Column

یوم مزدور پر پیپلز پارٹی متحرک، نجکاری پالیسی کی مخالفت

تحریر :؍محمد ناصر شریف
یکم مئی یوم مزدور پر پیپلز پارٹی کراچی میں بہت متحرک رہی، یوم مئی کی مناسبت سے منعقدہ جلسے سے خطاب میں بلاول بھٹو زرداری نے ( جس کی جماعت کی حمایت اور ووٹوں سے وفاقی حکومت وجود میں آئی ) نجکاری پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے پی آئی اے اور سٹیل ملز سمیت دیگر اداروں کی نجکاری کے بجائے انہیں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلانے کا مطالبہ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ وفاق 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو وزارتیں اور ادارے دے، اسٹیل ملز کی زمین سندھ کی ملکیت ہماری مرضی کے بغیر فیصلے نہ کریں، اگر وفاقی حکومت کو سٹیل ملز نہیں چاہئے تو حکومت سندھ خرید لے گی۔ انہوں نے یہ نوید بھی سنائی کہ آئندہ بجٹ میں سندھ اور بلوچستان کے مزدوروں کی تنخواہیں بڑھائیں گے، بلاول کا مزید کہنا تھا کہ ای او بی آئی جیسے اداروں کو صوبوں کے حوالے کریں، وفاقی حکومت مہنگائی کو مد نظر رکھتے ہوئے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرے، مزدور کی محنت سے دنیا بھر میں معیشت چلتی ہے، انہیں محنت کا صلہ ملنا چاہئے۔ اشرافیہ جو پیسہ کماتی ہے وہ مزدور کے خون پسینے کی محنت کا نتیجہ ہے، ملکی معاشی حالات اور مہنگائی سے ہر کوئی خصوصاً محنت کش طبقہ بہت پریشان ہے۔ بلاول نے تو ایک بھرے جلسے میں اپنے دوٹوک موقف کا اظہار کر دیا لیکن اب اس موقف کے بعد ن لیگ کیا کرے گی یہ آنے والا وقت بتائے گا۔دوسری جانب صدر پاکستان آصف علی زرداری کی زیر صدارت ایک بڑی بیٹھک ہوئی جس میں وفاقی وزیر داخلہ، ایم کیو ایم، وزیر اعلیٰ سندھ و کابینہ سمیت تمام اہم افراد نے شرکت کی۔ صدر زرداری نے مراد علی شاہ کو ہدایت دی کہ کراچی کو جنگی بنیادوں پر سیف سٹی بنائیں ، کوئی دبائو قبول نہ کریں، شہر میں اسٹریٹ کرائم روکنی کے لئے اسپیشل آپریشنز اور ناردرن بائی پاس پر باڑ لگانا شروع کریں، زمینوں پر قبضے ہرگز برداشت نہیں کروں گا، پتہ ہے منشیات تعلیمی اداروں تک پہنچ گئی ، چوری کی گاڑیاں اور موبائلز کہاں فروخت ہوتے ہیں پولیس اور ایجنسیز باخبر پھر بھی کارروائی کیوں نہیں کرتیں؟ پولیس افسران کی تعیناتی کی مدت مقرر کریں ، کارکردگی پر نظر رکھیں، افسران ناکام رہیں تو انہیں ہٹا دیں۔ کراچی میں سٹریٹ کرمنلز، کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں اور منشیات فروشوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا جائے اس مقصد کے حصول کیلئے دیگر صوبوں سے قریبی روابط قائم کئے جائیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی نے کراچی میں امن و امان سے متعلق صدر کے اجلاس کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے شہریوں کا حکومت پر اعتماد بڑھے گا۔ انہوں نے صدر سے درخواست کی کہ وہ ہر ماہ اس طرح کے اجلاس کریں۔
صدر پاکستان آصف علی زرداری سے ایم کیو ایم پاکستان کے وفد نے بھی خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں گزشتہ روز علیحدہ ملاقات کی، ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلز پارٹی کے درمیان ڈیڈ لاک ختم ہوگیا اور قربت بڑھنے لگی ہے، دونوں جماعتوں کے درمیان مل کر اس قوم کی خدمت کرنے پر اتفاق ہوا ہے، مسلم لیگ ن نے ایم کیو ایم کے ساتھ جو برتائو رکھا اس پر ایم کیو ایم شدید نالاں ہے اور اسی وجہ سے ایم کیو ایم نے اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان اب تمام سیاسی جماعتوں سے عوامی اور سیاسی مسائل پر بات چیت کرے گی۔ ملاقات میں صدر زرداری نے ایم کیو ایم کے وفد کو ذاتی طور پر معاملات کی نگرانی کی یقین دہانی کرائی ہے۔
