Column

ملکی مسائل اور وجوہات

تحریر : شکیل امجد صادق
معاشرے میں تفریق کی بڑی وجوہات مذہب، سیاست اور علاقائی لسانیت ہے جس کی بنا پر ہر کوئی اپنے اپنے بیانیے کو تقویت دینے میں مگن ہے اور ہر گروہ اپنی دلیل کو حرف آخر سمجھتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں لکیر بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر مذہب کی بات کریں تو تمام مذاہب و فرقے رواداری اور باہمی اتحاد کا درس دیتے ہیں لیکن نہ جانے پھر بھی معاشرے میں اس کا عملی جامعہ بہت کم کیوں ہے؟ ایک مدرسے و سکول کے بچے کی سوچ دوسرے سے نہیں ملتی ۔ ہر ایک کی اپنی اپنی ڈیرہ مسجد کی اینٹ ہے جس میں یہ صرف اپنی اپنی سوچ اور مستی میں گم ہیں۔ ہر گروہ یہ چاہتا ہے کہ ہر سو صرف ان کا ہی بول بولا ہو اور دوسروں کا نام و نشان تک مٹ جائے۔ بس یہیں سے برداشت کے ساتھ کھلواڑ شروع ہو جاتی ہے اور نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ ان گروہوں کے باہمی تعلقات اب زنگ آلود ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اگر سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو اس کا بھی عجیب منظر نامہ ہے۔ کوئی مالٹا ہے تو کوئی امرود۔ مطلب تضاد اور اختلاف ہی اختلاف۔ عام آدمی کی بات تو بعد میں کرتے ہیں، پہلے سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی بات کرتے ہیں۔ سیاست میں یہ رواج کب سے رونما ہو گیا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کا سربراہ کسی دوسرے سربراہ سے میل ملاقات اور بحث و مباحثہ کے لیے تیار نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی اتحاد و تعلقات کے بغیر ملکی مسائل حل تو کیا زیر بحث بھی نہیں لائے جا سکتے۔ حکومت کی تھوڑے اور لمبے عرصے کے لیے کیا پالیسی ہوگی؟ آنے والی دس، پندرہ سال میں ملک کہاں کھڑے ہو گا؟ پیچھے کی جانب نظر دوڑائیں اور اپنی کارکردگی دیکھیں کہ ہم نے ماضی میں کیا حاصل کیا ہے اور کیا غلطیاں کی ہیں اور ان کا ازالہ آج کس طرح سے ہو رہا ہے؟ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں اور ان کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ لیکن دکھ یہ ہے کہ کسی بھی جماعت کے اس طرح کا کوئی پروگرام اور وژن نہیں ہے۔ اراکین پارلیمنٹ کی سیاست صرف تھانہ و کچہری اور سولنگ و نالیوں تک ہی موثر ہے۔ حالانکہ ان اراکین کا اصل کام ملکی مسائل کو حل کرنے کے لیے بہتر سے بہتر قانون سازی کرنا ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پارلیمنٹ میں آنے والے ان لوگوں کا اس تمام کام سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا جس کام کے لیے وہ پارلیمنٹ تک لائے جاتے ہیں۔ ماضی میں بھی اگر دیکھا جائے تو پارلیمنٹ میں پیش ہونے والے بل بغیر کسی لمبے چوڑے مباحثہ کے منظور ہو جاتے ہیں۔ اس میں بھی دکھ والی بات یہ ہے کہ بہت سے اراکین کو مباحثہ کے اطوار تک نہیں معلوم ہیں۔ لیکن آئے ہیں قانون سازی کرنے۔ حالانکہ رکن پارلیمنٹ کے ہاں مختلف علوم و فنون کا عبور، حکومت کو چلانے کا تجربہ، بنائی جانے والی پالیسی کے فوائد و نقصانات کا ادراک، موجودہ دنیا کے مسائل اور ٹرینڈز کا علم، ملکی مسائل کی سمجھ بوجھ اور انٹرنیشنل سیاست پر نظر ہونا بہت ضروری ہے۔ لیکن ہمارا رکن اسمبلی کیا ان تمام معاملات کا ادراک رکھتا ہے؟ کیا اسے ان تمام معاملات میں سمجھ بوجھ ہے؟ کیا وہ دنیا کی جدید ریسرچ پر گرفت رکھتا ہے؟ بدقسمتی سے پارلیمنٹ میں ایسے لوگوں کا قحط ہے۔ پارلیمنٹ میں دانشور ارکان کا قحط ملک کے مستقبل کے بارے میں ایک سوالیہ نشان ہے۔ تو پھر سلجھے ہوئے اور اچھی سمجھ بوجھ رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کہاں سے لائیں؟ کیا ملک میں کوئی ایسی نرسری ہے جو نوجوانوں کو سیاسی معاملات کی ٹریننگ دے۔ طلبہ یونین، کسان یونین، مزدور یونین، تاجر یونین حتیٰ کہ ہر شعبہ زندگی میں یونین کا ہونا ضروری ہے جو اپنے اپنے شعبہ کے لوگوں کے حقوق کا تحفظ اور فلاح کے لیے کام کرے۔ انھیں یونین سے ہی لیڈر شب پرورش پائے گی جو مستقبل میں ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال سکتی ہے۔ اس طرح پارلیمنٹ میں ہر شعبہ زندگی سے لوگ آئیں گے اور ملکی مسائل کو حل کرنے میں آسانی ہوگی۔ اور پارلیمنٹ کی باگ ڈور صرف چند خاندانوں تک محدود نہیں رہے گی۔ دوسری جانب نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ سیاست اب ملکی مسائل کی بجائے صرف اقتدار کی جنگ تک محدود ہو گئی ہے۔ ہر سیاسی جماعت اقتدار میں آنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ اور اسی اقتدار کو جمہور کے نام پر حاصل کر کے صرف ذاتی کاروبار اور تعلقات تک محدود کر لیا جاتا ہے۔ اسی لیے تو سیاست کا کھیل بہت مہنگا ہو گیا ہے کیونکہ ہر کوئی اس میں آ کر حکومتی مشینری اور وسائل کو اپنے اثر و رسوخ سے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے اور اپنے کاروبار اور نجی معاملات کو ترقی دینے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے۔
مانتا ہوں ہمارے جیسے ملکوں میں صاحب اقتدار کے پاس اختیارات بہت محدود ہوتے ہیں لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پچھلی کئی دہائیوں سے ملک کا ہر شعبہ خسارے میں جا رہا ہے لیکن صاحب اقتدار کے اپنے کاروبار مسلسل پھل پھول رہے ہیں۔ اگر ان صاحب اقتدار کے پاس واقعی اتنے محدود اختیارات تھے تو ان کے ذاتی کاروبار کس طرح پھیلتے رہے۔ ملک اگر بحرانوں کا شکار رہا ہے تو پھر ان صاحبان کے کاروباری نظام میں کوئی بحران کیوں نہیں آیا۔ پچھلے دس پندرہ سال کا ڈیٹا ہی لے لیں اور ان میں موجود صاحب اقتدار کے ذاتی کاروبار اور ملکی معاملات کا موازنہ کر لیں۔ آپ کو بآسانی علم ہو جائے گا کہ ملکی مسائل خرابی کی طرف گئے ہیں اور ان صاحبان اقتدار کے ذاتی کاروبار میں ترقی ہوئی ہے۔ موجودہ صورت حال میں سیاست بہت بڑا کاروبار بن گیا ہے اور اس کے کھیل کا حجم بھی بہت بڑا ہو گیا ہے ۔ سو صاحبان سیاست اپنے کاروبار میں اضافے کے لیے win winکھیل رہے ہیں۔ عام آدمی کا پر سان حال یہی ہے کہ وہ دل گردہ بڑا کر کے اپنے آپ کو پالے اور ان صاحبان کے جھانسے سے جتنا بچ سکتا ہے بچے۔ اور اپنی زندگی میں بڑی آسائشوں کو ترک کر کے سادگی سے اپنی زندگی بسر کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button