Editorial

 سیاسی کج بحثی پر پاک فوج کا موقف

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے دھمکی آمیز خط کے معاملے پر پاک فوج کا موقف پیش کرکے صحیح صورت حال کی مفصل اور کشادہ الفاظ میں وضاحت کردی ہے۔ اب کسی ابہام کی گنجائش باقی نہیںرہنی چاہیے کہ مراسلہ خود ساختہ تھا، یا تھا ہی نہیں یا ایسے جتنے بھی سوالات ،جو پچھلے دنوں اِس حوالے سے اٹھائے جارہے تھے۔ یقیناً پاک فوج کے ترجمان کی بریفنگ میں ان تمام سوالات کے جوابات موجود تھے۔ میجر جنرل بابر افتخار نے ایک بار پھر واضح کیا کہ پاک فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اِس لیے فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں ، ترجمان کو مختصر عرصے میں یہ بات ایک بار پھر دھرانا پڑی کیوں کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے پہلے اور بعد میں بعض حلقوں کی جانب سے ایسا تاثر دیا جارہا تھا جو قطعی مناسب نہیں تھا لیکن تب بھی ترجمان پاک فوج نے وضاحت کی کہ پاک فوج اپنے کام سے کام رکھتی ہے اور اگر سیاسی مداخلت کا کوئی دعویدار ہے تو اِس سے ثبوت طلب کیے جائیں مگر پھر بھی پاک فوج کے سیاست سے تانے بانے جوڑنے کا سلسلہ نہ رکا اور اِس میں خاص طور پر تیزی اِس وقت آئی جب تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور چہار اطراف سے ایسا پروپیگنڈا شروع کیاگیا جس کا قطعی کوئی جواز نہیں تھا، اسی دوران ایک برطانوی خبر رساں ادارے نے ان افواہوں کو تقویت دینے کے لیے ایک من گھڑت خبر پھیلائی جس کے بعد پاک فوج کو ایک بار پھراِس سیاسی معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کرنا پڑا۔ دو روز قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں فورم نے ادارے اور سوسائٹی کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کی مہم کا نوٹس لیا۔ فارمیشن کمانڈرز نے موقف اپنایا کہ اس پروپیگنڈے کا مقصد سوسائٹی اور ادارے کے درمیان خلیج پیدا کرنا ہے،
پاکستان کی قومی سلامتی سب سے بڑھ کر مقدم ہے۔ پاک فوج کوئی سمجھوتہ کیے بغیر ریاستی اداروں کے ساتھ ہمیشہ کھڑی رہے گی۔ فارمیشن کمانڈرز نے آئین اور قانون کی سربلندی کے لیے عسکری قیادت کے فیصلوں پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیااور کہا کہ آئین وقانون کی حکمرانی کے لیے عسکری قیادت کے بہترین فیصلوں پر ہر قیمت پر ساتھ ہیں۔اس کے بعد پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخارنے ایک روز قبل پریس بریفنگ میں کہا کہ ہم نے متعدد بار واضح کیا ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، ہم پھر کہتے ہیں کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں، یہ مہم پہلے بھی کامیاب نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی اب ہوگی، افواج پاکستان کی قیادت کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے، افواہوں کی بنیاد پر کردار کشی کرنا کسی صورت قابل قبول نہیں، عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،
دھمکی آمیز خط کے حوالے سے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیہ میں وضاحت کر چکے ہیں۔ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت تھی جس پر احتجاجی مراسلہ بھی جاری کیا گیا، پاکستان کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے، نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا ذکر نہیں ہے، آرمی چیف ایکسٹینشن نہیں چاہتے، وہ وقت پر ریٹائر ہوں گے، جوہری اثاثوں کی بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے، سابق وزیراعظم نے فوجی قیادت سے رابطہ کیا تھا، امریکہ نے فوجی اڈے مانگے اور نہ ہم نے دیے، اگر مانگتے بھی تو پاک فوج کا وہی موقف ہوتا جو وزیراعظم کا تھا، اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ حکومت کو کوئی آپشنز نہیں دیے، نو اپریل کی رات کے حوالے سے بی بی سی کی خبر سراسر جھوٹ پر مبنی سٹوری ہے، پاک فوج کا سیاست میں عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور اس بات کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے،
