Editorial

ملک سے دہشت گردوں کا صفایا ناگزیر

نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا کردار نبھانے پر پاکستان میں دہشت گردی کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے مواقع ملے۔ پھر تو ملک کے گوشے گوشے میں تواتر دہشت گردی کی کارروائیاں رونما ہونے لگیں۔ 80ہزار بے گناہ عوام ان دہشت گرد کارروائیوں میں جاں بحق ہوئے۔ ان میں فوجی جوانوں اور افسران کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ سانحہء اے پی ایس رونما ہوا۔ پھر دہشت گردوں کا مکمل خاتمے کا عزم مصمم کیا گیا۔ اس کے بعد وطن عزیز کو افواج پاکستان کی شبانہ روز کوششوں کے طفیل امن و سلامتی نصیب ہوئے تھے۔ دہشت گردوں کا خاتمہ کر دیا گیا تھا، اُن کی کمر توڑ کے رکھ دی گئی تھی۔ ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر تھی۔ آپریشن ضرب عضب اور ردُالفساد شرپسندوں کے لیے ڈرائونے خواب ثابت ہوئے تھے۔ بیشتر دہشت گرد مارے، پکڑے گئے اور جو بچ رہے، انہوں نے یہاں سے فرار میں عافیت جانی۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں ملک میں کچھ سال امن و امان کے حوالے سے حالات موافق رہے، عوام کے ذہنوں سے دہشت گردی کا خوف ختم ہوا، وہ پھر سے نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئے، یہ بلاشبہ پاک فوج کی بڑی کامیابی تھی، جسے ناصرف وطن عزیز بلکہ دُنیا بھر میں سراہا گیا۔ دہشت گردی کے کالے سائے پر قابو پانا کوئی آسان ہدف نہ تھا، پاک افواج نے شبانہ روز اس کے لیے کاوشیں کیں۔ بیش بہا قربانیاں دیں۔ لیکن پچھلے کچھ مہینوں سے پھر سے ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گرد سر اُٹھارہے اور تخریبی کارروائیاں کررہے ہیں، سیکیورٹی فورسز پر حملے کیے جارہے ہیں، بعض مقامات پر شہریوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے صوبوں میں پھر دہشت گردی کا سایہ بڑھتا دِکھائی دے رہا ہے۔ افواج پاکستان کو اس صورت حال کا بخوبی ادراک ہے اور اسی لیے اُس نے شرپسندوں کے قلع قمع کے لیے کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں اور کئی دہشت گردوں کو پکڑا اور جہنم واصل کیا جاچکا ہے۔ ان کارروائیوں کو کامیابی کے ساتھ اُس وقت تک جاری رکھا جائے گا، جب تک ارض پاک ان ناپاک وجودوں سے مکمل طور پر پاک نہیں ہوجاتی۔ اسی ضمن میں گزشتہ روز حساس اداروں کے سربراہان نے وزیراعظم شہباز شریف کو سیکیورٹی کی صورت حال پر بریفنگ دی۔اخباری اطلاع کے مطابق وزیراعظم کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ملک کی داخلی سلامتی کی صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا، وزیراعظم نے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز پر عسکری قیادت اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان کو مبارک باد دی جب کہ وزیراعظم سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کی الگ سے ملاقات بھی ہوئی۔ وزیراعظم ہائوس کے ذرائع کے مطابق ملاقات میں موجودہ ملکی صورت حال سمیت سیکیورٹی کے معاملات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ آرمی چیف نے وزیراعظم کو اپنے دورہء چین کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ دفاعی و فوجی تعاون کے فروغ میں یہ دورہ اہم کردار ادا کرے گا۔ وزیراعظم نے کامیاب دورے پر انہیں مبارک باد دی اور کہا کہ پاک چین دوستی خطے میں امن و استحکام کی ضمانت ہے۔ بعدازاں وزیراعظم کی زیر صدارت سیکیورٹی صورت حال سے متعلق اجلاس میں سرحدی صورت حال اور دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشنز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی جانب سے حال ہی میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں خفیہ آپریشنز میں حاصل کامیابیوں سے متعلق بریفنگ دی گئی، جسے وزیراعظم نے سراہا اور افواج پاکستان و انٹیلی جنس اداروں کے پیشہ ورانہ اور آپریشنل صلاحیتوں کی تعریف کی۔ پاک فوج کی کوششیں ہر لحاظ سے قابل تحسین اور سراہے جانے کے قابل ہیں۔ ان آپریشنز کو تواتر کے ساتھ جاری رکھنے کی ضرورت ہے، تاکہ تمام دہشت گردوں سے ملک کو پاک کیا جاسکے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پاک فوج ان دہشت گردوں کے خاتمے کے مشن کو ضرور پایہء تکمیل تک پہنچائے گی۔ ہماری پاک فوج ملک و قوم کی حفاظت کی ذمے داریوں سے غافل نہیں۔ وہ ان عناصر کو جڑوں سمیت اُکھاڑ پھینکے گی، جو ملک کی طرف میلی آنکھ اُٹھاکر دیکھیں گے۔ دہشت گردوں کو اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ ملک میں امن و امان کی صورت حال کو سبوتاژ کرپائیں گے۔ اُن کی یہ مذموم کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گی کہ اُن کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ پاک فوج ہے، جس کا شمار دُنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے اور جو محدود وسائل کے باوجود بڑے بڑے کارنامے سرانجام دینے کے باعث دُنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ ہمارا ہر فوجی افسر اور جوان قوم کی نظر میں عزت و احترام کے قابل ہے اور اُن کی قربانیوں کو قوم فخر کی نگاہ سے
صحافتی ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کی ضرورت!
