Columnمحمد مبشر انوار

اہمیت !!! ….. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

آج دنیا بظاہر انتہا سے زیادہ مہذب دکھائی دیتی ہے لیکن پس پردہ اقتدار و اختیار کی اپنی فطری جبلت کے ہاتھوں مجبور نظر آتی ہے،جنگل کے قانون کے عین مطابق،جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون آج بھی کرہ ارض پر نافذ العمل ہے۔ دنیاوی تہذیب و انسانی حقوق کا رونا محض ایک دکھاوا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ اپنی بقا کے نام پر یا توسیع پسندانہ عزائم کی خاطر کمزور ریاستوں یا گروہوں کو آج بھی تہ تیغ کرنے سے دریغ نہیں کیا جا رہا۔ اوپری سطح پر بیٹھے اقوام عالم کے ٹھیکیدار،بندربانٹ کے نام پر یا اپنے مخالفین کو خاک چٹوانے کی خاطر ایسے گھناو ¿نے کام کرتے نظر آتے ہیں،کہ ان مفادات کے حصول میں ،بنی نوع انسان کی بڑی تعداد رزق خاک بن جاتی ہے ،خون انسانی ،پانی سے بھی ارزاں گلی کوچوں میں پھیلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔”میں“کی گردان میں خوبصورت و حسین علاقے،کھنڈرات بنا دئیے جاتے ہیں اور پھر ان کی تزئین نو کی خاطر،وہاں کے مقامیوں کا خون چوس کر ہی ان علاقوں کو از سرنو تعمیر کیا جاتا ہے۔لیکن اس سے قبل ،طرفین کو بھرپور طریقے سے اکسایا،ورغلایا اور للکارا جاتا ہے،وعدے وعید کئے جاتے ہیں لیکن بد قسمتی سے بمشکل بروقت ایسے اقدامات نظر نہیں آتے،جس سے بنی نوع انسان کو بچایا جا سکے۔اس کی دوسری بڑی وجہ فقط یہ ہے کہ جب تک خلق خدا جنگوں میں نہ دھکیلی جائے،ہتھیاروں کی صنعت کو فروغ کیسے حاصل ہو؟ہتھیاروں سے کمائی کیسے کی جائے؟نت نئے ایجاد کردہ ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی کا اندازہ کیسے لگایا جائے؟ان ہتھیاروں کو مزید تباہ کن کیسے بنایا جائے؟ماضی بعید میں بھی یہی کھیل رچائے جاتے تھے کہ جب طاقتور چھوٹی چھوٹی باتوں پر کمزوروں پر چڑھ دوڑتے اور ماضی قریب میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جہاں طریقہ کار براہ راست جارحیت کی بجائے،باج گزار بنا کراپنے مفادات کشید کئے جاتے رہے۔لب لباب صرف اتنا کہ کل بھی ہوس جہاں گیری کارفرما رہی اور آج بھی طاقتوروں کا وہی مقصد حیات ٹھہرا،مظلوم کل بھی کمزورتھا ،مظلوم آج بھی کمزور ہی ہے،فرق صرف اتنا ہے کہ کل کی دنیا آج کی نسبت کم مہذب تھی،تہذیب کا یہ معیار ، بذات خود کتنا بڑا لطیفہ ہے؟؟

