ColumnTajamul Hussain Hashmi

ملک کس کے ہاتھوں میں ہے؟

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
گزرے برسوں کی لوٹ مار کس کو یاد ہے، لوگ اپنے پیاروں کو بھول جاتے ہیں، ملک کے ساتھ ہونیوالے کھلواڑ کون یاد رکھتا ہے۔ نظم و نسق کو برقرار رکھنے اور لوٹ مار کی روک تھام کیلئے سرکاری ادارے بنائے گئے ہیں۔ آئین میں اداروں کی ذمہ داریاں اور اختیارات متعین ہیں، سزائیں موجود ہیں، لیکن ملک کو مفاہمت کی نظریں کھائے جارہی ہیں یا پھر سیاسی بد نظروں کی زد میں ہے۔ آئین و قانون کے ہوتے ہوئے لوٹ مار جاری ہے۔ اس وقت سرکاری ادارے خرگوش کی نیند میں ہیں۔ ہر بار ہر سال عوام کے ساتھ اس طرح کا ہاتھ ہو جاتا ہے اور ہتھیلی لگانے والے اپنے ہی محب وطن ہیں جو ووٹ لیکر آتے ہیں یا پھر آئین پاکستان کی وفا داری کا حلف لیتے ہیں، ایسے افراد کے غیرقانونی تحفظ میں ریاست کیوں خاموش ہے؟ ایسی پلاننگ کرنے والوں کو روکا کیوں نہیں جاتا؟ یہ فیصلے اگر ملکی مفاد میں ہیں تو میڈیا پر آکر کیوں نہیں بتایا جارہا ہے۔ حقیقت میں یہ ڈاکے ہیں جو کئی سالوں سے وسائل پر مارے جارہے ہیں۔ ماضی میں اپنی جان بخشی میں خاموش تھے اور آج کل تو حالات ہی مختلف ہیں، ڈاکو تو کھری کھری سناتے بھی ہیں اور وکٹری کا نشان بھی بناتے ہیں۔ مجھے چند ماہ پہلے کی کارروائیاں یاد ہیں، جب سیکرٹری فوڈ سندھ، ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز اور علاقائی مختیار کار حرکت میں تھے۔ کسانوں پر چھاپے مارے جارہے تھے، کراچی میں آٹے کا بحران پیدا ہوچکا تھا۔ سپر ہائی وے پر چیک پوسٹنگز بنا دی گئی تھیں۔ چیکنگ کی ذمہ داری تمام علاقائی انتظامیہ کی تھی۔ کراچی انتظامیہ حرکت میں تھی۔ ایسا محسوس کرایا گیا کہ کسان ہی لوٹ مار کرتا ہے۔ ایسی صورتحال تھی کہ فلور ملز ایسوسی ایشن کے صدر چودھری عامر نے کراچی پریس کلب میں اس ناانصافی پر میڈیا کو تفصیلات سے آگاہ کیا۔ کراچی سندھ کی واحد ڈویژن ہے جہاں آٹے کی ضرورت کیلئے انٹیریئر سندھ سپورٹ کرتا ہے۔ سابقہ نگران حکومت کے دور میں کسانوں پر انتہا کی سختی تھی ۔ کسانوں کے گداموں پر چھاپے مارے گئے ۔ سرکاری ریٹوں پر گندم اٹھائی گی ۔ کسانوں سے اناج اٹھا لیا تھا ۔ چند ماہ بعد آج کوئی سرکاری افسر نظر نہیں آ رہا ۔ جب اربوں کا ٹکا سامنے آ چکا ہے ۔ کسانوں نے 10 مئی کو ہڑتال کی کال دے دی ہے لیکن طاقت وار آج بھی مجبور کسانوں سے سستی گندم خرید کر سٹور کر رہا ہے ۔ کسان کو اس صورت حال میں بھی نقصان کا سامنا ہے اور حکومت گندم امپورٹ کے فیصلہ پر کاروائی کا علان کر کے معاملہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوسش میں ہے ۔ اس کمیٹی کا کوئی فائدہ نہیں۔ ڈالر باہر چلا گیا اور کسان اور غریب پھر لوٹ گیا ہے۔ ان 18فیصد لوگوں کا کیا ہوگا جن کو شام کی روٹی ملنے کی امید نہیں۔ سیاسی نعروں کا کوئی نقصان نہیں لیکن ایسے فیصلے ملک کو تباہ کرتے ہیں۔ آج بیوروکریسی، ڈپٹی کمشنرز ، اسسٹنٹ کمشنرز کہیں نظر نہیں آ رہے۔ زراعت کو ریڈی کی ہڈی کہنے والوں نے لوٹ مار مچائی ہوئی ہے۔ حکومتی کمیٹی کے فیصلے پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آرہا۔ سابقہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی پیشی سے کچھ بھی ہونیوالا نہیں۔ طاقت ور اور فیصلہ سازوں نے کشکول اور سبسڈی دونوں کو اپنے قریب رکھا ہوا ہے، گاڈ فادر ناول میں گاڈ کہتا ہے کہ کاروباری افراد کے ساتھ معاملات حل طلب ہیں۔ ہمارے ہاں حکومتی قیادت کا تعلق کاروباری خاندانوں سے ہے، ان کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں اور تو اور یہ سب کاروباری ہیں ۔ سب سے بری بات خود کو مسلمان کہتے ہیں ۔ ہر وہ کام کرتے ہیں جو کافر بھی اپنے وطن کے ساتھ نہیں کرتا ۔ جب فیصلہ سازوں کے کاروبار پاکستان سے باہر ہوں گے تو عوامی فلاحی ، ان فیصلوں میں کاروبار ہوں گے۔ کاروبار کا مطلب منافع کمانا ہے ، امپورٹ گندم کا کیسا ٹیکہ لگایا ہے، ماضی کے سارے بیانوں کو مٹی کر گیا ہے۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے والوں نے اربوں ڈالر کی گندم امپورٹ کرلی جبکہ ملک میں متوقع پیداوار ملکی ضرورت سے زیادہ تھی ۔ فیصلہ سازوں ، سیاسی کاروباری شخصیات اب دونوں اطراف سے مال کما لیں گے ، سوال ان سے بھی کرنا چاہئے جو پچھلے سال کسانوں کے گوداموں پر چھاپے مار رہے تھے، جو آئین کے پابند ہیں۔ جو قانون کے محافظ ہیں۔ کیا بیوروکریسی کو اس بار معلوم نہیں تھا کہ گندم کی متوقع پیداوار ملکی ضروریات سے زیادہ ہی۔ حاکم کے غلط فیصلے کو روکنا ملکی سلامتی نہیں تھا ۔ غلط فیصلوں کیخلاف بیوروکریسی کا آئینی کردار بالکل ختم ہوچکا ہے ۔ ان کی خاموشی نہیں بنتی تھی ۔ روٹی سستی کے چکر میں آپ زرعی شعبہ کو مزید کمزور کر رہے ہیں ۔ اب ایسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے کہ گلی محلوں میں ڈاکو راج ہے۔ ڈاکو اداروں کی سپورٹ سے فیصلہ ساز بن چکے ہیں ۔ نیشنل فوڈ اینڈ سکیورٹی کی نا اہلی واضح ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے کمیٹی قائم تو کردی گئی ہے لیکن کمیٹی کے فیصلے پر عمل درآمد ہی تو حکومت پر بھاری ہے ۔ سابقہ وزیر اعظم عمران خان کے دور میں بھی چینی پر گیم ہوا ، موٹر وے کے نقشہ میں تبدیلی پر بھی بہت شور ہوا تھا ۔ عمران خان اور کئی دوسرے وزیر اعظم مافیا کو روکنے میں ناکام رہے۔ بنکوں نے 30ارب ڈالر کی ہیرا پھیری کی، جب ملک ڈیفالٹ کی طرف جا رہا تھا ان کو جرمانہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر تھا۔ طاقتور کاروباری حلقے اپنے خرچ کو ہر حال میں منافع کے ساتھ وصول کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں ملکی مفادات کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ماضی میں ان کے کردار واضح ہیں، ہمارے ہاں لوگ جلدی چیزوں کو بھول جاتے ہیں۔ گزشتہ سال سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں سیلاب نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا لیکن اگر ہم سندھ کے حوالہ سے بات کریں تو ان مال بردار فیصلہ سازوں نے اپنی جیب سے کوئی خدمات نہیں کی ۔ ان کے ہاں عوام بھیڑ بکریاں ہیں۔ ہر سال کوئی نہ کوئی گندم جیسی لوٹ مار کا عوام کو سامنا ہے۔ تفریق میں اضافہ ہورہا ہے، روزگار نہیں ہے، کوئی پلاننگ نہیں ہے، بس ٹک ٹوک پر عوامی خدمت نظر آ رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button