صحافت مقدس پیشہ ہے۔ معاشرے میں پائی جانے والی خرابیوں، مسائل کی نشان دہی کے ساتھ یہ شعبہ اس کا حل بھی پیش کرتا ہے۔ آج ملک عزیز میں صحافیوں کی صورت حال کسی طور بہتر نہیں قرار دی جاسکتی۔ اُنہیں سنگین معاشی مسائل درپیش ہیں، ہوش رُبا گرانی کے اس دور میں اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا ازحد دُشوار ہے۔ وہ انتہائی محدود آمدن میں اپنی زیست کے سفر کو جاری رکھے ہوئے اور جانفشانی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی سرانجام دے رہے ہیں۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو پاکستان میں قریباً 20سال قبل کئی نجی نیوز چینلز کا آغاز ہوا، اس سے جہاں ایک طرف ملک میں صحافت کو بے پناہ آزادی نصیب ہوئی، کئی مسائل کی نشان دہی ہوئی اور اُن کے حل میں مدد ملی، وہیں دوسری جانب برقی ذرائع ابلاغ کے بعض اداروں نے اس آزادی کا بے دریغ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ یہی سبب ہے کہ ملک عزیز کے بعض نجی میڈیا اداروں پر صحافتی ضابطہء اخلاق کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایسے پروگرام، ٹاک شوز، رپورٹیں، انٹرویوز تواتر سے نشر کیے جانے لگے جو نہ صرف نفرت سے لبریز اور شرانگیز ہوتے بلکہ ان میں قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کی جاتی۔ بلاشبہ ایسے کسی بھی پروگرام، انٹرویو اور تقریر کو ملکی مفاد میں ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا، جو شرانگیزی کا سبب بنے۔ اس تمام تناظر میں نیوز چینلز کو اپنے پروگراموں کو تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے، وہ معاشرے میں شر اور فساد کو ہوا دینے والے مواد کو نشر کرنے سے گریز کریں۔ اصل عوامی مسائل کی نشان دہی کریں اور اُن کے حل کی تجاویز پیش کرکے اپنا حصہ ڈالیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ نیوز چینلز ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے بعض اوقات بغیر تصدیق کیے ایسی خبریں نشر کردیتے ہیں جن کا حقیقت سے کوسوں دُور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ اب چینلوں کو اس روش کو ترک کرنا ہوگا، کیوں کہ یہ کسی سے مسابقت کا درست طریقہ نہیں ہے۔ گزشتہ روز دُنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آزادیء صحافت کا عالمی دن منایا گیا۔ اس تناظر میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ آزادیء اظہار بڑی نعمت ہے، اس کا درست سمت میں استعمال کیا جائے تو معاشرہ بہتری کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ صحافت مقدس پیشہ اور ملک کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، لہٰذا صحافتی کارکنان کو اس کی تقدیس ہر لمحہ ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے۔ صحافیوں کی ایک تنظیم کی جانب سے نصف صدی سے زائد عرصہ قبل صحافتی ضابطہء اخلاق بنایا گیا تھا، آج اُس کا فقدان نظر آتا ہے، اس کو رائج کرنے اور اُس پر عمل درآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کتنے ہی صحافی ہیں جو اس سے یکسر نابلد ہیں۔ لہٰذا صحافیوں کو نہ صرف اس سے روشناس کرایا جائے بلکہ اس پر عمل کو بھی یقینی بنایا جائے تو اس کے ملک و قوم پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ دوسری جانب صحافیوں کے مصائب میں کمی کے لیے حکومت کو موثر حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اُن کے تحفظ کے حوالے سے اقدامات یقینی بنائے جائیں، سب سے بڑھ کر اگر اُنہیں معاشی تحفظ فراہم کرلیا گیا تو یہ حکومت کی بہت بڑی خدمت شمار ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button