1991میں سوویت یونین کے حصے بخرے ہونے میں ایک طرف اس کی افغانستان میں عبرتناک شکست تھی تو دوسری طرف اس جنگ کے نتیجہ میں اس کی زبوں حال معیشت تھی کہ جس کے باعث اس کی کئی ایک ریاستوں نے سوویت یونین سے علیحدگی اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ یہاں یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر واقعتا سوویت یونین میں شامل ریاستیں،اپنی اکائی سے وابستہ رہتی اور تب کے مشکل حالات میں ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے رکھتی،تو یقینا وہ ایک دوسرے سے الگ ہونے کی بجائے،ایک دوسرے کی مشکل وقت میں دل و جان سے مدد کرتی لیکن سوویت یونین کی ریاستوں نے مشکل وقت میں ساتھ دینے کی بجائے،علیحدگی اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ ان ریاستوں کے نزدیک ممکن ہے کہ سوویت یونین کی بحالی کے امکانات باقی نہ رہے ہوں اور علیحدگی میں نہ صرف ان کے لیے بلکہ عوام کے لیے زیادہ سہولت ہو۔ یہاں ایک اور حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ ریاستوں کو متحد رکھنے میں معاشی حیثیت ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور اگر معاشی حیثیت مستحکم نہ ہو تو ایک ریاست کی اکائیوں کو جدا ہوتے دیر نہیں لگتی،تاہم یہ مفروضہ آج غلط ثابت ہو رہا ہے کہ سوویت یونین سے الگ ہونے والی ریاست یوکرین ،اس وقت روسی جارحیت کا شکار ہو چکی ہے۔فقط مستحکم معاشی حیثیت بھی یوکرین کو روسی جارحیت سے محفوظ رکھنے میں ناکام کیوں ہوئی؟اس کا جواب بھی واضح ہے کہ گو یوکرین معاشی طور پر مستحکم ہے لیکن دفاعی اعتبار سے یوکرین نے علیحدگی کے وقت جو حماقت کی تھی ،اس کا خمیازہ آج یوکرین کو روسی جارحیت کی صورت بھگتنا پڑ رہا ہے لیکن کیا واقعی صرف دفاعی کمزوری ہی یوکرین پر جارحیت کا سبب ہے؟اس سوال کا جواب بھی کوئی مشکل نہیں ہے کہ یوکرین کی پالیسیوں کے باعث،جو اس کے حکمرانوں نے اپنائی،آج اسے اس مقام تک لے آئی ہیں کہ وہ روسی جارحیت کا سامنا کرنے پر مجبور ہے،یوکرین گو کہ سوویت یونین سے الگ ہو گیا لیکن اس کے باوجود بھی وہ جغرافیائی طور پرروس کا پڑوسی ہی رہا۔ اس صورت میں یوکرین کو اپنی پالیسیاں بناتے ہوئے انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت تھی کہ روس کا ماضی بھی ساری دنیا کے سامنے ہے کہ وہ ماضی میں بھی ایک مضبوط طاقت رہی ہے اور بارہا نشیب و فراز سے گذر کرسرخرو رہا ہے۔ اس پس منظر میں یوکرین کو روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو کسی بھی موقع پر خراب نہیں کرنے چاہئے تھے لیکن تب یہ کس نے سوچا ہوگا کہ سوویت یونین اتنی بربادی کے بعد پھر عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو مستحکم کر لے گا اور اپنا کھویا ہوا مقام بھی حاصل کر لے گا۔بہرکیف یوکرین نے اپنی آزادی کی قیمت ان پانچ ہزار ایٹمی ہتھیاروں کے عوض حاصل کی تھی،جو سوویت یونین نے وہاں رکھے ہوئے تھے اور بوقت آزادی یوکرین نے وہ تمام ہتھیار روس کو واپس کر دئیے تھے لیکن آج یوکرین کو ان ہتھیاروں کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے،جس کا اظہار اس کے ارباب اختیار کر رہے ہیں۔ اس غلطی کا ارتکاب کرتے ہوئے بھی یوکرین کے دانشور ،اس غلطی کی نشاندہی کر رہے تھے لیکن اس وقت امریکہ بہادر نے کسی بھی قسم کی جارحیت کے نتیجہ میں یوکرین کی مدد کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا اور دوسری طرف روس نے جارحیت نہ کرنے کا لیکن بدقسمتی سے آج ان وعدوں کی موجودگی کے باوجود روس ارتکاب کر چکا ہے۔ روسی جارحیت کی واحد وجہ بظاہر یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے کی خواہش کا نتیجہ لگتا ہے لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ یہ جارحیت فقط نیٹو میں شامل ہونے کی خواہش کی سزا ہے یا روس اپنی گم گشتہ حیثیت کو حاصل کرنا چاہتا ہے؟علاوہ ازیں!کس کو خبر ہے کہ اس جارحیت کے پس پردہ روس ،امریکہ کی نظریں اس محاذ پر لگاکر چین کو تائیوان پر جارحیت کا موقع فراہم کر رہا ہے یا کسے علم ہے کہ امریکہ چین و روس میں اختلافات کی خلیج حائل کرنے کے چکر میں،خود ایک گھن چکر میں پھنس چکا ہے؟
بہرکیف معاملات جو بھی ہے،اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بزعم خود امریکہ جو دنیا کی اکلوتی طاقت بنا،ہر ملک کی قسمت کا فیصلہ کرتا پھرتا تھا،اب اس کے سامنے بیک وقت کئی محاذ کھل چکے ہیں اور ان میں سے بیشتر محاذوں پر اس کے لیے ہزیمت کا سامنا ہی نظر آتا ہے۔ صدر پوتن واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ اگر نیٹو ممالک نے اس معاملے پر ٹانگ اڑائی تو اس کے شدید نتائج اسے بھگتنے ہوں گے،یہ نتائج یقینی طور پر ایک بڑی جنگ کی صورت ہوں گے،جس کے لیے ممکنہ طور پر صدر پوتن تیار ہوں گے،اپنا ہوم ورک کر چکے ہوں گے اور تمام امکانات کا باریک بینی سے جائزہ بھی لے چکے ہوں گے۔ آثار تو یہ بھی دکھائی دیتے ہیں کہ چین اس اہم ترین موقع پر روس کو تنہا نہیں چھوڑے گا کہ ان دونوں طاقتوں کا حریف امریکہ ہی ہے اور اس موقع پر دونوں ممالک اپنا حساب برابر کرنے کی نہ صرف پوری کوشش کریں گے بلکہ امریکی اثرورسوخ کو ختم کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔ رہی بات امریکی پابندیوں کی،تو میرا نہیں خیال کہ لمحہ موجود میں امریکی پابندیاں کسی بھی صورت ان دو ممالک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکیں گی بلکہ اس کے برعکس عین ممکن ہے دنیا واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو جائے۔
ان حقائق کو ریاست پاکستان کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے اور بہت سے ایسے دانشوروں کو بھی،جو پاکستان کی دفاعی حیثیت پر بلاوجہ تنقید کرنے سے نہیں چوکتے،کہ پاکستان یا کسی بھی ریاست کی بقا بنیادی طور پر تین عناصر پر منحصر ہے ،معاشی حیثیت،دفاعی حیثیت اور خارجہ پالیسی۔ 2019میں دفاعی اعتبار سے بہتر پوزیشن حاصل کرنے کے باوجود اپنی معاشی حیثیت و امن عالم کی وجہ سے پاکستان کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا،اگر پاکستان کی معاشی و خارجہ پالیسی مستحکم ہوتی تو نہ صرف بھارت ،پاکستان پر بھونڈے سرجیکل سٹرائیک کی حماقت کرتا اور نہ ہی بعد ازاں پاکستان کو ابھی نندن کو چھوڑنا پڑتا۔بہرکیف پاکستانی ارباب اختیار کے ساتھ ساتھ،یکطرفہ امن کے خواہشمندوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ دور حاضر میں بقا کی خاطر ،معاشی استحکام،دفاعی مضبوطی اور خارجہ پالیسی کس قدر اہمیت رکھتی ہیں!!!

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button