Abdul Hanan Raja.Column

حقیقت کا شناسا

تحریر : عبد الحنان راجہ
حکیم محمد حسن قریشی کے مطابق ایک رات اقبالؒ کو اچھی حالت میں چھوڑا کہ نبض کی رفتار بھی امید افزا تھی اور قدرے ہشاش، مگر صبح جب معائنہ کو گیا تو میں بہت پریشان ہو گیا۔ شفیع صاحب سے الگ جا کے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ رات مسلم امہ کی حالت زار بارے بہت مضطرب حتی کہ شدت سے پھوٹ پھوٹ کر روتے رہے اور یہ کیفیت دیر تک طاری رہی۔ آہ کہ مسلم دنیا میں اب کوئی اور اقبالؒ نہیں۔ اپنے برادر اکبر شیخ عطا سے زمانہ علالت میں کہا کرتے تھے کہ میں موت سے نہیں ڈرتا، جب آئی تو مسکراتے ہوئے اس کا استقبال کروں گا اور پھر کیا بھی۔
نشان مرد مومن با تو گویم
چو مرگ آید تبسم بر لب او
آخری ایام میں کبھی بے چینی بڑھتی تو معالج سکون کا انجکشن تجویز کرتے مگر اقبالؒ کبھی آمادہ نہ ہوتے۔ زندگی کے آخری سالوں میں عشق اور شوق کے اس مقام تک جا پہنچے کہ عقل اور فلسفہ اس کے تابع ہو گیا۔ یہ اسی کا کمال تھا کہ جس نے زبان اقبالؒ سے یہ رباعی جاری کرا دی کہ جسے تصوف، عشق اور راہ سلوک کے مسافروں کے ہاں بہت بلند مقام اور ہمارے جیسوں کے لیے یہ ورد جاں
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
گر تو می بینی حسابم ناگزیر
از نگاہ مصطفیٰ پنہاں بگیر
کہ پہلے اللہ کی بارگاہ میں عفو و درگزر کرنے کی التجا، اور پھر اگر حساب ناگزیر، تو کم از کم آقا کریمؐ کے سامنے نہیں ۔ قیامت کا کوئی منظر چونکہ مصطفیٰ کریمؐ کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں، اسی لیے اقبالؒ نے بلا حساب و کتاب بخشش مانگی مگر مانگی بھی اک ادئے دلربا سے۔ اقبالؒ کا مرد مومن خوددار و بے باک ہے، ان کے کلام میں جا بجا تصور خودی۔ فرماتے ہیں کہ
خودی میں ڈوب جا غافل یہ سر زندگانی ہے
نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا
رنگ و نسب سے آلودہ ہیں بال و پر تیرے
اے مرغ حرم تو آڑنے سے پہلے پرفشاں ہو جا
تو کہیں بندہ مومن کا بلند مقام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ،
تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار
کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلام خس خاشاک
کیوں مہر و مہ انجم ترے محکوم نہیں ہیں
کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک
مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند سرکش و بے باک
آقا کریمؐ کی ذات بابرکات سے ان کی نسبت، محبت سے آگے مقام عشق تک کہ جہاں عاشق محبوب کے جلوئوں میں گم پایا جاتا ہے۔ فارسی اور اردو میں ایسے کلام کہ عشق و معرفت کی دنیا والوں کے لیے امام۔ میری دانست میں علامہؒ کا ایک شعر کا ہی انہیں بارگاہ رسالت مآبؐ میں حضوری کے لیے کافی ہوگا، کہ اللہ پاک اپنے محبوب کے وفادار کے لیے کن انعامات کا وعدہ فرما رہا ہے:
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
گو کہ ہر خاص و عام عشق و وفا کی چاشنی لیے بغیر اس سے گزر جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کو پڑھ کر قلب و روح بارگاہ رسالت مآبؐ میں آدب سے جھکتے محسوس ہوتے ہیں۔ کبھی یہ اشعار دلوں کی دھڑکنوں کو تہہ و بالا کرتے ہیں کہ:
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
ہو نہ یہ مے تو ساقی بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے، نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے۔ عشق کا غلبہ جب ہو تو ایسے کلام ہی وارد ہوتے ہیں فرماتے ہیں:
عشق کی گرمی سے ہے معرکہ کائنات
علم مقام صفات عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال عشق ہے پنہاں جواب
عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دیں
عشق کے ادنیٰ غلام صاحبِ تاج و نگیں
عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقیں، اور یقیں فتحِ باب!
عشق پہ بجلی حلال، عشق پہ حاصل حرام
علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب !
نوجوان ہر دور میں مفکرین کا مخاطب رہے کہ انقلاب کے ہر داعی کی توقعات انہی سے وابستہ رہیں۔ علامہؒ نسل نو کی روایتی تعلیم کے قائل نہ تھے بلکہ وہ قدیم و جدید علوم اور اس کے ساتھ تربیت جس میں سوز و ساز رومی بھی ہو اور پیچ و تاب رازی بھی۔ کہیں وہ مسلم نوجوانوں کو آداب سحر گاہی تو کبھی ان کی جبینوں کو لذت آشنائی دیتے پائے جاتے ہیں ۔ مسلم امہ کے نوجوانوں کے لیے اپنے درد اور سوز کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں:
جوانوں کو مری آہ سحر دے
ان شاہیں صفت بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کر دے
اقبالؒ نے مغربی تعلیم کے دلدادہ تعلیمی نظام کے ناخدائوں کو بھی جھنجھوڑا کہتے ہیں:
تعلیم کے تیزاب میں ڈال ان کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے ادھر پھیر
ہمارے ہاں بھی رائج نظام و نصاب تعلیم کے اثرات پوری طرح ظاہر ہو رہے ہیں کہ تہذیب، اقدار اور تمدن جو مسلم نوجوان کا خاصہ تھے اب ناپید اور اس نصاب تعلیم نے انہیں مغرب زدہ کر دیا۔ اقبالؒ پر بات ہوتی رہی، ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی ۔ مقالات پڑھے اور لکھے جاتے رہیں گے۔ ان کے افکار پر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی جاری ہیں مگر اتنے بلند پایہ شاعر جو فقط شاعر ہی نہ ہو بلکہ مفکر، مصلح اور جس کا خمیر عشق رسول کی مٹی سے اٹھا ہو، ایسی بلند پایہ شخصیت کے افکار و اشعار کی تشریح و توجیہ یقینا مشکل امر۔ جب شہر لاہور میں موذن صبح کی اذان کہہ رہا تھا تو ادھر اقبالؒ کی زباں لفظ اللہ کہہ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو رہی تھی۔ مگر قدرت نے ان کا ذکر جاری کر دیا۔ ایک عہد کا اختتام ہوا کہ جس نے کہا تھا کہ:
میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے مرے بحر خیالات کا پانی
اللہ پاک حکیم الامتؒ کی مرقد منورہ پر اپنی کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button