Ali HassanColumn

ایران پاکستان تجارتی معاہدہ

تحریر : علی حسن
ایران کے صدر عالی جناب ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی 25اپریل کو دورہ پر پاکستان پہنچے۔ نامعلوم کیوں اور کن اسباب کی بناء حکومت پاکستان کے صدر یا وزیر اعظم ان کا استقبال کرنے نہیں گئے بلکہ وفاقی کابینہ کے ایک وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ کو بھیجا گیا۔ یہ کس بات کی علامت تھی۔ وگرنہ جب شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی یکم مارچ 1950کو پاکستان آئے تھے تو اس وقت کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین اور وزیر اعظم لیاقت علی خان اور دیگر حضرات ان کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ جب تک ایران پر شہنشاہ کی شہنشاہیت تھی امریکہ پاکستان کو ایک طفیلی ریاست کی طرح ہانکتا تھا۔ لاہور میں ان کے استقبال کے لئے خاتون وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف خود گئیں۔ امریکی صدر جمی کارٹر نے انقلاب سے قبل اپنے دورہ ایران کے دوران ایک موقع پر شہنشاہ کو اس ریجن میں امریکہ کا پولس مین قرار دیا تھا۔ زرہ بند پہنے ہوئے شہنشاہ کا سینہ اور پھول گیا تھا لیکن اس وقت جمی کارٹر اور رضا شاہ پہلوی کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ انقلاب ایران کے دروازے پر پہنچ چکا ہے۔ پھر جب شہنشاہ ایران سے فرار ہو کر پناہ لینے امریکہ گیا تو اسے پناہ نہیں دی گئی تھی۔
کالعدم انگریزی روزنامہ پاکستان ٹائمز لاہور میں ایک کارٹون 11دسمبر 1950کو شائع کیا گیا تھا جب امریکہ نے پاکستان کو 6لاکھ ڈالر کی امداد دی تھی۔ کارٹون میں ایک شخص بیساکھیاں لگائے چل رہا ہے، ایک گھر میں سے دو امریکی آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ پاکستان نے امریکی امداد لے لی ہے، یہ اب کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا۔ اسی موقع پر بھارت کے وزیر اعظم نہرو نے کہا تھا کہ امریکی مونگ پھلی لیاقت علی خان نے کھا لی ہے وہ پاکستان کو بہت مہنگی پڑے گی۔ کراچی میں متعین امریکی قونصل جنرل ریلے ایس گپسن نے اپنی حکومت کو ایک مراسلہ روانہ کیا۔ مراسلہ پر تاریخ 13 فروری 1953درج ہے۔ انہوں نے مراسلہ میں لکھا ہے کہ’’ ان کی جنرل ایوب خان سے گفتگو ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو سیاست دانوں یا پبلک کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے کہ حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ لیکن اگر کھبی ایسا خطرہ پیدا ہوا تو فوج فوری مداخلت کر کے مار شل لاء نافذ کر کے حالات پر قابو پا لے گی۔ اگر حالات سنگین ہوئے تو فوج ملٹری حکومت قائم کر دے گی تاکہ پاکستان کی سالمیت محفوظ رہے۔ فوج کے بعض افسران کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کے منصوبے کے امکانات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جی ایچ کیو کی صلاحیتوں کے بارے میں انہیں یقین ہے کہ جی ایچ کیو کے علم کے بغیر کوئی منصوبہ تیار نہیں ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ راولپنڈی سازش کیس کی ناکامی کے بعد فوجی رہنما کسی ایسی کوشش سے باز رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی افسران پر انہیں مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ اور جی ایچ کیو انٹیلی جنس کی صلاحیت کی موجودگی میں وہ محسوس نہیں کرتے کہ کوئی فوجی رہنما دوسروں کو اکسانے میں کامیاب
ہوگا۔ سیاست دانوں کے حوالے سے ان کی حکومت کرنے کی خواہش کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ نہیں محسوس کرتے کہ صوبہ سرحد کے و زیر اعلیٰ عبدالقیوم خان اور پنجاب کو وزیر اعلیٰ میاں ممتاز دولتانہ پاکستان کی رہنمائی کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں‘‘۔ یاد دہانی کے لئے کہ ایوب خان کی بحیثیت کمانڈر انچیف تقرری 17جنوری 1951کو ہوئی تھی۔
