Column

عالمی جنگ کے خطرات …. سی ایم رضوان

 سی ایم رضوان

روس اور یوکرین تنازع کے حد سے بڑھ جانے اور دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف جنگی کارروائیوں کے بعد دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ سوال عام کیا جارہا ہے کہ کیا یہ آگ بڑھ کر تیسری عالمی جنگ کی صورت اختیار کر جائے گی کیونکہ ایک طرف یوکرین کی جانب داری میں سپر پاور امریکہ، یورپ اور نیٹو اتحاد کے بعض ممالک روس کی مذمت کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف خوفناک کارروائیوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور دوسری طرف چین سمیت دیگر امریکہ مخالف طاقتوں کی دھمکیاں بھی سنی جارہی ہیں۔ اب دنیا کا ہر عام شہری یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ یہ جنگ بڑے خطرات کا باعث بن سکتی ہے۔ روسی صدر پوتن نے سوموار کے روز اپنی تقریر میں نیٹو کو ”برائی“ سے تعبیر کیا جبکہ امریکی صدر جو بائیڈن نے خود آگے بڑھ کر روس پر ایسی پابندیاں لگانے اور اقدامات کرنے کی بات کی جن کے نتیجے میں ان کے بقول روس کو طویل ترین اور خوفناک اقتصادی اور سیاسی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ روس کی یوکرین میں حالیہ کارروائیاں، روسی رہنما ¶ں کے بیانات اور مغربی رہنما ¶ں کے جوابی بیانات اور روس پر پابندیوں کے اعلانات سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ یہ جھگڑا تیسری عالمی جنگ میں بدل جائے گی۔

