کے نتیجے میں ہونے والا نقصان بھی بے شمار ہوگا اور متاثرین کی بحالی بھی طویل اور صبر آزما کام ہوگی لیکن اس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی حکمت عملی اختیار کرلی جائے بلکہ اب ہمیں منظم منصوبہ بندی کے ساتھ شہر اور دیہات بسانے چاہئیں جو کم از کم آبی گذرگاہوں کی راہ میں موجود نہ ہوں تاکہ خدانخواستہ ایسی صورت حال کا ہمیں دوبارہ سامناکرنا پڑے تو ہم حالیہ نقصان جیسے نقصان سے دوچار نہ ہوں۔ ایک طرف آبی گذرگاہوں کے راستے کھلے چھوڑے جائیں تو دوسری طرف بستیاں اور شہر اِن سے کوسوں دور محفوظ مقامات پر آباد کیے جائیں تاکہ سیلابی ریلوں کی زد میں انے کی بجائے محفوظ رہا جاسکے۔ اسی طرح انفراسٹرکچر قائم کرتے ہوئے بھی خیال رکھا جائے کہ ہم آبی گذرگاہوں سے پرے رہیں تاکہ خدانخواستہ موجودہ صورت حال جیسی صورت حال نہ ہو۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے وسائل کے مطابق متاثرین کے لیے مالی امداد کا بھی اعلان کررہی ہیں تاکہ لوگوں کو دوبارہ زندگی کی طرف لوٹنے کے لیے مدد حاصل ہو اِس کے علاوہ عالمی برادری کی جانب سے بھی سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے اطمینان بخش امداد مل چکی ہے لیکن ماہرین فی الحال اِس کو نقصان کی بھرپائی کے لیے ناکافی قرار دے رہے ہیں اسی لیے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیوگوتریس نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد برملا کہا ہے کہ ایسی تباہی انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی اور وہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک بالخصوص اُن ممالک سے درخواست کریں گے جو فضائی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں تاکہ متاثرین کو بحال کیا جاسکے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہدایت پر پاک فوج کا متعلقہ شعبہ رابطہ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر و مرمت کا کام شروع کرچکا ہے، پاک فوج نے سب سے پہلے سیلاب متاثرہ علاقوں سے متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا اور ان کی خوراک و رہائش کے انتظامات کیے اور اس کے فوری بعد فلاحی ادارے بھی پاک فوج کودیکھتے ہوئے میدان میں نکل آئے اور انہوں نے کوئی جگہ ایسی نہیں چھوڑی جہاں سیلاب متاثرہ افراد اپنے گھروں یا املاک پر پھنسے رہ گئے ہوں، ان فلاحی اداروں نے انسانوں ہی نہیں بلکہ متاثرہ افراد کے چرند و پرند بھی محفوظ مقامات پر منتقل کیے جو سیلابی ریلوں کی نذرہونے سے محفوظ رہے۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ متاثرہ علاقوں میں انفراسٹرکچر کی بحالی، متاثرین کی اپنے علاقوں میں واپسی اور اِنہیں دوبارہ معمول کی زندگی کی طرف لانا اور بحال کرنا واقعی صبر آزما کام ہے لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اب جلد ازجلد یہ کام شروع کرنا ہوگا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button