ColumnImtiaz Aasi

معاملہ تحقیق طلب ہے ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

رمضان المبارک میں عوام کو مفت آٹے کی تقسیم کی شروعات ہوئی تو اس دوران بھگدڑ میں کئی لوگ مارے گئے۔ بھٹو دور میں بھی آٹے اور چینی کا بحران ہوا تب لوگ تو نہیں مارے گئے تھے۔ گندم میں پاکستان جیسے خود کفیل ملک کے عوام کو آٹے کے حصول کیلئے قطاروں میں کھڑا ہونے کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم نے ہوش سنبھالا تو عوام کو آٹا بازار میں با آسانی اور کم قیمت پر دستیاب ہوا کرتا تھا۔ آٹے اور چینی کا بحران جمہوری دور میں دیکھنے میں آیا ہے حالانکہ عوامی دور میں عوام کو آمریت کے دور سے کچھ زیادہ توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ موجودہ حکومت نے نوجوانوں کو بینکوں سے قرضہ دینے کی سہولت دینے کا اعلان کیا ہے اس سے پہلے لیگی دور میں طلبہ اور طالبات کو لیپ ٹاپ فراہم کئے گئے بلکہ اب پھر لیپ ٹاپ دینے کی نوید دی گئی ہے۔ عمران خان کے دور میں عوام کو صحت کارڈ کی سہولت دی گئی جس سے لوگ اب بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے صحت کارڈ سہولت ختم کرنے کی کوشش کی تاہم عوامی ردعمل کے خوف نے حکومت کو صحت کارڈ کی سہولت جاری رکھنے پر مجبور کر دیا۔ہر آنے والی حکومت عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے اس طرح کے اقدامات کرتی ہے۔ ہمارے ہاں روایت رہی ہے کوئی حکومت عوامی فلاح وبہبود کا کوئی منصوبہ شروع کرتی ہے تو نئی آنے والی حکومت ایسے منصوبوں کو روک دیتی ہے جو باعث شرم ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ سیاست دانوں میں اخلاقیات ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ اب تو سیاست دان گھریلو خواتین پر تنقید کو جمہوریت سمجھنے لگے ہیں حالانکہ مائیں اور بہنیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں لیکن وقت کے ساتھ سیاست دانوں میں اخلاقی پہلوئوں کی کمی ہوتی جا رہی ہے جس کے عوام کو برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اب تو صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے سیاست دان ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں شریک ہونے سے عاری ہیں۔ تحریک انصاف کے دور میں کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کو چور اور ڈاکو کہنے کے بعد ماحول اس حد تک خراب ہو چکا ہے سیاسی رہنمائوں میں میل جول اور سماجی رسم و رواج ختم ہو چکا ہے بلکہ سیاست دان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ حکومت کوئی عوامی فلاح و بہبود کا کوئی منصوبہ شروع کرتی ہے تو اس میں سب سے پہلے شفاعیت کے پہلو کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں آٹے کی تقسیم کے بعد حال ہی میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ کے سنیئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے آٹے کی تقسیم میں اربوں روپے کی کرپشن کا انکشاف کرکے عوام کو حیران کر دیا ہے۔ آٹے کی تقسیم میں اربوں کی کرپشن کے الزام کے اگلے روز ان کا وضاحتی بیان نظر سے گزرا۔ اب وہ کہتے ہیں وزیراعظم کی نیت تو ٹھیک ہے آٹے کو دیکھتے ہی کرپشن نظر آجائے گی اور پنجاب میں خوراک کا نظام خراب ہے۔ شاہد خاقان عباسی ذمہ دار سیاست دان ہیں اور شہرت کے اعتبار سے اچھی شہرت کے حامل ہیں لہذا آٹے کی تقسیم میں ان کے کرپشن کے الزام سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ معاملہ تحقیق طلب ہے۔ آخر شاہد عباسی نے ویسے ہی بیان تو نہیں داغ دیا ہے کچھ تو دال میں کالا ضرور ہے جس نے انہیں اس طرح کا بیان دینے پر مجبور کر دیا۔ اگر حکومت آٹے کی تقسیم میں کرپشن کے معاملے کی تحقیق کے لئے کوئی کمیٹی قائم نہیں کرتی تو عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے آٹے کی تقسیم میں ضرور کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے جس سے حکومت چشم پوشی کر رہی ہے۔ اگرچہ شاہد خاقان نے کہا ہے ان کے بیان سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ معذرت خواہ ہیں اس کے باجود وہ اپنے سابقہ بیان پر قائم ہیں جو امر کا غماز ہے آٹے کی تقسیم میں وسیع پیمانے پر مبینہ طور پر کرپشن ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں یہ روایت رہی ہے اگر اس طرح کا کوئی اسکینڈل منظر عام پر آجائے تو چند روز کے شور غوغا کے بعد معاملہ سرد خانے میں چلاجاتا ہے۔ انہوںنے یہ الزام بھی لگایا ہے بزدار دور میں راولپنڈی میں ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرول کی تعیناتی کے لئے کروڑوں روپے کی رشوت دی گئی اگر گزشتہ دور میں محکمہ خوراک میں تعیناتی کے لئے اتنی بڑی رقم رشوت کے طور پر دی گئی تو کیا موجودہ دور حکومت میں ایسا ممکن نہیں؟ دراصل کرپشن کے ناسور نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں کرپشن نہیں ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے سوال کیا احتساب کے محکمہ کے باوجود اب تک کتنے لوگوں کو سزائیں ہوئی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے آٹا اب بھی منگوا کر دیکھ لیں تو کرپشن دکھائی دے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور پنجاب حکومت کو شاہد خاقان عباسی کے کرپشن کے الزام کو معمول کے مطابق نہیں لینا چاہیے بلکہ چند راست باز اعلیٰ افسران کی کمیٹی قائم کرکے آٹے کی تقسیم اور اس کے غیر معیاری ہونے کے ذمہ داران کا تعین کرنا چاہیے۔ حکومت کو بجائے اس معاملے سے چشم پوشی کے فوری طور پر اس معاملے کی انکوائری کے احکامات دینے چاہیں یا اس معاملے کی انکوائری اینٹی کرپشن کے حوالے کرنی چاہیے تاکہ کرپشن میں ملوث افسران اور اہل کاروں کے نشاندہی ہو سکے۔ موجودہ حکومت کے لئے آٹے کی تقسیم میں مبینہ طور پر اربوں کی کرپشن ایک نیا امتحان ہے حکومت نے اس معاملے پر کوئی کارروائی کرنے سے گریز کیا تو آنے والے الیکشن میں اس کے برے اثرات مرتب ہوں گے۔ پنجاب میں ویسے بھی مسلم لیگ نون کا ووٹ بینک بہت گر چکا ہے جس کا نتیجہ گزشتہ ضمنی الیکشن میں سامنے آچکا ہے لہذا مسلم لیگ نون کو اپنی عظمت رفتہ بحال کرنا مقصود ہے تو وقت ضائع کئے بغیر آٹے کے سکینڈل میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔ عوامی حلقے امید کرتے ہیں وزیراعظم شہباز شریف اور نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی آٹے کے غیر معیاری اور اس کی تقسیم میں کرپشن کرنے والوں کے خلاف جلد کارروائی کا اعلان کرکے اپوزیشن کو اس معاملے کو اچھالنے کا موقع فراہم نہیں کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button