ColumnImtiaz Aasi

یورپی یونین اور انسانی حقوق

تحریر : امتیاز عاصی
اسلام آباد میں یورپی یونین کے سفیر ڈاکٹر رینا کیونکا کے حوالے سے ایک اردو معاصر میں شائع ہونے والی خبر میں پاکستان میں منشیات کے جرائم میں موت کی سزا پانے والوں کی سزائے موت کے خاتمے کو قابل تعریف قرار دیا گیا ہے۔ جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے زیراہتمام منشیات کے حوالے سے پالیسی اور علاج انسانی حقوق پر اثرات کے موضوع پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا منشیات کے استعمال کو روکنے کے لئے تعزیری اقدامات کی بجائے اس کی روک تھام ،علاج اور بحالی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تعزیری دائرہ محددو ہونے کی وجہ سے جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اس موقع پر انسانی حقوق کے عالمی چیلنجوں پر توجہ مرکوز کی گئی جو منشیات کے عالمی مسئلے سے پیدا ہوئے ہیں۔ دراصل یورپی یونین پاکستان میں سزائے موت کے خاتمے کے لئے گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان پر دبائو ڈال رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں یورپی یونین کے دبائو پر مملکت میں موت کی سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔ جب کہ اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اسمبلی کے فلور پر موت کی سزا کو عمر قید میں بدلنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد سزائے موت پر عمل درآمد رک گیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اسمبلی میں دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باعث موت کی سزا کے قانون کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکی لیکن سزائے موت پر عمل درآمد رکا رہا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحہ کے بعد موت کی سزائوں پر عمل درآمد شروع ہو گیا جس کے بعد ملکی تاریخ میں پہلے کبھی قیدیوں کی اتنی بڑی تعداد کو پھانسی نہیں دی گئی جتنی مشرف دور میں دی گئی۔ اگر دیکھا جائے تو یورپی یونین کے دبائو کے باعث اب بھی سزائے موت پر عمل درآمد رکا ہوا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے مغرب اور ہمارا بنیادی ڈھانچہ ایک دوسرے سے متصادم ہے لیکن ہم یورپی یونین کے دبائو کے باعث ہم اسلام میں دی گئی سزائوں کو پس پشت ڈالنے کی طرف گامزن ہیں۔ تعجب ہے سعودی عرب میں آئے روز منشیات میں ملوث افراد کو موت کی سزائیں دی جاتی ہیں یورپی یونین سعودی عرب سے موت کی سزا کے خاتمے کا مطالبہ کیوں نہیں کرتی۔ بدقسمتی ہے ہم مغرب سے کچھ زیادہ متاثر ہیں۔ یورپی یونین کو منشیات کے جرائم میں موت کی سزائوں پر عمل درآمد سے انسانی حقوق کی یاد آتی ہے لیکن فلسطین اور دیگر ملکوں میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر اس کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا غزہ میں معصوم بچوں کا قتل عام انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتا ہے ؟۔ درحقیقت مغرب کے اس دوہرے معیار نے مسلمانوں کے خلاف ظلم ڈھائے جانے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ ہمیں یاد ہے چند سال پہلے ہمارے ایک مہربان جسٹس عباد الرحمان لودھی جو اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے جج تھے کو امریکہ میں ایک سمینار میں شرکت کے لئے نامزد کیا گیا تو انہوں نے جانے سے انکار کر دیا تھا جس وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا پاکستان جیسے اسلامی ملک کی امریکہ کے ساتھ کوئی چیز کامن نہیں لہذا امریکی جوڈیشری سمیت پاکستان کے ہر شعبے ہائے زندگی میں اپنے لوگوں کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران انہوں نے ایک خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو نوٹس دیا تو انہیں راولپنڈی سے ملتان بینچ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ہماری معلومات کے مطابق حکومت نے منشیات کے جرائم میں سزائے موت کے خاتمے کے سفارشات تیار کر لی ہیں۔ قریبا تین عشرے قبل منشیات کے جرائم میں ملوث افراد کو موت کی سزا دینے کا قانون بنایا گیا جس کے بعد سے ابھی تک ایک ملزم کو موت کی سزا دی گئی ہے ورنہ ماتحت عدالتوں سے موت کی سزا پانے والوں کی اکثریت کی موت کی سزا عمر قید میں بدل دی جاتی ہے یا وہ بعض قانونی کمزوریوں کے باعث اعلیٰ عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں۔ دراصل منشیات لانے والوں کی اکثریت کا تعلق کیرئیر سے ہوتا ہے جب کہ اصل ملزمان سامنے نہیں آتے جس کی بنا منشیات لانے والوں کو سزائوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بات درست ہے وطن عزیز کو منشیات سے پاک کرنے کے لئے منشیات کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات کی بہت ضرورت ہے۔ منشیات کی سب سے بڑی منڈی افغانستان اور سابقہ قبائلی علاقہ جات میں وادی تیرہ ہے جہاں سے کیرئیر کے ذریعے منشیات کی بھاری مقدار پنجاب اور ملک کے دوسرے علاقوں میں اسمگل ہوتی ہے۔ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے فرائض کی انجام دہی صدق دل سے کریں تو منشیات کی روک تھام میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ اس وقت منشیات کی لعنت سکولوں اور کالجوں کے طلبہ اور طالبات تک پہنچ چکی ہے نوجوان نسل منشیات کے استعمال سے تعلیم سے توجہ ہٹا چکے ہیں نوجوان طالبات کی اکثریت منشیات کی لعنت میں مبتلا ہے جس سے ان کے والدین کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ پرائیویٹ اور سرکاری سطح پر قائم انسداد منشیات کے اداروں میں نوجوان طلبہ اور طالبات کی بہت بڑی تعداد علاج معالجہ کے لئے داخل ہے جن کا سرکاری سطح پر مفت علاج کیا جاتا ہے۔ ہمیں انسداد منشیات کے لئے اس وقت جو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ موجودہ حکومت اداروں کے تعاون سے جس طرح اسمگلنگ کے خاتمے کے لئے ہنگامی اقدامات کر رہی ہے بالکل اسی طرح منشیات کے خاتمے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ مملکت کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی تھی اور اس ملک کا قیام اسلام کے نام پر عمل میں لایا گیا تھا لہذا حکومت کو پورپی یونین کے دبائو کو منشیات کے دھندے میں ملوث افراد کی سزائے موت کے خاتمے کے مطالبے کو یکسر مسترد کر دنیا چاہیے۔ یہ درست ہے ہمارا ملک یورپی یونین کے ساتھ اچھی خاصی تجارت کرتا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہم یہود و ہنوز کی خواہشات پر عمل پیرا ہو کر اپنی مذہبی آزادی اور اسلامی افکار کو بھول جائیں۔ یوں تو اگر حکومت چاہیے بھی تو آئین میں دی گی سزائے موت کو اپنے طور پر ختم نہیں کر سکتی۔ اے کاش یورپی یونین کے سفیر کو غزہ میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی یاد ہوتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button