Column

کیا گندم بحران کے ذمہ داروں کو سزا مل سکے گی؟

تحریر : رفیع صحرائی

گندم بحران نے کسان طبقے میں بے چینی کی لہر ہی پیدا نہیں کی بلکہ اسے کاشتکاری سے بھی متنفر کر دیا ہے۔ کس قدر قابلِ رحم صورتِ حال ہے کہ پروڈیوسر اپنی پراڈکٹ یا پروڈکشن کی قیمت کا تعین بھی نہیں کر سکتا۔ ایک قلفی فروش، چھابڑی والا، ریڑھی پر رکھ کر چیزیں فروخت کرنے والا، فلور مل کا مالک، شوگر مل مالک، کپڑا بنانے والا اپنی پراڈکٹ اور مصنوعات کی قیمتوں کا تعین خود کرتا ہے حتیٰ کہ مستری اور مزدور بھی اپنی اجرت خود طے کرتے ہیں مگر ہمارا کسان چھ ماہ تک سخت محنت اور گرم و سرد موسم کی سختیوں کو برداشت کرنے کے بعد حاصل شدہ گندم کی قیمت کا خود تعین نہیں کر سکتا۔ وہ اس کے لیے حکومت اور مڈل مین یعنی آڑھتی کا محتاج ہے۔ اس کی مقامی پیداوار کے سونے کو جس طرح غیرملکی پیتل سے شکست دی جا رہی ہے یہ کسان کے معاشی قتل کے مترادف تو ہے ہی لیکن دیکھا جائے تو یہ ملک دشمنی کا عمل بھی ہے۔ ذاتی فائدے پر ملکی مفاد کو قربان کرنے والے بڑے لوگوں کو کٹہرے میں لا کر ان کی گھٹیا حرکت پر قرار واقعی سزا نہ دی گئی تو کسان اناج اگانے کی بجائے اپنی زمینوں پر ہاسنگ سوسائٹیاں بنانے کو ترجیح دیں گے۔ نتیجے کے طور پر ہر سال گندم، چاول درآمد کرنے پڑیں گے اور ان کی قیمتیں آسمان پر پہنچ جائیں گی۔
گزشتہ دنوں سابق وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ اور مسلم لیگ ن کے سرکردہ رہنما حنیف عباسی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ حنیف عباسی نے کاکڑ صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ قسم کھا سکتے ہیں کہ کاکڑ صاحب نے گندم درآمد کرنے کے معاملے میں مالی فائدہ اٹھایا ہے۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ جنابِ کاکڑ اپنی پوزیشن واضح کرتے، الٹا انہوں نے جواب درآں غزل کے طور پر عباسی صاحب کو فارم 47کے پیچھے چھپے حقائق کو افشا کرنے کی دھمکی دے دی۔ انہوں نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ ایک ہوٹل میں آمنا سامنا ہونے پر حنیف عباسی سے طنزاً کہا کہ کیا گندم معاملے پر تم مجھے گرفتار کرنے آئے ہو؟۔ جس پر حنیف عباسی نے کہا کہ ’’ میں قسم کھا کر کہتا ہوں تم چور ہو۔ تم نے گندم سکینڈل میں پیسے کھائے ہیں‘‘۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے ترجمان نے اس واقعہ پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم اور حنیف عباسی کے درمیان ہونے والی تکرار قوم کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تکرار درحقیقت قومی خزانے کی چوری میں ملوث کرداروں کا اعترافِ جرم ہے۔ اس گفتگو کا معاملہ شفاف تحقیقات کا متقاضی ہے کہ سابق نگران وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ نے آئینی اختیارات سے تجاوز کیا۔ وافر گندم کی موجودگی کے باوجود اضافی گندم کی درآمد کا خمیازہ کسان بھگت رہا ہے۔ ترجمان تحریکِ انصاف نے کہا کہ گفتگو کے تناظر میں جوڈیشل کمیشن قائم کر کے ذمہ داران کا احتساب کیا جائے۔
