ColumnNasir Sherazi

شر انگیزی کی شرمناک سازش ۔۔ ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے دعویداروں نے ملک کو انتشار سے دوچار کرنے کی تازہ ترین اور خوفناک سازش کی ہے جو کامیاب ہوجاتی تو ملک کو اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر ناقابل تلافی نقصان پہنچتا۔ یہ عناصر گزشتہ سوا سال سے ایک لاش حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں تاکہ اس پر کھیل کر اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنائیں۔ انہوں نے اینکر ارشد شریف کے بعد ایک سیاسی کارکن ظل شاہ کے قتل کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن سچ کچھ یوں سامنے آیا کہ اپنے ہی گلے پڑ گیا لہٰذا خاموشی اختیار کرنے میں بہتری سمجھی گئی۔
سازش کے تانے بانے دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ مقامی فیکٹری میں تیار نہیں کیا گیا بلکہ اس میں بھارتی یہودی اور قادیانی کاریگر بھی شریک ہیں۔ معاملے پر سینئر صحافی صالح ظافر نے امانت دیانت صداقت کے تمام اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے قومی روزنامے میں رپورٹ کیا، کالم نگار خواجہ جمشید امام نے اس پر یوں کالم لکھا کہ ایک ایک لفظ ان کی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو محسوس ہوا۔ اینکر طلعت حسین نے اپنے وی لاگ میں اپنے انداز میں اس کا ذکر کیا، کچھ اور میڈیا سے متعلق دوستوں نے اپنی اپنی دانست میں اس پر اپنا ردعمل ظاہر کیا اور اس حرکت کی مذمت کی جس کا واحد اور واحد مقصد ملک میں آگے کے شعبے بھڑکانا تھا۔ عید ملن کے نام پر زمان پارک میں عمران خان کے گھر کے باہر اجتماع تھا، ہمیشہ کی طرف ہر عمر سے تعلق رکھنے والے مرد و زن بالخصوص نوجوان لڑکیاں لڑکے بمعہ ڈھول ڈھمکا موجود تھے۔ طے شدہ منصوبے کے تحت کیمروں کا رخ ایک بارہ تیرہ برس کے بچے کی طرف موڑا گیا جس نے سر پر تحریک انصاف کا دوپٹہ باندھ رکھا تھا۔ پی ٹی آئی کے کچن کی انچارج نادیہ خٹک اس بچے کے ساتھ کھڑی تھیں اور ڈائریکٹر کے فرائض انجام دیتی نظر آئیں جبکہ سٹیج پر کھڑے اعظم سواتی، فیصل جاوید اور گلوکار نجم شیراز کی باڈی لینگوئج بتا رہی تھی کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اب کیا ہونے والا ہے اور اس کے بعد ان کی ذمہ داری کیا ہے۔ ویڈیو میں واضح ہے کہ بچے کے پیچھے ایک پینتس چالیس سالہ عورت ہے جو شکل و صورت سے بچے کی ماں معلوم ہوتی ہے، بچے کا فیس کٹ اور باڈی فریم دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بچہ نادیہ خٹک کا بھانجا، بھتیجا نہیں تو کوئی قریبی رشتہ دار ہے۔ نادیہ خٹک کے اشارے کے بعد بچہ اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتا ہے کہ میری وجہ شہرت یہ ہے کہ لوگ مجھے عمران خان کا لٹل سولجر کہتے ہیں۔ بچے کی بات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ پہلی مرتبہ اس محفل میں نہیں لایا گیا بلکہ اکثر و بیشتر ایسے اجتماعات میں شریک ہوتا ہے گویا وہ ٹریننگ کے مراحل سے گزار کر وہاں لایا گیا ہے۔ بچہ انگریزی میڈیم کا طالب علم لگتا ہے کیونکہ اس کی اُردو میں کی گئی گفتگو میں روانی نہ تھی یوں بھی جو سکرپٹ اسے دیا گیا تھا وہ اس عمر کے بچے کیلئے آسان نہ تھا، اب وہ لمحہ آتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ نبیؐ آخرالزماں سردار الانبیا کے والد حضرت عبداللہؓ اور والدہ حضرت آمنہؓ اس اعتبار سے بہت خوش قسمت تھے کہ حضرت محمدؐ ان کے یہاں پیدا ہوئے جبکہ دوسرا خاندان اکرام اللہ نیازی اور شوکت خانم کا ہے اس لئے کہ ان کے یہاں عمران خان پیدا ہوئے، کیمرہ نادیہ خٹک کو دکھاتا ہے جو خوشی سے سرشار ہے، پھر کیمرہ سٹیج پر کھڑے اعظم سواتی، فیصل جاوید اور نجم شیرازی کو دکھاتا ہے جو تالیاں پیٹ کر اس بچے کے یہ نازیبا کلمات اور شان رسالتؐ اور خاندان رسالتؐ کی توہین پر داد دے رہے ہیں۔ وہاں موجود عاقبت نااندیشہ اور دشمنان اسلام بھی تالیاں پیٹتے اور داد دیتے نظر آتے ہیں، بچہ اس داد کو سمیٹ کر مزید ایسے بیہودہ اور غلیظ کلمات ادا کرتا ہے جن میں توہین اہل بیعت و توہین خلفائے راشدین ہے۔ مذکورہ تمام لوگ بچے کو مزید داد دیتے ہیں، طے شدہ منصوبے کے مطابق یہ ویڈیو انصافی میڈیا کے حوالے کی جاتی ہے، وہ اسے خوب خوب ہوا دیتا ہے جس سے ملک بھر میں غیض و غضب کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ایسے میں ایک طرف انصافی میڈیا ٹیم اس ویڈیو کو امریکہ و یورپی ممالک میں پھیلا دیتی ہے جبکہ تحریک انصاف کے ایک باریش ترجمان بچے کو معصوم ثابت کرنے میں اپنی خطابت کے جوہر دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ بچے پر نماز روزہ فرض نہیں ہوا کیوں کہ وہ کمسن ہے اور اس نے جو کچھ کہا وہ اس کا ذاتی اور معصومانہ فعل ہے پس تحریک انصاف پر اس کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ ترجمان تحریک انصاف اعجاز چودھری صاحب یہ بھول گئے کہ بچہ تو شاید نابالغ تھا لیکن جو بکواس وہ کر رہا تھا اس کی داد دینے والے سٹیج پر کھڑے پی ٹی آئی کے سبھی لوگ بالغ تھے۔ اگر ان کی عقل گھاس چرنے نہیں گئی تھی تو ان کا فرض تھا کہ اس مکروہ، بیہودہ اور توہین رسالتؐ پر مبنی گفتگو کو فوراً روکتے، انہوں نے ایسا کچھ نہ کیا بلکہ وہ آخر تک اس جرم کے شریک رہے، ان سب کی جان اب خطرے میں ہے۔ منصوبہ یہ تھا کہ ملک بھر میں اس ویڈیو کو یوں پھیلا دو کہ آگ بھڑک اٹھے، کچھ لوگ اٹھیں اور اس بچے کی جان لے لیں پھر اس کی لاش حاصل کرکے وہ کھیل کھیلا جائے جس کے اسباب اکٹھے نہیں ہورہے تھے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ لاش آنے کے انتظار میں ایک میڈیا ٹیم بھارت، دوسری امریکہ، تیسری برطانیہ اور چوتھی کینیڈا میں بیٹھی تھی۔ اگر یہ واقعہ اسی طرح وقوع پذیر ہوجاتا جسے پلان کیا گیا تھا تو پھر دنیا بھر میں پاکستان کو انتہا پسندوں کا ملک ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا جاتا اور بتایا جاتا کہ ان جنونیوں کے ہاتھوں کوئی ملکی کوئی غیر ملکی حتیٰ کہ کوئی بچہ بھی محفوظ نہیں۔ ایک ذرائع کے مطابق بچے کے والدین غیر ملکی شہریت رکھتے ہیں لیکن وہ سازش کی تفصیل سے بے خبر تو تھے لیکن اس سوچ کے مالک ہیں جو کچھ اس بچے سے کہلوایا گیا اور اسلام دشمن پاکستان دشمن لابی کو سنوا کر خوش کیا گیا کہ پاکستان کی نئی نسل ان کے خیالات سے کس قدر مطابقت رکھتی ہے، بچے کے والدین کی غیر ملکی شہریت کی تصدیق باوجود کوشش نہیں ہوسکی لیکن اس معاملے کی تحقیق کرنے کے بعد ذمہ داروں پر غداری اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ چلنا بہت ضروری ہے۔ تسبیح بردار نظر آنے والے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اس معاملے پر چپ سادھ رکھی ہے بالکل اسی طرح جب ان سے سیتا وائٹ کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا، ان سے ان کی اکلوتی بیٹی ٹیریان وائٹ کے حوالے سے پوچھا جائے تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ وہ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے۔ توہین رسالتؐ اور توہین خاندان رسالت کا معاملہ ایسا نہیں جسے نظرانداز کیا جاسکے، تحریک انصاف کے تمام قائدین کو اللہ، رسولؐ اور تمام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اہل پاکستان سے اس گستاخانہ فعل کی معافی مانگنا چاہئے، وہ کسی بھی وقت اللہ کی پکڑ میں آکر نشان عبرت بن سکتے ہیں۔ خدا کا شکر کہ کمسن بکرے کی قربانی کے شر سے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو محفوظ رکھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button