Editorial

لگژری اشیاکی درآمد پر پابندی کا خاتمہ

وفاقی حکومت نے لگژری اشیاکی درآمد پر پابندی ختم کرکے اِن پر بھاری ریگولیٹری ڈیوٹی عائدکردی ہے۔ تمباکو اور سگریٹ پر 36 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگیں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ و ریونیو مفتاح اسماعیل نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہےکہ آئی ایم ایف بورڈ اجلاس سے قبل پرتعش اشیاء اور مکمل تیار شدہ مصنوعات کی درآمد پر پابندی ختم کر دی جائے جبکہ ورلڈٹریڈ آرگنائزیشن کے رکن ہونے کے ناطے بھی ہمیں یہ پابندی3ماہ سے زیادہ نہیں رکھ سکتے لیکن پرتعیش اشیاء پر اس قدر کسٹم ڈیوٹی ، ریگولیٹری ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس عائد کر دیا جائے گا تاکہ اس کی درآمد کم سے کم ہو سکے۔درآمد پر تین گنا یا 400سے 600فیصد تک ڈیوٹی لگائیں گے، مرسڈیز سمیت بڑی گاڑیوں پر زیادہ ڈیوٹی لگائیں گے، حکومت درآمدات پر پابندی ہٹا رہی ہے تاہم پرتعیش اشیاء کی درآمدات کی حوصلہ شکنی کیلئے بھاری ریگولیٹری ڈیوٹیز عائد ہوں گی۔پس وفاقی حکومت نے 80ارب روپے سے زائد کے ٹیکس ریونیو کے حصول کےلیے آرڈیننس کےذریعے منی بجٹ پیش کرنے کا فیصلہ کیا اور آرڈیننس کےذریعے 36ارب روپے کے اضافی ٹیکس سگریٹ انڈسٹری اور تمباکو پر لگائے جائیں گے اورچند روز میں آر ڈیننس نافذ کر دیا جائے گاجس میں ریٹیلرز پر بجٹ میں عائد کیا گیا فکس ٹیکس ختم کر دیا جائےگا ریٹیلرز کے 42ارب روپے کے فکس ٹیکس کی جگہ 27ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات کیے جارہے ہیں جس میںیکم جولائی سے 30ستمبر کے دوران بجلی کے بلوں کےذریعے3ماہ تک5فیصد سیلز ٹیکس اور ساڑھے 7فیصد انکم ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ یکم اکتوبر سے 50 یونٹ تک کے بجلی کے بلوں پر اسی شرح سے ٹیکس نافذ رہیں گے جبکہ 50یونٹ سے زائد کے بجلی بلوں پر بتدریج اضافہ کیا جائے گا، ایک سے 50یونٹ تک کے تاجروں کے بجلی کے بلوں پر اسی شرح سے ٹیکس عائد ہوگاجبکہ 50یونٹ سے زائد کے بجلی کے بلوںپر پانچ فیصدسے بڑھا کر ساڑھے 7فیصد اور پھر 10فیصد کر دیا جائے گا۔ ایک ہزار یونٹ پر ساڑھے 12فیصد سیلز ٹیکس اور اس سے زائد پر 20فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوگا، جس سے 27ارب روپے کا ہدف حاصل کر لیا جائے گا، گاڑیوں ، موبائل فون اور پرتعیش اشیا ء پر 20ارب روپے تک اضافی کسٹم ڈیوٹی ، ریگولیٹری ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گاالبتہ فارماسیوٹیکلز کے لیے ادویات کی تیار ی میں استعمال ہونیوالے خام مال کی درآمد اور مقامی سپلائی پر عائد ایک فیصد سیلز ٹیکس ختم کر دیا جائے گا۔وزیر خزانہ نے ایک خوشخبری بھی سنائی کہ ہماری برآمدات بڑھ رہی ہیں جبکہ درآمدات میں 16 اگست تک 18 سے 19 فیصد تک کی کمی آئی ہے اور تجارتی خسارہ میں 31 فیصد کے قریب کمی ریکارڈ کی گئی
