ColumnNasir Naqvi

اندھا کنواں .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

میں برسوں بعد انجمن ترقی پسند مصنفین کی تنقیدی نشست میں صرف اس لیے گیا کہ سیکرٹری جاوید آفتاب نے مجھے لاتعداد میسج بھیجے اور ان کی ثابت قدمی کامیاب ہو گئی کہ میں ڈر گیا کہ کہیں کوئی مجھے رجعت پسندوں کی فہرست میں شامل نہ کر لے، لیکن وہاں جا کر احساس ہوا کہ دنیاوی مال و زر اور اس ترقی یافتہ دور میں بھی لوگوں کی دلچسپی ویسی ہی تھی جیسے کبھی تھی، یقینا سنہرا دور لد چکا، جب اس انجمن کی ہر نشست میں نہ صرف نامور ممتاز ادبی ناموں اور شخصیات کا جھرمٹ ہوتا تھا، بلکہ ہمیں یاد ہے کہ ان پر ’’رجعت پسند‘‘ کے حملوں کی خبر یں بھی اخبارات کی زینت بنتی تھیں۔ میرا خیال ہے اگر دنیا کی تیز رفتاری میں لوگوں کے دلوں میں یہ مقابلہ بازی جاری رہتی تو پھر خون گرم رکھنے کا بہانہ ملتا اور مصلحت پسندی کا خاتمہ ہو جاتا لیکن حالات نے ایسا یوٹرن لیا کہ معاملات مفادات کے مرہون منت ہو گئے حالانکہ یوٹرن کے بادشاہ بہت بعد میں متعارف ہوئے۔ میں نے جب عملی زندگی میں قدم رکھا توترقی پسندوں اور رجعت پسندی کی باقاعدہ ہتھ جوڑی کا مک مکا ہو چکا تھا کیونکہ نوٹوں کی چمک اور مفادات کی خواہشات میں سکہ بندسرخے بھی اپنا راستہ بدل چکے تھے۔ لہٰذا ایک مرتبہ جناب عابد حسن منٹو سے سوال کر دیا کہ حضور ایشیا سرخ کے نعرے لگانے والے، ظلم اور استعماری قوتوں کے خلاف جنگ لڑنے والے مجاہدین کہاں گئے؟ وہ مسکرائے تو میں نے دوبارہ پوچھا’’میں ترقی پسندوں کی بات کر رہا ہوں‘‘۔
بولے:ان سب کی ترقی ہو گئی، اب انہیں ڈھونڈو چراغ رخ زیبا لے کر……
میں بولا :آپ بھی؟
فرمانے لگےکہ ہم تو اپنا مشن جاری رکھیں گے، ہمارا عہد دھرتی اور انسانیت سے ہے ، ظلم اور استحصال کے خلاف ہماری زبان کوئی نہیں روک سکتا۔
میں نے یہ بات تنقیدی نشست کے آغاز سے قبل کی تو ایک نیا کٹا کھل گیا۔
انجمن کے صدر کامریڈ اور سیکرٹری جاوید آفتاب بولے ،ان کی بھی سن لیں، جنرل ضیاء الحق کے دور میں ترقی پسندوں پر رجعت پسندوں کو سوار کیا گیا۔ سب کچھ آپ جانتے ہیں وہ دونوں ہاتھوں سے سرکار کی مراعات لوٹتے رہے اور آج ان سب کی پوزیشن ،جہاں ہے جیسے ہیں، کی بنیاد پر خوب نہیں خوب تر ہے لیکن مرزا ابراہیم جیسے مزدور لیڈر اور ترقی پسندی کا خواب دیکھنے والا کامریڈ سب کچھ ذمہ داری سے نبھا کر اپنی پہلی پوزیشن پر بھی نہیں رہ سکا۔
تقریب کا وقت ساڑھے چھ بجے تھا لیکن اس لاحاصل بحث میں سات بج چکے تھے۔ جاوید آفتاب شکوہ کرنے لگے آج کے ماڈرن اور جدید سہولت بھرے دور میں بھی ہر کسی کو پیغام پوری ذمہ داری سے بھیجتا ہوں لیکن انتظار اور بس انتظار ہماری قسمت میں لکھا گیا ہے۔ کبھی کبھار اچانک حاضری بڑھ جاتی ہے ورنہ گزارا۔ پاک ٹی ہائوس اس وقت بھی شعراء سے بھرا ہوا ہے لیکن افسانہ، کہانی اور تنقید سے یہ ادب نواز بھی بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
