ColumnRoshan Lal

نو مئی اور جھوٹ، سچ کا جھٹپٹا

تحریر : روشن لعل
پاکستان کی تاریخ میں ایسے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں جو نہ صرف پہلے دن سے جھوٹ اور سچ کے جھٹپٹے میں ہیں بلکہ آئندہ بھی ان کے اسی جھٹپٹے میں رہنے کا امکان ہے۔ نو مئی کے واقعہ کو اس طرح کے واقعات میں نیا اضافہ کہا جاتا ہے۔ جوواقعات بھی یہاں جھوٹ اور سچ کے جھٹپٹے سے باہر نہیں نکل سکے ، ان میں سے اکثر کسی دوسرے مبہم واقعہ کے تسلسل میں رونما ہوتے رہے۔ اگر نو مئی کے واقعہ کی بات کی جائے تو یہ عمران خان کی طرف سے سائفر کے نام پر جیب سے نکالا گیا سفید کاغذ لہرانے اور اسی طرح کے کچھ دیگر مبہم واقعات کا تسلسل نظر آتا ہے۔ سائفر کے نام پر سفید کاغذ لہرانے سے نو مئی تک یہاں سیاست، عدالت اور صحافت کے محاذوں پر جو کچھ بھی ہوتا رہا ، اس کے متعلق کیے گئے تبصروں کو چاہے کوئی اپنی طرف سے جس حد تک بھی غیر جانبدارانہ اور مبنی بر حقائق کہے مگر جس فریق کو بھی یہ تبصرے یا ان تبصروں کے کچھ حصے اپنے موقف کے برعکس محسوس ہوتے ہیں وہ انہیں درست ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔یہ انکار، ایسا پراپیگنڈا کر تے ہوئے کیا جاتا ہے جس کے لیے میکارتھی ازم کی اصطلاح استعمال کی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ جب کوئی فرد یا گروہ ایک طرف تو کسی دوسرے کے خلاف پیش کیے گئے موقف کا مسلسل ابلاغ کرتے ہوئے اپنے حواریوں کو اس کے درست ہونے کا اس حد تک یقین دلا دے کہ وہ کوئی مختلف نقطہ نظر سننے کے لیے تیار ہی نہ ہوں اور دوسری طرف وہ اس موقف کے حق میں نہ کوئی مناسب ثبوت پیش کرے اور نہ ہی اسے کسی ایسے فورم پر پیش کرنے میں سنجیدگی ظاہر کرے جو اسے درست یا غلط ثابت کرنے کا مجاز ہو، تو اس طرح کی حرکت کو میکارتھی ازم کے تحت کی گئی کاروائی کہتے ہیں۔
میکارتھی ازم ، امریکہ کے مرحوم سینیٹر جوزف میکارتھی کے نام سے موسوم ہے۔ جوزف میکارتھی نے 1950کی دہائی کے آغاز پر ایک خاص معاملہ میں بے بنیاد پراپیگنڈا کر کے زبردست شہرت حاصل کی تھی ۔امریکہ میں کسی بے بنیاد پراپیگنڈے کا بھرم زیادہ دیر تک قائم رہنے کا امکان کیونکہ انتہائی کم ہوتا ہے اس لیے وہاں میکارتھی اپنے جھوٹ کی بنیاد پر جس تیزی سے مشہور ہوا اسی تیزی کے ساتھ بدنام بھی ہو گیا۔ میکارتھی تو تیزی سے مشہور ہونے کے بعد بدنام بھی ہو گیا لیکن اس نے جو جھوٹ لوگوں کے ذہنوں میں ڈالا، عام امریکی عرصہ دراز تک اس کے اثرات سے باہر نہ آسکے۔ میکارتھی تو مر گیا لیکن اس کے مرنے کے بعد بھی اس کے وضع کردہ طریقہ کار کے تحت لوگوں کو گمراہ کرنے کا سلسلہ دنیا بھر میں جاری ہے۔دنیا کے دیگر ملکوں میں تو میکارتھی ازم کا استعمال کسی حد تک محتاط ہو کر کیا جاتا ہے لیکن وطن عزیز میں اس ازم کے تحت اب بھی اسی طرح بے دھڑک ،کچھ بھی کہہ دیا جاتا ہے جس طرح میکارتھی نے کہا تھا۔
سینیٹر جوزف میکارتھی نے فروری 1950کو امریکی ریاست مغربی ورجینیا میں اپنی تقریر کے دوران اسی طرح اپنی جیب سے ایک کاغذ نکال کر ہوا میں لہراتے ہوئے اہم انکشاف کرنے کا اعلان کیا جس طرح عمران خان نے پاکستان میں27مارچ 2022کو اسلام آباد میں اپنے کارکنوں سے خطاب کے دوران اپنی جیب سے سفید کاغذ نکال کر لہراتے ہوئے اس کے امریکی سازش سے جڑے سائفر ہونے کا تاثر دیا تھا۔ عمران خان نے مبینہ سائفر کو امریکی سازش سے جوڑا جبکہ میکارتھی کے پاس جو کاغذ تھا اسے اس نے سوویت یونین کی امریکہ کے خلاف سازش کا ثبوت قرار دیا تھا۔ جب میکارتھی نے یہ حرکت کی اس سے کچھ ماہ پہلے سوویت یونین ایٹمی دھماکہ کر کے اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کر چکا تھا۔ ایک کیمونسٹ ملک کے ایٹمی طاقت بننے کے تین ماہ بعد چین دنیا کا دوسرا بڑا کیمونسٹ ملک بن کر سامنے آیا۔ جنگ عظیم دوم میں ہٹلر کو شکست دے کر اپنی عسکری برتری ثابت کرنے والے کیمونسٹ
