Column

علاقائی تجارت کا فروغ ضروری

تحریر : محمد ناصر شریف

پاکستان کے حالات بہتر بنانے اور ملک کو ترقی یافتہ و خوشحال بنانے کے لئے علاقائی تجارت اور تعلقات کو اہمیت دینا ہوگی اور ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جس میں ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں بہتری آئے اور عالمی سطح پر بھی وطن عزیز کا مثبت امیج اجاگر ہو۔ پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع، موجودہ بنیادی ڈھانچے اور اقتصادی مواقع کی وجہ سے وسطی ایشیا، ایران کے علاوہ دیگر ہمسایہ ممالک کے مابین تجارت کا اہم ذریعہ بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کا محل وقوع ایران یا چین سے گزرنے والے تجارتی راستوں کے مقابلے میں مختصر فاصلے والا کم خرچ تجارتی راستہ فراہم کرتا ہے۔ خطے کے ممالک کے ساتھ تجارت کو وسعت دینا پاکستان کے لئے روایتی تجارتی شراکت داروں پر انحصار کم کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان میں زراعت، ماہی پروری، توانائی، انفرا سٹرکچر، مینوفیکچرنگ سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں اور خطے کے ممالک کے درمیان تجارت سے ان شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
ویسے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ملک کے وہ بابو ہیں جن کو انگریزوں نے تیار کیا تھا اور آج ان کی نسلیں اس بابو سسٹم کو پروان چڑھائے ہوئے ہیں جس کا بنیادی مقصد بااثر افراد سے وفاداری کی تعلیم و تربیت فراہم کرنا تھا۔ پاکستانیوں نے بابو بنائو سسٹم کو سینے سے لگا رکھا ہے اور ہم ایسے بابو تیار کر رہے ہیں جو بظاہر تعلیم یافتہ ، اچھی انگریزی بولنے والے ہیں لیکن وہ کہیں سے بھی اپنے منصب کے مطابق تربیت یافتہ نہیں ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کا نظام نہیں چل رہا ہے نہ اس میں بہتری آرہی ہے۔
انگریزوں کا مقصد اپنے لئے فرمان بردار ملازمین پیدا کرنا تھا وہ اس میں اتنا کامیاب ہوا کہ نسل در نسل سفر کرنے کے بعد آج تک ہمارا بابو سسٹم ان کا غلام ، معاون و مددگار ہے۔ اس بابو سسٹم میں ایک اور خصوصیت یہ پیدا ہوگئی کہ وہ اپنی انا، ہٹ دھرمی اور دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ دوسروں کو ساتھ لیکر چلنے کے بجائے صرف خود کو ہی ماہر سمجھتے ہیں، دوسروں کے حقوق کو سلب کرنا ان کا مشغلہ بن گیا ہے۔ 14اپریل کو لاڑکانہ میں ذوالفقار علی بھٹو کی 45 ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں مرکزی جلسے سے خطاب کے دوران صدر مملکت آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں بیٹھے بابوئوںکو آڑے ہاتھ لیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں بیٹھے بابوئوں کی سوچ، سمجھ اور کم عقلی نے ہمیں غریب بنا رکھا ہے، ہمارے نصیب میں نہیں لکھا کہ پاکستان غریب رہے، اللہ نے ہمیں ہر قسم کی دولت دی ہے، ہمارے پاس دماغ کی کمی ہے، ہمیں سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ملک کو نقصان نہ ہو، صدر مملکت آصف علی زرداری نے پاکستان کے مسائل حل کرنے کیلئے مل بیٹھ کر لائحہ عمل بنانے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پی پی پی 40سال سے لڑ رہی ہے، کبھی دستبردار ہوتی ہے، کبھی آگے بڑھتی ہے، کبھی ایک طرف ہوجاتی ہے اور کبھی آگے بڑھ کر کام کرتی ہے، اگر ہم ہمیشہ لڑتے رہے تو عوام پستے ہیں، عوام کو قربان ہوجاتے ہیں اور بچوں کا مقدر خراب ہوجاتا ہے، اس لئے ہم ایک قدم لینے سے پہلے سوچیں تاکہ اگلی نسلوں کا کوئی نقصان نہ ہو۔ صدر مملکت نے بتایا کہ پاکستان کے عوام کا نقصان ہمارا نقصان ہے، عوام کا نقصان ملک کا نقصان ہے، پاکستان کا نقصان ہمیشہ کے لئے بھرنا ہوتا ہے، ملک کی تاریخ میں لوگوں نے پاکستان کا نقصان کیا ہے اور آج تک ہم اس نقصان کی قیمت ادا کر رہے ہیں اور اب بھی بھر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ 16جنوری 2024کی درمیانی شب ایران نے بلوچستان پر میزائل حملہ کر دیا تھا جس کے نتیجے میں دو بچیاں شہید جبکہ تین بچیاں زخمی ہوگئیں تھیں، ایران کی جانب سے کہا گیا کہ جیش عدل کے ٹھکانوں کو ڈرون اور میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ایران کے اس غیرقانونی اقدام کے بعد خطے میں ایک نئی کشیدگی کا آغاز ہوگیا تھا۔ اس وقت پاکستان نے خود مختاری کی خلاف ورزی کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے نہ صرف ایران کی جانب سے اپنی فضائی حدود کی بلا اشتعال خلاف ورزی کی شدید مذمت کی بلکہ ایرانی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج بھی کیا اور ایران کو متنبہ بھی کیا کہ اس غیر قانونی عمل کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ دوسرے روز پاکستان نے تاریخ میں پہلی مرتبہ سرحد پارایرانی میزائل حملے پر احتجاجاً ایران سے اپنا سفیر واپس بلا لیا اور دفتر خارجہ کے مطابق تہران گئے ہوئے ایرانی سفیر کو واپس نہ آنے کا پیغام دے دیا گیا تھا ۔پاکستان نے چاہ بہار میں مذاکرات کے لئے گئے ہوئے وفد کو بھی واپس بلالیا تھا اور دونوں ممالک کے مابین پہلے سے طے شدہ دورے بھی معطل کر دئیے گئے ہیں۔ پاک فوج نے 18جنوری 2024کو ایران کی حدود میں آپریشن کو ’ مرگ بار سرمچار ‘ کانام دیا جس میں بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ نامی دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال ٹھکانوں کو انٹیلی جنس اطلاع کے ساتھ مبنی آپریشن میں کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔
جنوری میں رونما ہونے والے کے واقعات کے بعد ایرانی صدر کا پاکستان کا تین روزہ دورہ ایک بڑی سفارتی کامیابی کے ساتھ کشیدگی میں کمی اور تجارت کے فروغ کا سبب بنے گا اور ان دشمنوں پر پاک ایران تعلقات کی خرابی کے لیے کوشاں تھے ایک واضح پیغام ہے۔ دو طرفہ کشیدگی کے بعد اتنی جلدی صورتحال نارمل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک اپنی سرزمین دہشت گردوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں ساتھ ہی دو طرفہ تجارت اور تعلقات کے فروغ کے خواہاں ہیں۔ پیر کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی تین روزہ دورے پر پاکستان پہنچے، اس موقع پر پاکستان اور ایران نے اگلے پانچ سالوں میں دو طرفہ تجارت کا حجم دس ارب امریکی ڈالرز تک بڑھانے اور دہشت گردی کے خطرے سمیت مشترکہ چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ دونوں ممالک نے سکیورٹی، تجارت، سائنس و ٹیکنالوجی، ویٹرنری ہیلتھ، ثقافت اور عدالتی امور سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لئے 8 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کر دیئے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ پاکستان سے تہران کے تعلقات تاریخی ہیں جنہیں کوئی ملک منقطع نہیں کر سکتا، اسرائیلی مظالم پر پاکستان کا ردعمل قابل تحسین ہے، پاکستان کی سرزمین ہمارے لئے قابل احترام ہے جبکہ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ ایران، پاکستان کے تعلقات کو مزید مستحکم کیا جائے، ہماری سرحدوں پر ترقی و خوشحالی کے مینار قائم ہوں، آج کا دن یہ موقع فراہم کر رہا ہے کہ اس ہمسائیگی اور اپنی دوستی کو ترقی و خوشحالی کے سمندر میں بدل دیں۔ امریکا نے ایرانی صدر کے دورہ پاکستان پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ایران سے تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والوں کو پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ رہنا چاہئے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈی اور اس کے بڑے سرمایہ کاروں میں سے ایک ہے، امر یکا 20سال سے پاکستان میں ایک بڑا سرمایہ کار بھی ہے، ایران سے تجارتی معاہدوں پر پابندیوں کا خطرہ ہو سکتا ہے، تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والوں کو خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ پاکستان کی اقتصادی کامیابی دونوں ممالک کے مفاد میں ہے، امریکا ممکنہ پابندیوں کا جائزہ نہیں لے رہا، ہم اپنی شراکت کو جاری رکھنے کے منتظر ہیں۔
ویسے ایران کے ساتھ تعلقات میں پاکستان کو اپنا مفاد اور خطے کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہئے، یہ ضروری نہیں کہ پاکستان اور ایران کے درمیان بہتر تعلقات امریکا کے مفاد میں ہو، یا وہ ان تعلقات سے خوش ہو، لیکن اب ہمیں امریکا کی ناراضی یا خوشی کو بالائے طارق رکھ کر صرف اور صرف اپنے مفادات کے لئے کام کرنا چاہئے۔ معاشی ترقی ہی پاکستان کو دنیا میں بہتر مقام دلوا سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button