میں نے جاوید آفتاب سے کہا آپ نے اپنی ترقی پسندی کی اس بیٹھک پر جو سلوگن والا فلیکس لگایا ہے وہی کسی دھمکی سے کم نہیں؟
بولے، کیا مطلب؟
میں نے پڑھ دیا:ترقی پسند ادب ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہے۔
ہنس کر بولے ،وہ تو ہے۔
میں نے کہا:اس سے بھی آگے آپ لوگ کتنے خطرناک ہیں وہ فلیکس پر لکھے شعر سے واضح ہو جاتا ہے۔ اس لیے ایٹم بم کے دور میں بھی ترقی پسند خوف کی علامت ہی سمجھے جاتے ہیں۔آپ بھی شعر ملاحظہ فرمائیں:
امیر شہر کی مجھ سے فقط اتنی لڑائی ہے
کہ میں وہ سر بناتا ہوں جنہیں جھکنا نہیں آتا
پھر فخریہ انداز میں گویا ہوئے، ہم حق سچ کی بات کرنا تو نہیں چھوڑ سکتے، ظالموں کی مدح سرائی نہیں کر سکتے۔ کوئی آئے نہ آئے، ہم تو اپنا کام کر رہے ہیں، ہماری کمزوری یہی ہے کہ ہم دولت مند نہیں ،نہ ہی پجاری ہیں۔ صدر پرویز مشرف کے دور میں ہمارے کامریڈ صاحب چینلز کے جمعہ بازار میں ترقی پسند چینل بھی بنوانا چاہتے تھے لیکن کسی نامی گرامی ترقی پسند نے بھی انہیں انگلی نہیں پکڑائی، اس وقت چند لاکھ کا مسئلہ تھا اب کروڑوں اور اربوں کی بات ہے۔ ہمارے حقیقی ترقی پسند واپس چلے گئے۔ جو زندہ تھے انہوں نے ہیومن رائٹس کمیشن اور مختلف اداروں میں لاکھوں میں تنخواہیں وصول کیں لیکن اپنا مشن صرف زبانی کلامی نبھایا ، اگر وہ لوگ کچھ منصوبہ بندی اپنے نظریات کے حوالے سے بھی کر لیتے تو آج بہت کچھ بدل جاتا، فیض امن میلہ دیکھ لیں پہلے پہل نظریاتی لوگ مشن بطور کرتے تھے اب وہ ترقی کر چکا لہٰذا خاندان کی اجارہ داری ہے۔اب ہر کام خالصتاً کاروباری انداز میں کیا جاتا ہے۔ مفادات اور بھاری بھرکم بجٹ میں کسی حقیقی نظریاتی کو نزدیک نہیں آنے دیا جاتا، اس لیے کہ میراث کی تقسیم کا خدشہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اسی لیے فیض امن میلہ میں امن کے متلاشی نہیں، صرف چہروں کو فوقیت دے کر بین الاقوامی تقریب کا انعقاد کر کے وہ کچھ حاصل کر لیا جاتا ہے جس کی فیض کو ضرورت نہیں تھی اور نہ اب ہے۔
جاوید آفتاب نے بتایا کہ ہم نے اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے پورے پاکستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین کو بڑھوا دیا، کراچی میں بڑی محنت سے قدآور ادبی شخصیات کے ساتھ تنظیم کو فعال کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ایک بڑی اور یادگار تقریب کی منصوبہ بندی بھی کر لی گئی لیکن ذمہ داروں نے بیک ڈراپ پر ہمارے سلوگن لکھنے سے انکار کر دیا لہٰذا مجبوراً ہم نے تنظیم توڑ دی۔
یہ وہ مسائل ہیں جو ہمیشہ نظریاتی اور تنظیمی سطح پر سر اٹھاتے ہیں ان کا حل کبھی بھی حقیقت کو مدنظر رکھ کر اس لیے نہیں ڈھونڈا جا سکا کہ نظریہ ضرورت زندہ ہے اور یہ کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ زندہ رہے گا، بالکل شیطان کی طرح۔
