Editorial

ملک و قوم کیلئے گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے ملکی مسائل کے حل کے لیے گرینڈ ڈائیلاگ کو ضروری قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے75سالوں میں ہونے والے تجربوں سے کچھ نہیں سیکھا، اگلے چند سالوں میں پاکستان راکٹ کی طرح آگے بڑھے گا، گرینڈ ڈائیلاگ کے لیے ہمیں تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا،قومیں محنت ، دیانت ، ایمانداری اور ٹیکنالوجی سے آگے بڑھتی ہیں۔وزیراعظم پاکستان کے خطاب کا اگرچہ ہر پہلو خاص تھا لیکن ملکی مسائل کے حل کے لیے گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت کو نہ صرف ملکی میڈیا بلکہ عالمی سطح پر اُجاگر کیاگیا ہے، اور اسی پر ہم بارہا زور دیتے آئے ہیں کہ ملکی مسائل کے مستقل حل کے لیے ریاست کے تمام ستون مل کر غوروفکر کریں اور اِن مسائل کا حل نکالیں کیونکہ وطن عزیز کو اِس وقت داخلی و خارجی محاذوں پر بے شمار مسائل کا سامنا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اِن میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہی ہورہا ہے، لیکن اُن کی سنگینی کا ادراک کیے بغیر ایسے معاملات میں اُلجھا جارہا ہے جن کی فی الوقت قطعی ضرورت نہیں، فقط عدم برداشت اور مخالفت برائے مخالفت کو رواج دینے کی وجہ سے یہ مسائل قومی وسائل کو بھی نگل رہے ہیں اور عوام کی زندگی بھی اجیرن بنارہے ہیں لیکن پھر بھی فکر کا فقدان محسوس کیا جارہا ہے، لگتا یہی ہے کہ داخلی و خارجی چیلنجز سے زیادہ وہ معاملات ہیں جن میں ہم اُلجھے ہوئے ہیں اور انہی معاملات سے عوام کو خوشحالی نصیب ہوگی اور ہم خارجی محاذ پر کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔
ہم پھر کہنا چاہیں گے کہ گرینڈ ڈائیلاگ میں سبھی جمہوری و غیر جمہوری طاقتوں اور ریاستوں کے چاروں ستونوں کو موجود ہونا چاہیے تاکہ کج بحثی اور ایسی دوسری غیر ضروری اور غیر منطقی روایات کا خاتمہ ہوسکے جو ملکی ترقی اور خوشحالی کے یکسر خلاف ہیں۔ حالیہ سیاسی صورتحال کو دیکھیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت مسائل نہیں ہیں ۔ اقتدار کی لڑائی کے عام تاثر کو ختم کرکے ایک چھت تلے بیٹھنے کی ضرورت ہمیشہ سے محسوس کی جاتی ہے اور سنجیدہ حلقے سوال کرنے پر حق بجانب ہیں کہ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں گرینڈ ڈائیلاگ کیوں نہیں سکتا؟ جب ریاست کے چاروں ستون درپیش چیلنجز پر غورکریں گے تویقیناً ہم حل کے بالکل قریب پہنچ جائیں گے لیکن کیا تمام سیاسی قوتیں اپنی روایتی سیاست اور الزام تراشی کو پس پشت ڈال کر ملک و قوم کے لیے متحد نظر آئیں گی؟ ہم وزیر اعظم میاں محمد شہبازشریف کی اِس بات سے صد فی صد متفق ہیں کہ قرض پر رہنے والا ملک کب تک زندہ رہے گاکیونکہ پہلا قرض اُترتا نہیں اور معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے مزید قرض کی ضرورت پیش آجاتی ہے، یہی وہ مسائل ہیں جنہوں نے ہمیں آگے لے جانے کی بجائے ریورس گیئر لگارکھا ہے