لیکن اس کا جواب نفی میں ہے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان حالات خواہ کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں لیکن یہ براہ راست نیٹو اور روس کا جھگڑا نہیں ہے۔ درحقیقت جب امریکہ اور برطانیہ نے روس کی جانب سے اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کو یوکرین کی سرحد پر لانے کا عمل دیکھا تو اس پر مایوسی ظاہر کی اور دونوں ممالک نے یوکرین میں موجود اپنے فوجی تربیت کاروں اور مشیروں کو فوراً وہاں سے نکال لیا۔امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں ماہ کے ابتداءمیں کہا تھا کہ”عالمی جنگ تب ہو گی جب امریکی اور روسی فوجی ایک دوسرے پر فائرنگ کر رہے ہوں گے۔“ صدر بائیڈن نے واضح طور پر کہا تھا کہ یوکرین میں صورتحال جیسی بھی ہو وہ امریکی فوجیوں کو یوکرین کی سرزمین پر تعینات نہیں کریں گے۔ ایسی صورت میں آپ کو کتنا پریشان ہونا چاہیے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کون ہیں، کہاں ہیں اور روس کا اگلا قدم کیا ہو گا؟اگر آپ یوکرینی فوجی ہیں اور ملک کی مشرقی سرحد پر تعینات ہیں تو آپ یقیناً ایک خطرناک صورتحال سے دوچار ہیں۔ اسی طرح لاکھوں یوکرینی باشندوں کو بھی پریشانی لاحق ہے کہ یہ بحران ان کی زندگیوں کو کیسے متاثر کر سکتا ہے۔روس یوکرین میں کہاں تک اپنی افواج کو بھیجنا چاہتا ہے، اس کا علم تو صدر پوتن اور ان کے قریبی ساتھیوں کو ہی ہو گا لیکن نیٹو اور دوسرے مغربی ممالک کے لیے سرخ لکیر وہ ہو گی جب نیٹو ممالک کو روس سے خطرہ محسوس ہو گا۔ نیٹو معاہدے کے آرٹیکل پانچ کے تحت اگر کسی رکن ریاست پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو نیٹو کے تمام ممالک کو اس کے دفاع کے لیے آنا ہو گا۔ اگرچہ یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ نیٹو کا حصہ بننا چاہتا ہے لیکن وہ ابھی تک نیٹو اتحاد کا حصہ نہیں ہے اور صدر پوتن یوکرین کی نیٹو اتحاد میں شمولیت کے سخت مخالف ہیں۔ البتہ چار ایسی ریاستیں نیٹو اتحاد میں شامل ہو چکی ہیں جو ماضی میں سوویت یونین کے وقت ماسکو کے دائرہ اثر میں تھیں۔ ان میں پولینڈ، ایسٹونیا، لٹویا اور لیتھونیا شامل ہیں۔
ماضی میں ماسکو کے دائرہ اثر میں رہنے والے ممالک کو خدشہ ہے کہ روس یوکرین تک محدود نہیں رہے گا اور وہ ان ممالک میں بسنے والے روسی نسل کے باشندوں کی مدد کے بہانے ان پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے نیٹو نے حالیہ دنوں میں بالٹک ریاستوں میں اضافی فوجی تعینات کئے ہیں۔ لہٰذا جب تک روس اور نیٹو اتحاد کا براہ راست ٹکرا ¶ نہیں ہوتا تب تک دنیا کے کسی بھی باشندے کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، خواہ یوکرین میں حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں، عالمی جنگ کا کوئی خطرہ نہیں۔لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ روس اور امریکہ کے پاس آٹھ ہزار قابلِ استعمال جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے۔ لہٰذا خطرات بہت زیادہ ہیں۔سرد جنگ کے زمانے میں استعمال ہونے والا لفظ ”میڈ“ (Mutually Assured Destruction)( یعنی جوہری ہتھیار کو پہلے استعمال کرنے والا اور جس پر جوہری ہتھیار استعمال ہوا ہو، دونوں کی مکمل تباہی یقینی ہے) کا اصول آج بھی لاگو ہوتا ہے۔ برطانوی فوج کے سنیئر ذرائع کے مطابق صدر پوتن نیٹو پر حملہ نہیں کریں گے اور یہ کہ وہ صرف یوکرین کو بیلاروس کی طرح ایک اطاعت گزار ریاست بنانا چاہتے ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ صدر پوتن کیا سوچ رہے ہیں۔ عام طور پر صدر پوتن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ٹھنڈے دل و دماغ والے شطرنج اور جوڈو کے کھلاڑی ہیں لیکن سوموار کے روز کی تقریر سے اور بعدازاں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی ان کی جانب سے دی جانے والی دھمکی سے وہ ایک شاطر منصوبہ ساز سے زیادہ ایک بپھرے ہوئے محسوس ہوئے ہیں۔ صدر پوتن نے نیٹو کو ایک ’برائی‘ قرار دیتے ہوئے دراصل یوکرین کو بتایا ہے کہ اس کے پاس روس سے علیحدہ ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے وجود کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ سوچ پریشان کُن ہے۔
دوسری جانب برطانیہ وہ واحد ملک نہیں ہے جو روس کو سزا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ اور جرمنی اس سے ایک قدم آگے نکل گئے ہیں۔ جرمنی نے روس سے آنے والی نارڈ سٹریم 2 گیس پائپ لائن منصوبے کی منظوری کے عمل کو التوا میں ڈال دیا ہے لیکن برطانیہ روس پر پابندیاں لگانے پر زور دینے میں پیش پیش ہے۔ روس بھی کسی نہ کسی انداز میں یقیناً جواب دے گا۔ روس میں مغربی ممالک کے کاروبار متاثر ہو سکتے ہیں لیکن اگر صدر پوتن فیصلہ کریں تو روس اس سے بہت آگے جا سکتا ہے۔
ایک اور تشویشناک خبر یہ ہے کہ نیشنل سائبر سکیورٹی سینٹر روس کی جانب سے ” انتقامی“سائبر حملوں کے خطرے سے خبردار کر چکا ہے۔ یہ حملے جن کا کسی کو مورد الزام ٹھہرانا مشکل ہوتا ہے، ان میں بینکوں، کاروبار، افراد اور اہم انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ برطانیہ اور روس کے تعلقات برسوں سے خراب چلے آ رہے ہیں جس کی وجوہات میں برطانوی سرزمین پر روس سے منحرف ہونے والے روسی شہریوں کو زہر دینا شامل ہے۔ اب روس اور برطانیہ میں اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے اور اس پس منظر میں کھلے عام ایسے الزامات کہ یوکرین کے بحران کا ذمہ دار کون ہے، خطرناک عمل ہے۔ ان تمام خدشات کے پیش نظر یہ خطرہ تو محسوس کیا جارہا ہے کہ روس یوکرین موجودہ تنازع طویل، وسیع اور پرامن دنیا کے لیے حد سے زیادہ تکلیف دہ اور خطرناک ہوسکتا ہے لیکن اس وقت توجہ دینا فضول ہو گا کہ دنیا تنازع کے باعث تیسری عالمی جنگ سے دوچار ہو جائے گی۔ ان حالات میں عالمی طاقتوں خاص طور پر اقوام متحدہ اور امریکہ کو مصالحانہ کوششوں کا بلاتاخیر اور مخلصانہ آغاز کرنا چاہئے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی روس یوکرین تنازع کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ فوجی کارروائی کسی مسئلے کاحل نہیں ہوسکتی۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے روسی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان عالمی سطح پر کسی گروپ کا حصہ بننا نہیں چاہتا، ہم چاہتے ہیں کہ روس یوکرین تنازع کا پُر امن حل نکلے، چین اور امریکہ کے اس معاملے کو حل کرانے کے لیے روس کے ساتھ تعاون سے دنیا کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ فوجی کارروائی کسی تنازع کا حل نہیں ہوسکتی، پرامن تصفیے کے لیے مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ دنیا کرونا کے اثرات سے نہیں نکل پائی اور اگر اب دنیا ایک اور تنازع میں گئی تو کیا ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button