Columnعبدالرشید مرزا

آئی ایم ایف جب ایٹمی اثاثے مانگے گا؟ عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

میرے ملک کے لوگو! آنکھیں کھولو، بددیانت حکمرانوں کو پہچانوورنہ ہماری داستاں نہ ہوگی داستانوں میں، وہ وقت دور نہیں جب ایک پاکستانی دوسرے کو اس لیے مارے گا کیونکہ اس کے پاس کھانا کھانے کے پیسے نہیں ہوں گے۔ معاشی بحران آتے ہیں لیکن تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب حاکم وقت بہتری کے لیے کوئی قدم نہ اٹھائے۔ بجٹ اگلے سال کی معیشت کا عکس ہوتا ہے لیکن حالیہ وفاقی بجٹ دیکھیں تو اگلے سال کی معیشت کا بھیانک چہرہ نظر آتا ہے، معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں، ترقی تو بہت دور کی بات ہے، غریب کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں 7 کروڑ 70 لاکھ عوام غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے وہ بڑھ جائے گی، ایسا لگتا ہے صحت اور تعلیم کسی پاکستانی کا حق نہیں۔

حکومت نے اس بجٹ میں تعلیم کے لیے 12 ارب اور صحت کے لیے 6 ارب رکھے ہیں یعنی 18 ارب اس کے مطابق 22 کروڑ عوام کے لیے صحت کے لئے 27 روپے اور تعلیم کے لیے 54 روپے مختص کئے ہیں۔ یعنی تعلیم اور صحت پر کسی غریب کا حق نہیں ہےبجلی کی قیمت میں 9روپے، گیس کی قیمت میں 45 روپے، پٹرول کی قیمتوں میں 60 روپے اضافہ متوقع پٹرولیم مصنوعات پر 17 فیصد سیلز ٹیکس، پٹرول ڈویلپمنٹ لیوی لگائی ،پٹرول 260 روپے پر چلا جائے گا، جس سے مہنگائی میں بے حد اضافہ نظر آئے گا۔ پیداوار کے اخراجات میں اضافہ ہوگا، برآمدات میں اضافہ ہوگا، زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 9.2 بلین ڈالر ہیں، جی ڈی پی سے قرضوں کی شرح 87فیصد ہے پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے جو انتہائی خطرناک ہے، حکمرانوں نے پھر بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے اور برآمدات پچھلے دس مہینوں میں 30 ارب ڈالر اور درآمدات 75 ارب ڈالر رہیں،
درآمدات میں شامل مہنگی گاڑیاں، کاسمیٹکس اور ہم زرعی ملک ہیں اس کے باوجود ہم گندم، سویابین، چینی وغیرہ۔ہمارا انرجی سیکٹر بحران کا شکار ہے جس کی بڑی وجہ تھرمل سے بجلی پیدا کرنا ہے،فرنس آئل سے بجلی 20 روپے یونٹ اور ہائیڈل سے 4 روپے فی یونٹ پیدا ہوتی ہے، ہائیڈل پراجکٹس فوری مکمل کرنے کی ضرورت ہے، بجلی مہنگی ہونے سے ہمارے انڈسٹریل یونٹس کی پیداواری خرچہ زیادہ ہوتا ہے اور برآمدات میں کمی آتی ہے۔بجلی میں سالانہ 16 سو ارب کا نقصان ہو رہا ہے لیکن مراعات یافتہ طبقے کی بجلی بند نہیں کی گئی۔ مرکز کے بجٹ میں صوبوں کا حصہ 4.1کھرب نکال دیں تو مرکز کے پاس 5 کھرب بچیں گے، ان پانچ کھرب میں سے 4 کھرب قرضوں پر سود اور دفاع پر 1.52 کھرب، نصف کھرب پنشنرز کا نکال دیں ترقیاتی بجٹ کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ قرضوں کی صورتحال کرنٹ اکائونٹ کو پورے کرنے کے لیے 12 ارب ڈالر قرض درکار ہوگا، بیرونی قرضے کی ادائیگی کے لیے 21 ارب ڈالر، زر مبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے 8 ارب ڈالر درکار ہوں گے یعنی 40 ارب ڈالر کا آئندہ مالی سال میں قرض لینا پڑے گا۔ تعمیراتی بجٹ 727 ارب رکھا گیا ہے جو پچھلے سال 900 رب سے کم ہے یعنی توقع کی جاسکتی ہے نئے پراجیکٹس تو دور کی بات ہے، جو پراجیکٹس پہلے سے چل رہے ہیں وہ بھی سست روی کا شکار ہوجائیں گے۔
کمال یہ ہے جھوٹ پر مبنی حکومت نے بجٹ میں ڈالر 183 روپے تک گیا ہے جبکہ اس وقت ڈالر کہیں پہنچ چکا ہے جس سے امید رکھی جاسکتی ہے کہ منی بجٹ آئے گا اور مہنگائی اور بڑھے گی۔ آئی ایم ایف کے حکم پر سٹیل ملز، پی آئی اے، واپڈا اور ریلوے کی نجکاری کی جائے گی، یہ وہ ادارے ہیں جو وطن عزیز کی آمدن میں ایک بڑا حصہ ڈالتے تھے کرپٹ اور نااہل حکمرانوں کی وجہ سے آج نقصان میں ہیں۔ ان اداروں میں واپڈا پاکستان کے انرجی سیکٹر کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور پی آئی اے پاکستان کی کمیونی کیشن کے نظام کی بنیاد ہے، ان اداروں کی نجکاری سے مراد پاکستان کے کنٹرول کو کسی دوسرے ہاتھ میں دینا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج پاکستان کی معیشت کی ایسی صورتحال کیوں ہے؟ پچھلے پچاس سال سے یہ ہی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور ان پاکستان تحریک انصاف ہے۔ سب نے ملک کر قرض لیے لیکن انڈسٹری، زراعت، آئی ٹی سیکٹر کو فروغ دینے کی بجائے قرض پر قرض لیا یہ ان کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اب نتیجہ یہ نکلا ہم دنیا کے ان ممالک سے بھی پیچھے رہ گئے جن کا ہم امداد بھیجا کرتے تھے اور کمال یہ ہے جن سیاسی جماعتوں نے ملک کو اس نہج تک پہنچایا آج بھی ہماری بھولی بھالی عوام کے پسندیدہ لیڈر ہیں۔میرے وطن عزیز کے لوگو اب بھی ہوش میں آجاؤ اور دیانتدار اور باصلاحیت لوگوں کا انتخاب کریں ورنہ ملک کی معیشت جہاں پر پہنچ گئی ہے وہاں پر ملک کو دیوالیہ ہونے سے کچھ قدم باقی ہیں، آج ہم ملک کے ادارے بیچنے جارہے ہیں وہ وقت دور نہیں جب ہم ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف ہم سے ایٹمی اثاثے مانگے گا اور ایک بات واضح ہے۔ ہمارے حکمران اور اپوزیشن دونوں تیار ہو جائیں گی اور ایک لمحہ ضائع کئے بغیر لندن اور امریکہ چلے جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button