اور اس وقت دنیا میں ہمیں جہاں ہونا چاہئے تھا بدقسمتی سے وہاں نہیں پہنچ سکے بلکہ اُلٹی سمت چل رہے ہیں، پاکستانی محنت قوم ہیں، دنیا بھر میں پاکستانی اپنی قابلیت کا لوہا منواتے ہیں، لیکن ہماری تمام تر صلاحیتیں ہماری پاک دھرتی کے لیے فقط اِس لیے کام نہیں آتیں کہ یہاں مختلف الخیال و مزاج اور رویے اِن کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، کوئی ایک قومی مسئلہ اٹھالیں کوئی سیاسی جماعت اِس کو اکیلے حل نہیں کرسکتی لیکن پھر بھی ہر کوئی دعویٰ کرتا ہے اورپھر ناکامی کا اعتراف بھی کرتا ہے لیکن کبھی گرینڈ ڈائیلاگ کے ذریعے اُن کا حل نکالنے کی کوشش نہیں کرتا کہ شاید اُس کی ناکامی تصور کی جائے گی، گرینڈ ڈائیلاگ کی ماضی میں بھی میاں محمد شہبازشریف کئی بار پیشکش کرچکے ہیں کیونکہ ہمارے مسائل اتنے گمبھیر ہوچکے ہیں کہ اُن کے لیے پوری قوم اور قیادت کا ایک پیج پر ہونا اور متفق ہونا ضروری ہے مگر بدقسمتی سے ایسی پیشکش کو رد کرنے میں ذرہ برابر تاخیر نہیں کی جاتی۔ وزیراعظم پاکستان کی حالیہ پیشکش کو حکومت مخالف جماعت نے یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وسیع البنیاد مذاکرات کا شوشہ حکومتی ناکامی اور 50 روز میں پھیلائی گئی معاشی تباہی کا اعتراف ہے، حکمرانوں سے مذاکرات نہیں کریں گے، موجودہ حکومت اپنی ناکامیاں ہم پر ڈالنا چاہتی ہے۔
میثاق جمہوریت ہو، میثاق معیشت یا پھر گرینڈ ڈائیلاگ ، ہماری سیاسی قیادت کبھی ملک و قوم کے بہترین مفاد کے لیے متحد اور متفق نظر نہیں آئی، یہی تقاضا اور مقصد ظاہر کیا جاتا ہے کہ ہمیں اقتدار ملے تو ہم ہی اِن مسائل کو حل کریں گے لیکن پھر اقتدار ختم ہونے کے بعداپنی ناکامی بھی تسلیم کی جاتی ہے مگر گرینڈ ڈائیلاگ یا کسی میثاق پر رضامندی ظاہر نہیں کی جاتی۔ ملک و قوم شدید آزمائش کے دور سے گذر رہے ہیں، لوگ سراپا احتجاج ہیں کہ اُن کے مسائل حل کیا جائیں، مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ کیا جائے مگر یہ مسائل اُس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ اکیلی حکومت اِن مسائل کو حل نہیں کرسکتی جو پچھلے ستر سال سے پیدا کیے جاتے رہے ہیں اور ان کو گھٹانے کی بجائے اِن میں اضافہ کیا جاتا رہا ہے مگر اب مجموعی حالات ایسے ہیں کہ بحرانوں کا شکار ملک مزید کسی بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے محاذ آرائی جس معاملے پر بھی ہو اور جو بھی کرے اس کا صرف اور صرف ملک و قوم کا نقصان ہوگا لہٰذاموجودہ صورتحال کا واحد حل گرینڈ ڈائیلاگ ہے،
مگر سیاسی قیادت کو کون متفق کرے گا کہ وہ سیاسی ڈائیلاگ میں حصہ لیکر موجودہ بحرانوں کا حل تجویز کریں اور پھر اجتماعی کاوشوں کا صدق دل سے حصہ بھی بنیں کیونکہ مجموعی روش تو یہی دیکھی گئی ہے کہ ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کیا جاتا اور پھراقتدار ملنے کے بعد اِسے آزادی سے کام کرنے نہیں دیا جاتا اور پھر حالات اِس نہج پر پہنچادیئے جاتے ہیں کہ واپسی کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی جیسا کہ حالیہ دنوں میں ہم دیکھ بھی رہے ہیں، ملک قرضوں کے بوجھ تلے دھنستا جارہا ہے، داخلی اور خارجی مسائل بڑھ رہے ہیں، عوام کا معیار زندگی تیزی سے گر رہا ہے، لوگ عزت کی روٹی کے لیے دربدر ہورہے ہیں، معاشرتی تقسیم عام نظر آرہی ہے مگر کسی کو فکر لاحق نہیں، کیونکہ مخالفت برائے مخالفت کی سیاست میں ڈائیلاگ کی گنجائش نہیں ہوتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button