پاک فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، پاک فوج اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کرتی ہے اور کرتی رہے گی، فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں، فوج کون ہوتی ہے کسی کو این آر او دینے والی؟۔ وہ اپنا کام کررہی ہے، اگر کوئی دھمکی موصول ہوئی تو وہ وزارت داخلہ دیکھتی ہے، احتجاجی مراسلے صرف سازش پر نہیں اور بھی کئی معاملات میں جاری کیے جاتے ہیں، یہ سفارتی طریقہ کار ہے تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں انکشاف کیا کہ سابق وزیر اعظم نے سیاسی بحران کے حل کے لیے آرمی چیف سے رابطہ کیا تھا۔ ترجمان پاک فوج کی مفصل وضاحت کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اِس معاملے پر وطن عزیز کی تمام سیاسی جماعتوں کو متفقہ لائحہ عمل طے کرنا چاہیے تاکہ زیر بحث مراسلے کا معاملہ بھی کسی انجام تک  پہنچ سکے اور آئندہ کسی کو بھی ہمارے ریاستی معاملات میں مداخلت کی جرأت نہ ہو۔
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت دعویدار ہے کہ اِس مراسلے کی بنیاد پر اُن کے دورِ اقتدار کا خاتمہ ہوا تو دوسری طرف ترجمان پاک فوج نے بھی اِس مراسلے کی قومی سلامتی کے تمام پہلو مدنظر رکھتے ہوئے وضاحت کردی ہے، لہٰذا اب اِس معاملے کا مزید چرچا کرنے کی بجائے ، معاملہ کسی ٹھکانے لگایا جائے تاکہ غلط فہمیاں بھی دور ہوں اور سیاسی عدم استحکام کا بھی خاتمہ ہو، خصوصاً قومی سلامتی کے اداروں اور افواج پاکستان کے خلاف چلائی جانے والی غلیظ پروپیگنڈا مہم کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے افواج پاکستان اور سلامتی کے اداروں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا جانا چاہیے کیوں کہ یہ مہم پاکستان میں انتشار پھیلانے کی سازش ہے اور اِسے بہرصورت ناکام بنایا جانا چاہیے اور پھر سیاسی میدان میں ملک کے سلامتی کے اداروں اور افواج پاکستان کو قطعی زیر بحث نہیں لاناچاہیے،
سیاسی قائدین خود بھی اِس معاملے پر محتاط رہیں اور اپنے کارکنان کے لیے بھی مثال بنیں ۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر جو کچھ ہورہا ہے اِسے بیرونی اثرورسوخ کے ذریعے بڑھایا جارہا ہے، کچھ دراڑیں ضرور وجود رکھتی ہیں جنہیں بیرونی اثرو رسوخ سے بڑھایا اور پھر اس کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے، اِس لیے قائدین کو ایسی دراڑیں بڑھانے یا مزید پیداکرنے کی بجائے ملک و قوم بلکہ اُمہ کے بہترین مفاد میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے اِس حوالے سے میجر جنرل بابر افتخار نے بالکل درست کہا ہے کہ لوگوں کے سیاست اور نیشنل سکیورٹی سے متعلق خیالات کو منفی شکل دی جارہی ہے، اس میں کچھ خیالات حقیقی بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس کو بیرونی اثرورسوخ سے اس تیزی کے ساتھ بڑھایا جارہا ہے جسے بغیر تصدیق کے آگے شیئر کردیا جاتا ہے اِس لیے سوسائٹی کو ان اثرات سے بچانے کے لیے ہمیں بہت مربوط اقدامات کرنے پڑیں گے، یہ حکومتی سطح پر بھی کرنا پڑے گا اور انفرادی سطح پر بھی کرنا پڑے گا، تمام اداروں کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button