Abdul Hanan Raja.Column

نعرہ لاتذر

تحریر : عبد الحنان راجہ
انگریز افواج غداروں کی مدد سے سرنگا پٹم تک ان پہنچی تھیں اور قلعہ محاصرے میں تھا۔ ایسے میں سلطان کے حلیف فرانسیسی جنرل سیپو نے انہیں اہل و عیال اور قیمتی مال و اسباب سمیت چتل ورگ کی طرف نکل جانے کا مشورہ دیا اور قلعہ کی حفاظت اپنے ذمہ لینے کی اجازت مانگی۔ سلطان کے فرانس سے معاہدات کی وجہ سے برطانوی میسور کے خلاف خوب بھڑکے ہوئے تھے۔ سلطان نے فرانسیسی افواج کی وفاداری پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وفاداروں کو غداروں اور دشمنوں کے حوالے کرنا ان کے شایان شان نہیں۔
آخری معرکہ آن پہنچا تھا کہ ایک طرف سازشیوں کی ریشہ دوانیاں تو دوسری طرف انگریز افواج۔ جرات، شجاعت اور استقامت کے پیکر نے کٹنا قبول کیا جھکنا نہیں۔ سلطان تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بنفس نفیس جنگ میں گود پڑے تھے۔ ایک طرف انگریز افواج کے تابڑ توڑ حملے تو دوسری طرف غدار اپنا کام کر رہے تھے۔ فرار کے علاوہ بچنے کی کوئی صورت باقی نہ بچی تھی۔ راخہ خان نے سلطان کو ہتھیار ڈال کر جان بچانے کا مشورہ دیا تو سلطان کی زبان پر وہ فقرہ جاری ہوا جو صدیوں تلک کفر اور ظلم سے برسرپیکار مجاہدوں کو ولولہ تازہ فراہم اور ان کے لہو کو گرماتا رہے گا کہ
’’ شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘
اسی لیے تو شاعر مشرق نے بھی انکی شان میں فارسی کا معروف قطعہ کہا
آں شیدان محبت را امام
آبروئے ہند و چین روم و شام
نامش از خورشید و مہ تابندہ تر
خاک قبرش از من تو زندہ تر
از نگاہ خواجہ بدر و حنین
فقر سلطان وارث جذب حسین
’’ ٹیپو سلطان شہیدوں کے امام اور ہندوستان، چین روم و شام کی عزت ہیں۔ ان کا نام چاند اور ستاروں سے زیادہ روشن اور ان کی قبر کی خاک مجھ سے اور تجھ سے زیادہ زندہ، آقا کریمؐ کی نگاہوں میں ٹیپو سلطان کا فقر جذبہ حسین کا وارث ہے‘‘۔
عظیم ٹیپو سلطان کہ جن کا یوم شہادت چند روز قبل 4مئی کو تھا سیکڑوں برس گزر جانے کے بعد بھی ہر بندہ مومن اپنے اندر انکے مقدس لہو کی حرارت محسوس کرتا ہے۔ جنگ میسور کا ایک راوی بیٹسن لکھتا ہے کہ جب انگریز فوج قلعہ کے اندر داخل ہو گئی تو ایک سپاہی نے ٹیپو کی تلوار کی بیلٹ چھیننا چاہی تو نیم مدہوش سلطان کہ جو بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے زمین پر بے سدھ پڑے تھے، نے اس حال میں بھی اپنی تلوار سے اس پر حملہ کر دیا۔ میر حسین علی نے کرنل مارک ولکس کے حوالے سے لکھا ہے کہ میر جعفر و میر صادق کے علاوہ شاہی فوج کا ایک کمانڈر ندیم بھی غداروں کی فہرست میں تھا کہ جس نے انگریز کے حملہ کے وقت تنخواہ کا مسئلہ کھڑا کر کے سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد کو میدان جنگ سے نکال لیا۔
ایسے جواں ہمت اور عالی مرتبت شخصیات کے ایام ہر حریت پسند کو ولولہ تازہ اور امت کا خون گرمانے کے لیے ہی تو منائے جاتے ہیں کہ زندہ قومیں اپنے اسلاف کی یادوں کو زندہ رکھتی اور کردار کے ایسے عظیم ورثہ کو نسل نو میں منتقل کرتی ہیں۔ ’ ٹیپو سلطان کی وصیت‘ کے عنوان سے حکیم الامت نے جو نظم لکھی، وہ آج بھی امت مسلمہ کے جذبوں کو مہمیز دیتی ہے
تو رہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلی بھی ھم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرائیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول
عمومی طور پر ایسے حکمران کہ جن کی زندگی کا کم و بیش سارا وقت میدان جنگ یا سازشوں کو کچلنے میں گزرا ہو، سے آداب سحر گیزی کی توقع نہیں کی جاتی مگر مسجد اعلی کی تکمیل کے بعد افتتاح کے موقع پر سلطان کی کسی صاحب ترتیب شخصیت سے افتتاح کی یہ خواہش کہ جب سلطنت کے اکابر علما و مشائخ وہاں جمع ہوں، کے پائوں کی زنجیر بن گئی۔ دیر تلک انتطار کے بعد جب کوئی اس شرط کا اہل مصلہ امامت پر نہ آیا تو ٹیپو سلطان نے خود آگے بڑھ امامت سنبھالی کہ بلوغت کے بعد سے اس وقت تک کوئی فرض نماز قضا نہ تھی۔ اللہ اکبر۔ ایسے عظیم مرد مجاہد اور بندہ مومن کی عظمت کو دنیا تا قیام قیامت اپنی عقیدتوں کو خراج پیش کرتی رہے گی۔ یہ بات بھی بہت بڑی اکثریت کے لیے اچنھبا ہی ہو گی کہ ٹیپو سلطان راکٹ اور میزائل ٹیکنالوجی کے موجد اور امریکی خلائی تحقیقی ادارہ ناسا کے میوزیم میں ان کے ڈیزائن و ایجاد کردہ راکٹس کی تصاویر آج بھی آویزاں ہیں۔ تخت سنبھالنے کے بعد بھی سلطان کے طرز زندگی میں تبدیلی نہ آئی، حقیقی مرد مجاہد کی طرح سادہ زندگی، اطلس و کم خواب اور نرم و گداز بستر کی بجائے موٹی دردی زمین پر بچھا کر سوتے۔ اپنے نام کا سکہ جاری کرنے کی بجائے تاریخ اسلام کے نامور کرداروں کو زندہ کیا۔ عوامی فلاح و بہبود، عدل و انصاف، مذہبی
آزادی و رواداری، جاگیر داری کا خاتمہ، تعلیمی و معاشی ترقی اور مسلمانوں کی اخلاقی تربیت ہمیشہ ان کے پیش نظر رہی۔ ہندوستان سے انگریزوں کو نکالنے کے لیے انہوں نے سفارتی سطح پر بھی کوششیں کیں مگر مسلمان ریاستوں کے حکمرانوں نے بوجوہ ان کی دعوت کا مثبت جواب نہ دیا۔ فخر ملت اور آفتاب حریت دشمن اور غداروں سے دیوانہ وار لڑتے لڑتے 4مئی 1799ء کو محض 48سال پانچ ماہ کی عمر میں مرتبہ شہادت پر فائز ہو گیا۔ دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے، وہ بجلی کہ تھی نعرہ لاتذر میں۔ اسی جذبہ کو امت میں پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ فلک نے اس نعرہ لاتذر کی عملی تفسیر اس وقت دیکھی کہ زخموں سے چور سلطان زمین پر تھا اور کفر غلبہ و عسکری طاقت کے باوجود لرزہ براندام۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button