سوویت یونین کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے حامل یورپی ملک امریکی قیادت میں ناٹو جیسا ادارہ قائم کر چکے تھے۔ جس نفسیاتی کیفیت کے تحت ناٹو قائم کیا گیا اس کی شدت میں سوویت یونین کے ایٹمی طاقت بننے اور چین میں انقلاب آنے کے بعد مزید اضافہ ہوا۔ سینیٹر جوزف میکارتھی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو کیمونسٹ سوویت یونین کو شخصی آزادیوں کے حامل امریکی سماج کے لیے سب سے بڑا خطرہ قراردینے کے لیے بڑے بڑے جھوٹ بول رہے تھے۔ کیمونزم کو خطرہ قرار دینے کا پراپیگنڈا کرنے والوں میں خود کو ممتاز ترین بنانے کے لیے ریپبلکن پارٹی کے جوزف میکارتھی نے اپنی مذکورہ تقریر کے دوران جیب سے ایک کاغذ نکال کر لہراتے ہوئے یہ کہا کہ اس کاغذ میں ایسے 205لوگوں کے نام درج ہیں جو کام تو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں کرتے ہیں لیکن حقیقت میں کیمونسٹ پارٹی کے ممبر اور امریکہ میں سوویت یونین کے ایجنٹ ہیں۔ ریپبلکن میکارتھی نے یہ بیان دے کر نہ صرف عوام میں پہلے سے موجود سوویت یونین اور کیمونزم مخالفت کو مزید ابھارا بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ اس وقت کے ڈیموکریٹ امریکی صدر ٹرومین کو ان 205لوگوں کی لسٹ کا علم ہے مگر وہ جان بوجھ کر ان کے خلاف کاروائی نہیں کر رہے۔ اس تقریر کے بعد جہاں میکارتھی کی مقبولیت راتوں زمین سے آسمان پر پہنچ گئی وہاں ٹرومین کی شہرت آسمان سے زمین پر آگری۔ یہ سب کچھ ہونے کے بعد لازمی ہو گیا تھا کہ ٹرومین کانگریس کے منتخب اراکین پر مشتمل ایسی کمیٹی تشکیل دے جو انکوائری کے بعد میکارتھی کا دعویٰ سچ یا جھوٹ ہونے کافیصلہ کرے ، لہذا امریکی صدر ٹرومین نے ایسا ہی کیا۔ اراکین کانگریس کی انکوائری کمیٹی کے سامنے میکارتھی نے 205لوگوں کی لسٹ کو پہلے 57اور پھر 81لوگوں کی لسٹ کہا لیکن آخر میں اس بیان سے بھی منحرف ہو کر یہ کہا کہ وہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے صرف ایک مبینہ کیمونسٹ کا نام پیش کر سکتا ہے۔ اس کے بعد اراکین کانگریس نے جو انکوائری رپورٹ جاری کی، اس سے میکارتھی کی شہرت کے غبارے سے فوراً ہوا نکل گئی لیکن میکارتھی کا جھوٹ جب لوگوں کے سر چڑھ کر بول رہا تھا اس وقت ٹرومین کی جو کردار کشی ہوئی اس کا ازالہ بعدازاں بھی ممکن نہ ہوسکا۔ ٹرومین 1952میں منعقدہ امریکی صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا اہل تھا مگر شاید اپنی مقبولیت میں مسلسل کمی دیکھ کر اس نے صدارتی انتخاب سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا۔
جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کے لیے میکارتھی ازم کے تحت کیے گئے پراپیگنڈے کا اثر اگر امریکیوں پر ہو سکتا ہے تو سوچا پاکستان جیسے ملک کے لوگ کس طرح ایسے پراپیگنڈا کے اثر سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ آخری بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں دو مخالف سمتوں سے نو مئی کے کے حوالے سے جو آوازیں بھی ابھر رہی ہیں ان کے جھوٹ اور سچ کے جھٹپنے میں ہونے کے ساتھ، میکارتھی ازم کے زیر اثر ہونے کا گمان بھی ہو رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button