ColumnImtiaz Aasi

عازمین حج کا کیا قصور؟ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

ہمارے ہاں سرکاری محکموں کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ بارہ سو سےزائد عازمین حج بینکوں میں واجبات جمع کرانے کے باوجود دربدر ہیں۔حج فلائٹس شروع ہو چکی ہیں۔ دو سال فارغ رہنے کے باوجود وزارت کی کارکردگی کا یہ حال ہے کہ جب قرعہ اندازی میں لوگ کامیاب ہو گئے تھے لازمی بات ہے انہیں حج پر جانا تھا۔چلیں بینکوں سے تو تسائل ہو ا ہی تھا تو کیا وزارت مذہبی امور کا متعلقہ شعبہ سو رہا تھا انہوں نے اتنی زحمت نہیں کی بینکوں سے پوچھ لیا جاتا ان لوگوں کے واجبات وصول ہو ئے ہیںیا نہیں۔اگر ان سے پوچھ لیا جاتا تو بارہ سو عازمین حج کے لیے اتنا مسئلہ کھڑا نہ ہوتا۔

ہماری تحقیق کے مطابق قومی بینکوں سے کہا گیا تھا وہ واجبات جمع کرانے والے عازمین حج کے ناموں سے وزارت مذہبی امور کو 28 مئی تک مطلع کردیں۔حبیب بنک نے واجبات ڈیپازٹ کرانے والے عازمین حج کے ناموں بارے وزارت کو مطلع کرنے میں کچھ تاخیر کردی۔کمپیوٹرسسٹم میں پہلے سے انتظاری فہرست میں جن عازمین حج کے نام شامل تھے، و ہ سسٹم کے تحت کامیاب عازمین حج کی فہرست میں شامل ہونے سے بارہ سو سے زائد عازمین حج سعودی عرب جانے سے محروم ہوگئے۔ایک طریقہ کار کے تحت وزارت مذہبی امور نے ان عازمین حج کی فہرست بنا رکھی ہوتی ہے جنہیں انتظاری فہرست waiting list میں رکھا جاتا ہے۔ ا ب یہ بارہ سو سے زیادہ عازمین حج کا نصیب ہے، اگر کوئی عازمین حج نہیں جانا چاہے  گا تو اس کی جگہ انہیں ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔جو عازمین حج نہ جانا چاہیں ان کی جو فہرست بنائی جاتی ہے اسے ڈراپ آئوٹ عازمین حج کہا جاتا ہے۔
وفاقی وزیر مذہبی امور عازمین حج کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کے دعویٰ کرنے سے نہیں تھکتے۔پہلے تو انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا وہ سعودی حکومت سے عازمین حج کے لیے بہت سی سہولتیں لے کر آئے ہیں نہ جانے ان سہولتوں کو انہوں نے صیغہ راز میں کیوں رکھا ہے۔ پرائیویٹ گروپس میں عازمین حج کو لے جانے والے اپنی جگہ گومگو میں ہیں۔دو سال کا وقفہ آنے سے بینکوں نے ان کے اکاونٹس منجمد کر رکھے تھے۔

حج گروپس آرگنائزز نے اپنے کوٹہ کے عازمین حج کے رہائش، ٹرانسپورٹ اور منیٰ کے خیموں کے علاوہ معلمین کے حصول کے لیے ترسیلات زر سعودی عرب بھیجنا ہیں۔بینک ان کے اکائونٹس فنکشنل کرنے میں لیت ولعل کر رہے ہیں۔ہم تو حیران ہیں کہ گذشتہ سالوں کے مقابلے میں نصف تعداد عازمین حج کے لیے انتظامات کا یہ عالم ہے تو اگر پورا کوٹہ مل جاتا ہے تو پھر نہ جانے کیا گل کھلااتے۔بعض پرائیویٹ ٹور آپریٹروںنے ایک نیا کام شروع کر رکھا ہے۔عازمین حج کے لیے کیٹگری بی کا معلم الاٹ کرانے کے باوجود عازمین حج سے زیادہ سے زیادہ پیسے وصول کرنے کی خاطر انہیں اس بات کا چکما دیا جا رہا ہے کہ انہیں اے کیٹگری کی سہولتیںمہیا کی جائیں گی۔اسے حج انتظامات میں بدنظمی نہیں تو اور کیا کہا جائے گا۔