تنقیدی نشست میں حسب منشا شرکاء کی بڑی تعدادنہ آئی پھر بھی اس کتاب بیزار دور میں مناسب لوگ آ گئے، ڈاکٹر ظہیر عباس کی صدارت میں نوجوان افسانہ نگاروں علی حسن اویس نے زنجیر، بلال شیخ نے علامتی انداز میں افسانہ ’’صاحب نظر‘‘ اور محمد علی نے اندھا کنواں پیش کیا۔ شرکاء نے تینوں افسانوں کا انتہائی ذمہ داری سے تنقیدی جائزہ لیا۔ تجاویز دیں اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کو سراہا، جبکہ صاحب صدر ڈاکٹر ظہیر عباس نے تمام پہلوئوں پر سیر حاصل گفتگو کر کے نئے لکھنے والوں کی تحریروں کو مزید خوبصورت بنانے کے گُر بھی سکھائے۔ محمد علی کا افسانہ اندھا کنواں ہماری معاشرتی صورت حال کی ایک دکھ بھری کہانی تھی جس میں وہ اشاروں ہی اشاروں میں بہت کچھ کہہ گئے۔ ان کے انداز میں روایتی افسانوں کی خوبیاں کسی حد تک کم تھیں لیکن وہ سادگی میں ہی ایک ایسی کہانی سنا گئے جس کا مستقبل میں بھی حل دکھائی نہیں دے رہا، جبکہ جاوید آفتاب کی یہ کوشش قابل ستائش ہے کہ جب ترقی پسندوں کی اکثریت اپنی اپنی ترقی کے مزے لوٹ رہی ہے وہ مستقبل مزاجی سے کامریڈ اور چند ساتھیوں کی مدد سے اپنے مشن پر گامزن ہیں۔ انہوں نے نوجوان افسانہ نگاروں کو پاک ٹی ہائوس میں مدعو کر کے نہ صرف پذیرائی کی بلکہ انہیں وہ پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں کبھی دنیائے اردو ادب کے دیوتائوں کا راج تھا۔ یقیناً یہ ایک بڑا کام ہے جو جنہیں کرنا چاہیے وہ نہیں کر رہے لیکن جاوید آفتاب پرعزم انداز میں اپنے محاذ پر بے سروسامانی میں ڈٹے ہوئے ہیں بظاہر تو مجھے ایسا لگا کہ جاوید آفتاب اندھوں کے شہر میں آئینے بیچنے کا کاروبار کر رہے ہیں۔ پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ وہ آئینہ ہی دکھا رہے ہیں، انہیں پرواہ نہیں کہ کون بُرا مانے گا اور کون اس آئینے میں اپنا چہرہ سنوارنے کی کوشش کرے گا۔
مجھے انجمن ترقی پسند مصنفین کی یہ تنقیدی نشست اچھی لگی، ایسی محفلوں سے نئی نسل کی تربیت کے مواقع ہی نہیں پیدا کئے جا سکتے بلکہ ادب کے ہر شعبے کے خواہشمندوں کی آبیاری کی جا سکتی ہے لیکن شرکاء کی عدم دلچسپی اور مالی بحران کی صورت میں انجمن بھی ایسا ’’اندھا کنواں‘‘ محسوس ہوئی جہاں بے سروسامانی میں جاوید آفتاب ’’میٹھا پانی‘‘ نکلنے کی امید میں بیٹھا ہے۔ مایوسی گناہ ہے اس لیے میں بھی مایوس نہیں، کام اور صرف کام کرنے والے لوگ کم ضرور ہوتے ہیں لیکن ایسے ہی ہوتے ہیں اور انہیں ہمیشہ ان کے کام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یقیناً ادب نواز لوگوں کی تلاش کر کے کتاب دوست پیدا کرنے ہوں گے کیونکہ وہی قومیں اور ادب زندہ رہتا ہے جہاں کتاب کو اہمیت دی جاتی ہے۔ آج سوشل میڈیا، فیس بک، انسٹا گرام، سب کی موجودگی میںبھی دنیا کتاب کو نہیں چھوڑ سکی، لیکن ہماری نالائقی یہی ہے کہ ہم کتاب سے دوری اختیار کر کے بیٹھے ہیں ہم دنیا اور وقت سے کچھ سیکھنے کو تیار نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button