امریکہ کا رد عمل ہے کہ ایران سے تجارتی معاہدوں پر پابندیوں کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والوں کو خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ امریکہ پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈیوں میں سے ایک ہے۔ امریکہ 20سال سے پاکستان میں ایک بڑا سرمایہ کار بھی ہے۔ پاکستان کی اقتصادی کامیابی دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ امریکہ حکام کو خیال درست ہو سکتا ہے لیکن پاکستان کے ایک صدر ایوب خان نے اپنی خود نوشت کا عنوان ہی ’’ آقا نہیں، دوست ‘‘ رکھا تھا جس کا اردو ترجمہ ’’ جس رزق سے پرواز میں آتی ہو کوتاہی ‘‘ رکھا گیا تھا۔ موجودہ صد ر آصف علی زرداری نے ماضی میں بار بار کہا تھا ’’ پاکستان امریکہ کے ساتھ تجارت کرنا چاہتا ہے، امداد لینا نہیں چاہتا ہے‘‘۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان میں ایک بڑا سرمایہ کار ہے۔ وہ اس طرح کا سرمایہ کار ہے کہ جب پاکستان کو ایوب خان دور میں امدادی گندم دی تو پاکستان نے بندر گاہ سے گندم اٹھانے والی اونٹ گاڑیوں کے گلے میں ’’ شکریہ امریکہ‘‘ کے پوسٹر لٹکائے تھے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کو ایران پاکستان گیس پائپ
لائن پراجیکٹ مکمل کرنے کے لئے دو ارب ڈالر چاہئیں ۔ اگر یہ نہیں کرتا ہے تو پاکستان کو 18ارب ڈالر کا جرمانہ ایران کو ادا کرنا پڑے گا۔ پاکستانی حکمران خوفزدہ ہیں کہ امریکہ پاکستان کو معاف نہیں کرے گا۔ کیا پاکستان کو خوف زدہ ہونے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ پاکستان کو اپنے مفادات کیوں نہیں دیکھنا چاہئے۔ پاکستان کو ایک بزدل یا منافق ریاست کی بجائے ہمت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ امریکہ کو کہنا چاہئے کہ بہت ہو چکا ہے۔ پاکستان اس وقت قومی خودکشی کے قریب ہے اس لئے پروا کئے بغیر ایران سے تجارت کی جاسکتی ہے جس پر امریکہ نے گزشتہ 45سال سے پابندیاں لگا رکھی ہیں اور ان پابندیوں کے باوجود ایران اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس نے اسرائیل پر حملے کر کے اپنی موجودگی کا احساس بھی دلایا ہے۔ یورپ، روس، چین اور بھارت ایران کے ساتھ مکمل کاروبار کر ر ہے ہیں۔ پڑوسی ملک ہونے کے باوجود پاکستان ہی ایران کے ساتھ تجارت کرنے میں کیوں خوفزدہ ہے؟ امریکہ کے حامی گماشتے مختلف شکلوں اور رویوں میں پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کو سبوتاژ کریں گے۔ جن کا مقصد صرف یہ ہی ہوگا کہ پاکستان امریکہ کی غلامی میں ہی جکڑا رہے۔ ویسے بھی ایران سے پاکستان میں تیل سمیت لاتعداد اشیاء کی سمگلنگ ہوتی ہیں۔ پاکستان کو کیوں نہیں ایران، ترکی ، افغانستان کے ساتھ ملک کر علاقائی ترقی کا عمل شروع کرنا چاہئے۔ علاقائی ترقی کا عمل پاکستان ایران اور ترکی نے ایوب خان کے دور میں شروع کیا تھا لیکن بعد میں آڑ سی ڈی کو الماری میں رکھ دیا گیا۔ اب تو چین اور روس کی وجہ سے حالات قدرے مختلف ہیں۔
ایران کے صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کی ترقی و خوشحالی کے لئے سیاسی، اقتصادی، تجارتی اور عوامی تعلقات کو بڑھانے کے لئے مشترکہ اقدامات کئے جارہے ہیں۔ منگل کو وزیراعلیٰ ہائوس سندھ میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، صوبائی کابینہ کے ارکان، علمائے کرام، تاجر برادری کے نمائندے، اعلیٰ سرکاری حکام و سفارتکار سمیت دیگر اہم شخصیات بھی موجود تھیں۔ ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے دورہ پاکستان کو مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کا بہترین موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک نے دوطرفہ تجارت کو 10ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تاریخی، تہذیبی اور مذہبی تعلق صدیوں پر محیط ہے اور دونوں ممالک کے عوام خطے میں امن و سلامتی اور ترقی و خوشحالی کے لئے ملکر کام کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے صدر، وزیراعظم اور دیگر اعلیٰ حکام کے ساتھ حالیہ ملاقاتوں میں پاک ایران دوطرفہ تعلقات کو مستحکم بنانے پر اتفاق ہوا ہے، ایران نے نامساعد حالات کے باوجود صنعت، سائنس اور ٹیکنالوجی میں نمایاں ترقی کی اور اب ہم اپنی صلاحیتوں کا تبادلہ پاکستان کے ساتھ کرنے کے لئے تیار ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button