سرکاری انتظام میں جانے والے عازمین حج کے رہائشی انتظامات کا معاملہ بھی مبینہ طور پر بے قاعدگیوں کا شکار ہے۔امسال عازمین حج کی کم تعداد کے پیش نظر جرول جیسی جگہ میں چند ہزار حاجیوں کے لیے رہائش مل گئی ہے۔عزیزیہ میں تو ہر سال حاجیوں کو ٹھہرایا جاتا ہی تھا۔اگلا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے۔سعودی حکومت نے رہائش کیا ہر شے پر پندرہ فیصد ٹیکس لگا دیا ہے۔

اندرون خانے اکیس یا بائیس سو ریال میں رہائش حاصل کی گئی ہے جب کہ عازمین حج سے چھبیس سو ریال وصول کئے گئے ہیں۔یہ معاملہ بھی تحقیق طلب ہے۔سعودی عرب میں حاجیوں کے رہائشی انتظامات میں اربوں روپے کا لین دین ہوتا ہے۔ سعودی مالکان عمارات کو حکومت پاکستان زرمبالہ کی صورت میں ادا کرتی ہے۔ہمیںحج امور پر لکھتے تین عشروں سے زیادہ وقت ہو گیا ہے کوئی سال ایسا نہیں حج انتظامات میں بہتری آئی ہو ۔ہر سال کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ مدینہ منورہ میں جو رہائش لی گئی ہے وہ کہتے ہیں مرکزیہ میں ہے۔جب ہمارا حج آپریشن تاخیر کا شکار ہو چکا ہے تو سرکاری سکیم میں جانے والے تمام عازمین حج کو مرکزیہ میں کوئی اندھا مالک مکان رہائش دے گا۔یہ بات درست ہے معاہدہ کرتے وقت مالکان عمارات تو حرم نبوی کے قریب دیکھا دیتے ہیں۔اگر عازمین حج ذولقعدہ کی پہلی تاریخ کو روانہ ہو جاتے تو مرکزیہ کے ہوٹلز خالی ہوتے ہیں۔ماسوائے افریقہ کے تمام ملکوں کے عازمین حج ذولقعدہ کے دوسرے ہفتہ میں مدینہ منورہ پہنچتے ہیں۔ذولقعدہ کاپہلا ہفتہ تو گذر گیا ۔اب عازمین حج مدینہ منورہ پہنچیں گے تو تمام دنیا سے حاجی مدینہ منورہ پہنچ چکے ہوں گے۔

اس صورت حال میں مرکزیہ میں عازمین حج کو رہائش کی فراہمی نہ ممکن اس لیے ہوتی ہے کہ عمارات کے مالکان زائد کرایوں پر پاکستانی عازمین حج والی عمارات دوسرے ملکوں کو دے دیتے ہیں۔اس مرتبہ تو کمال ہو گیا گذشتہ سالوں میں ایک کمرہ میں چار حاجیوں کو ٹھہرایا جاتا تھا امسال مدینہ منورہ میں انہی کمروں میں سات حاجیوں کو رکھا جائے گا۔پاکستان عمارات کے مالکان کو تمام ملکوں سے پہلے پیسے ادا کر دیتا ہے اسی لیے سعودیوں کی بھرپور کوشش ہوتی ہے وہ اپنی عمارات پاکستان کو دیں۔پاکستان کے مقابلے میں دوسرے ملکوں مثال کے طور پر مصر، انڈونیشاء ملائشیااور ترکی والے زیادہ کرایہ دیتے ہیں۔مرکزیہ کی مسجد نبوی سے مسافت دو سو میٹر ہوگی۔عازمین حج مسجد نبوی میں اقامت ہو رہی ہوتی ہے تو نماز میں پہنچ جاتے ہیں۔اب یہ کام سعودی عرب میں حج مشن کا ہے وہ سعودی مالکان پر نظر رکھیں کہیں ایسا نہ ہو جب پاکستانی عازمین حج مدینہ منورہ پہنچیں تو انہیں مرکزیہ سے باہر سات سو میٹر پر رہائش مہیا کردیں۔پھر ایسے موقعوں پر کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔

گھنٹو ں سفر کی مسافت سے تھکے ہارے عازمین حج بس ٹھنڈے کمرے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔جب ایک دفعہ کمرہ میں چلے جائیں تو گھنٹوں انہیں ہوش نہیں آتا ۔پھر انہیں اپنی رہائشی کی مسجد نبوی سے مسافت کی پرواہ نہیں ہوتی۔سعودی مالکان کی چاندی ہو جاتی ہے وہ مرکزیہ کے ہوٹلز جو انہوں نے معاہدے میں پاکستانی عازمین حج کو دینے تھے وہ دوسرے ملکوں کے عازمین حج کا نصیب میںٹھہرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button