دوسری طرف قائد مسلم لیگ ن نواز شریف نے گندم بحران کی سنگینی کا نوٹس لیتے ہوئے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو ماڈل ٹائون طلب کر لیا۔ پتا چلا ہے کہ وہ اس معاملے میں شدید برہم ہیں۔ پارٹی قائد کے پاس پہنچنے سے پہلے شہباز شریف نے تیزی سے اس معاملے کی تحقیقات کرائی۔ وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ گندم سکینڈل کے ذمہ دار تمام کرداروں کو قوم کے سامنے لایا جائے گا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ کسان کے منہ سے نوالہ چھیننے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ رپورٹ میں دیگر ذمہ داران کے ساتھ ساتھ جناب شہباز شریف کا ذکر بھی لازمی آئے گا۔ کیونکہ نگران دور سے ہٹ کر موجودہ دور میں میاں شہباز شریف کی آنکھوں میں دھول جھونک کر 98ارب 51کروڑ روپے کی گندم درآمد کی گئی ہے۔ میاں شہباز شریف اس کے براہِ راست ذمہ دار نہ بھی ہوں تو فرائض سے غفلت کا ارتکاب تو یقیناً ان سے ہوا ہے۔ سرکاری افسران کو جب بھی ان کے عہدے سے ہٹایا جاتا ہے یا ملازمت سے برخاست کیا جاتا ہے تو ان پر فرائض سے غفلت کا الزام ضرور لگایا جاتا ہے۔ اب دیکھیں نواز شریف کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
جہاں تک گندم سکینڈل کی پس پردہ کہانی کا تعلق ہے تو ایک حلقے کا دعویٰ ہے کہ اس کام کا آغاز پی ڈی ایم کی حکومت کے دور میں ہوا تھا جب جناب احسن اقبال نے امریکہ کے مجبور کرنے پر جنگ زدہ یوکرین سے ناقص اور مبینہ طور پر بارود کے اثرات سے زہریلی گندم مارکیٹ ریٹ سے بھی مہنگے داموں خریدنے کی ڈیل کی جبکہ وہ گندم کوڑیوں کا مول رکھتی تھی۔ اس ڈیل پر عمل نگران دور میں ہوا۔ دورانِ سفر سمندر میں سیلن زدہ ہونے والی یہ گندم پاسکو کے سٹوروں میں پڑی مزید خراب ہو رہی ہے۔ اب ملکی گندم رکھنے کے لیے پاسکو کے پاس جگہ نہیں ہے۔ خدشہ ہے کہ وہ درآمد کی گئی خراب اور سیلن زدہ گندم ملک میں سپلائی کی جائے گی جبکہ ملک کی بہترین گندم چند ماہ بعد ایکسپورٹ کر دی جائے گی۔ کیونکہ پاسکو کے پاس سٹوریج کی گنجائش نہیں ہے۔ صوبائی حکومتوں کے پاس گندم ذخیرہ کرنے کا بندوبست ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت پنجاب نے صوبائی محکمہ خوراک کو سرے سے ہی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
حقائق بتانے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ کسان پس رہا ہے، مر رہا ہے۔ تحقیقاتی کمیٹیاں ڈنگ ٹپانے کا بہانہ تو ہو سکتی ہیں مگر ان کی رپورٹ کی روشنی میں بڑے لوگوں کو سزا دینا بہت مشکل ہے۔ معاملے کو سمجھنے اور پھر اس پر سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ حکمرانوں اور سیاست دانوں کے فیصلوں کی بھینٹ چڑھ کر عوام پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اب کسان کنگال ہو رہا ہے۔ حکومتی ایجنٹوں کی چاندی ہو رہی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ان حالات میں کیا اگلے سال کسان گندم اگائے گا؟ کیا ملکی ضروریات کے لیے آئندہ سال گندم دستیاب ہو گی؟ ہم کب تک غیروں کی خاطر اپنا گھر برباد کرتے رہیں گے؟
تحقیقات کا جو بھی نتیجہ نکلے اور شہباز شریف کی رپورٹ میں جو بھی حقائق درج ہوں، فوری کام کسان کی اشک شوئی کرنا اور اس کی گندم مارکیٹ ریٹ پر خریدنا ہے۔ جناب نواز شریف اس سلسلے میں وزیرِ اعظم کو مناسب ہدایات جاری کریں۔ حکومت کے غلط فیصلوں کی سزا کسانوں کو نہ دی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button