ہے۔ موجودہ وفاقی حکومت نے روپے کی گرتی قدر اور مشکل معاشی صورتحال سے نمٹنے کے لیے رواں سال مئی میں تمام گاڑیوں، لگژری آئٹمز اور موبائل فونز کی درآمد پر پابندی کا فیصلہ کیا تھا تاکہ جاری کھاتوں کا خسارہ کم ہو سکے۔پابندی کا اعلان کرتے ہوئے حکومت کی توقع تھی کہ اس فیصلے سے سالانہ چھ ارب ڈالر تک درآمدی بل میں کمی ہو گی تاہم اس وقت بھی معاشی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ اشیا کی درآمد پر پابندی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اس سے امپورٹ بل میں ماہانہ صرف 30 کروڑ ڈالر کی کمی ہو گی لیکن اس کے برعکس آئی ایم ایف برآمدات پر پابندی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور جیسا کہ وزیر خزانہ نے بھی کہا کہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر درآمدی اشیا پر پابندی ختم کی گئی ہے، بلاشبہ درآمد اشیا پر پابندی سے امپورٹ بل میں کچھ کمی اور اس کے نتیجے میں زرمبادلہ کی بھی تھوڑی بہت بچت ہوتی ہے مگر دیکھاجانا چاہیے کہ اگر درآمدی اشیا پر پابندی سے ہی معیشت بحال ہوسکتی ہو تو ہر ملک یہی حکمت عملی اپنائے اور پھر نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر درآمدات اور برآمدات ختم اور انڈسٹریز بھی ٹھپ ہوجائیں، پھر کیسے ممکن ہے کہ ہم برآمدات تو کرتے رہیں لیکن درآمدات نہ کریں، اس لیے اُس وقت بھی یہی نظر آرہا تھا کہ اس اقدام سے مختصر مدت میں زیادہ فائدہ نہیں ہو گا تاہم لمبے عرصے میں اس کے فوائد ہو سکتے ہیں مگر بین الاقوامی طور پر اس فیصلے اور اقدام کی نفی ہوگی۔ آج بھی معاشی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ درآمدی بل کا سب سے بڑا پٹرول کی مد میں خرچ ہوتا ہے اس لیے ہم ایندھن کے استعمال کو جس حد تک کم کریں گے ہماری براہ راست بچت ہوگی اور اس پر کسی مالیاتی ادارے کو اعتراض بھی نہیں ہوگا اور صرف اور صرف کفایت شعاری سے ہی پٹرول کی بچت کی صورت میں قیمتی زرمبادلہ بچاسکتے ہیں۔ بلاشبہ لگژری اشیا پر بھاری ٹیکس عائد کرنے سے بھی قومی خزانے کی صورت حال بہتر ہوگی لیکن ہمیں سوچنا چاہیے کہ سب سے زیادہ زرمبادلہ کس مد میں خرچ ہورہا ہے پھر اُس میں بچت کی منصوبہ بندی کی جائے اور بلاتفریق حکومت اور عوام اس بچت مہم کا حصہ بنیں۔ وزیراعظم شہبازشریف کفایت شعاری پر عمل کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ مالی طور پر مضبوط لوگوں کو اس کوشش میں آگے بڑھنا چاہیے تاکہ ہم میں سے کم مراعات یافتہ لوگوں کو یہ بوجھ نہ اٹھانا پڑے مگر دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ کفایت شعاری برائے نام ہی ہے عملاً حکومت کو جیسے اقدامات کرکے خود بھی اِس پر عمل کرنا چاہیے اور عوام سے بھی عمل کرایا جاتا، ویسا کچھ نہیں کیاگیااس کے برعکس سرشام کاروباری مراکز بند تو کرادیئے گئے جس کا مقصد توانائی کی بچت کے ذریعے درآمدی تیل کے بل کو کم کرنا تھا مگر سرکاری اور سیاسی طور پر اس بچت مہم کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں لیکن یاد رہے کہ بلاتفریق اجتماعی کاوشوں کے بغیر بڑے مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button