Editorial

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی

وزیراعظم شہباز شریف نے ڈیزل کی قیمت میں 40 روپے 54 پیسے اور پٹرول 18 روپے پچاس پیسے فی لٹر کمی کا اعلان کردیا ہے۔لائٹ ڈیزل 34روپے 71پیسے، مٹی کا تیل 33روپے 81پیسے فی لٹر سستا ہوا ہے۔ حالیہ کمی کے بعد پٹرول کی فی لٹر قیمت 230روپے 24پیسے، ڈیزل 236،لائٹ ڈیزل 191روپے 44پیسے اورمٹی کےتیل کی فی لٹر نئی قیمت196روپے 45پیسے ہوگئی ہے۔ وزیراعظم میاں شہبازشریف نے قوم سے خطاب کے دوران ملکی معاشی صورتحال پر بات کی ان کا کہنا تھا کہ چند ماہ پہلے حکومت سنبھالی تو ورثے میں تباہ شدہ معیشت ملی، مہنگائی اپنے عروج پر تھی اور تیل کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی تھیں،
پچھلی حکومت نے آئی ایم ایف سے سخت ترین شرائط پر معاہدہ کیا، جاتے جاتے سابق حکومت نے اس معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں، پی ٹی آئی حکومت نے ہماری لیے بارودی سرنگیں بچھا دیں، سابق حکومت نے تیل کی قیمتوں میں اچانک کمی کی، تیل کی قیمتوں میں کمی کے لیے خزانے میں پیسے نہیں تھے، یہ کام ہماری حکومت کو مشکلات میں ڈالنے کے لیے کیا گیا۔وزیراعظم پاکستان نے قوم سے کہا کہ میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ کبھی غلط بیانی نہیں کروں گا، ہم نے دل پر پتھر رکھ کر قیمتوں میں اضافہ کیا، ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں تیزی سے گررہی ہیں، آج ہمیں تیل کی قیمتوں میں کمی کا موقع ملا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان اور وزیراعظم پاکستان کے قوم سے خطاب پر بات کرنے سے پہلے ہم بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کا سلسلہ جاری ہے اورماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں حالیہ کمی کی وجہ امریکی حکومت کی جانب سے شرح سود میں رواں ماہ ممکنہ اضافہ ہے۔
بلاشبہ حکومت کا عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عام صارف کو دینے کا اعلان خوش آئند اور قابل تحسین ہے لیکن دوسری طرف دیکھا جانا چاہیے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک سو روپے فی لٹر کے لگ بھگ اضافہ، موجودہ حکومت کے دور میں کیاگیا ہے، چونکہ عالمی مالیاتی ادارے کی شرط پوری کرنے کے لیے عام صارف کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی منڈی سے جوڑ دی گئی ہیں اس لیے عالمی منڈی میں ہونے والے اُتار چڑھائو سے عام صارف براہ راست متاثر ہوگا۔ پٹرول جب ڈیڑھ سو روپے کے لگ بھگ فی لٹر فروخت کیا جارہا تھا اِس وقت بھی پاکستانی عامۃ الناس مہنگائی کی وجہ سے پریشان تھے، اگرچہ عوام کا مسئلہ مہنگائی کے ساتھ بے روزگاری اور ایسے کئی دوسرے معاشی مسائل ہیں
جو نہ صرف عام پاکستانیوں بلکہ خریدار اور کارخانے دار کو براہ راست متاثر کررہے ہیں۔ اسی لیے پٹرولیم مصنوعات سے سبسڈی ختم کرنا عام صارف کے لیے انتہائی پریشان کن ہے، کم آمدن افراد کی آمدن کا بڑا یا نصف کے برابر حصہ صرف روزگار کے حصول کے لیے آمدورفت یعنی پٹرول کی مد میں خرچ ہورہا ہے، پبلک ٹرانسپورٹ چونکہ بتدریج معدوم کرکے ختم ہی کردی گئی ہے اس لیے ہر پاکستانی کے لیے اپنی سواری کا انتظام انتہائی ناگزیر ہے اور ایک اندازے کے مطابق ہر گھر پر ایندھن کے اخراجات کی مد میں قریباً تین سے چار ہزار روپے کا اضافی بوجھ پڑا ہے۔ مجموعی معیشت کو پہنچنے والے نقصان تو ناقابل بیان ہے، کیونکہ ڈیزل بڑے پیمانے پر نقل و حمل و حرکت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ زراعت کے شعبے میں قریباً ہر کام ڈیزل سے چلنے والی مشینری کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے خواہ وہ ٹریکٹر ہوں یا ٹیوب ویل سبھی ڈیزل سے چلتے ہیں۔ پھر تجارتی شعبے یعنی کارخانوں اورفیکٹریوں میں جنریٹر اور مشینری کے لیے بڑی مقدار میں ڈیزل کا استعمال ہوتا ہے اس لیے جب بھی ڈیزل کی قیمت بڑھے زراعت اور تجارتی شعبہ براہ راست اِس کی زد میں آتا ہے اور پھر نتیجے میں زرعی مصنوعات اور تجار سبھی مہنگے ہوکر عوام پر گراں گذرتے ہیں،
حالیہ دنوں میں چونکہ ملک بھر میں بجلی کی بندش کے سبب تجارتی شعبے میں جنریٹرز کا استعمال ہورہا ہے اِس کوبھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ حکومت نے ڈیزل کی قیمت میں چالیس روپے کمی کرکے یقیناً زرعی اور تجارتی شعبے کو پچھلے چند مہینوں کے برعکس آسانی فراہم کی ہے جو قابل تعریف ہے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ حکومت کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان چند مہینوں میں جو اشیائے خورونوش اور صنعتی سامان ڈیزل مہنگا ہونے کی وجہ سے عام مارکیٹ میں مہنگا کیاگیا کیا اُس کی قیمت میں کمی لائی گئی ہے یا نہیں، خصوصاً پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے جو حالیہ اضافے کے باعث حیرت انگیز طور پر بڑھائے گئے تھے اُن میں کمی لانے کو یقینی بنایاجانا چاہیے۔ بلاشبہ حکومت کی معاشی ٹیم بالخصوص سیاسی قیادت عام پاکستانی اور صنعتی شعبے کے مسائل کو بخوبی سمجھتی ہے اِس لیے بتانے کی ضرورت نہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے شہروں میں رہنے والوں کی زندگی زیادہ مشکل بنادی ہے۔ ملک کی معاشی صورتحال نے ملکی انڈسٹری کو بری طرح متاثر کررکھا ہے تو دوسری طرف عام پاکستانی کے پاس موجودہ مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے ضرورت کےمطابق وسائل نہیں کیونکہ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات سمیت کم و بیش ہر چیز کی قیمت دُگنی ہوچکی ہے ۔ معاشی ترقی سست روی کا شکار ہے اگرچہ آنے والے دن اچھے ہونے کی نوید سنائی جارہی ہے لیکن مدنظر رکھاجائے کہ عام پاکستانی کی معاشی حالت بتدریج بہتر کرنا انتہائی ضروری ہے خواہ وہ مہنگائی کم کرکے ہو یا پھر اُس کے وسائل بڑھاکر اِس کے بغیر کوئی چارہ نہیں وگرنہ معاشی لحاظ سے لاغر عوام مزید معاشی علالت کا شکار ہوجائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button