خیال کیا جارہا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اپنے سیاسی کارڈ کھیلنے میں بڑے محتاط انداز میں آگے بڑھ رہی ہے،ایم کیو ایم نے حکومت سندھ کو شہر اور اندرون سندھ جرائم کی صورت حال پر کچھ وقت دینے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے اس کے کارکنوں میں بھی بے چینی دکھائی دے رہی ہے، کراچی میں سٹریٹ کرائم کے خلاف ایم کیو ایم پاکستان نے چند روز قبل اپنے اجلاس میں شہر بھر میں احتجاج کا فیصلہ کیا، اس حوالے سے کارکنوں کو متحرک بھی کیا گیا تاہم کئی دن گزرنے کے باجود ایم کیو ایم کی جانب سے احتجاج کے حوالے سے کسی شیڈول کا اعلان نہیں کیا گیا، پی پی حکومت پر سخت تنقید اور شدید نالاں ایم کیو ایم قیادت کی بدھ کو کراچی میں صدر مملکت آصف علی زرداری سے ہونے والی ملاقات میں ایم کیو ایم کے رویہ میں وہ جارحانہ پن دکھائی نہیں دیا جو کئی دنوں سے میڈیا کی زینت بنا ہوا تھا۔ دونوں جماعتوں کے تعلقات کی بحالی کو صوبے کے لئے نیک اور خوشگوار تبدیلی بھی قرار دیا جارہا ہے، ملاقات میں ایم کیو ایم کی جانب سے واضح طور پر کہا گیا کہ ایم کیو ایم پاکستان خصوصاً سندھ کے شہری علاقوں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ہر سطح پر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان علیحدگی اور ملاپ کا سلسلہ 80کی دہائی سے چل رہا، ملاپ کے وقت دونوں اس قدر شیریں ہوجاتے ہیں کہ جیسا کہ ان میں برسوں کا یارانہ ہے اور جدائی کے اس قدر تلخ ہوجاتے ہیں جیسے صدی پر محیط کسی دشمنی میں مبتلا ہیں۔ موجودہ صورتحال میں مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کی کوشش قابل تحسین اور اس کو جاری رہنا بھی چاہئے ورنہ عوام بے چارے جو پہلے مسائل کا شکار ہیں دو جماعتوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے مزید مسائل میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔صدر زرداری کی ہدایات کی روشنی میں اپیکس کمیٹی کے 21ویں اجلاس کے بعد صوبائی وزیر اطلاعات و ٹرانسپورٹ شرجیل میمن نے کہا کہ صدر آصف زرداری کی ہدایات کی روشنی میں مجرموں کی سرپرستی یا سہولت کاری کرنی والا کوئی بھی ہو اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ شرجیل میمن کے مطابق منشیات فروشوں کے برے دن شروع ہو گئے ہیں، اگر وہ منشیات فروشی سے باز نہیں آئے تو ان کا حشر برا ہونے والا ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومت مل کر منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈائون کر رہے ہیں، منشیات فروشوں کے خلاف وفاق اور صوبائی حکومت کی جانب سے مشترکہ ٹیمیں بنائی جائیں گی، صوبے کے بارڈر ایریاز میں مشترکہ چیک پوسٹس بنائی جائیں گی۔ محکمہ ایکسائز، ٹیکسیشن اور نارکوٹکس کنٹرول میں مزید تبدیلیاں لائی جارہی ہیں، کچھ لوگ جو اسکولوں اور گھروں میں منشیات سپلائی کرتے ہیں ان کے خلاف سخت قانون سازی کی جا رہی ہے، سندھ میں رینجرز، پولیس اور اینٹی نارکوٹکس فورس منشیات فروشوں کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔ غیر قانونی تارکین وطن کی نشاندہی کی جارہی ہے اور ان کا ڈیٹا جمع کیا جارہا ہے، غیر قانونی تارکین وقت جن جگہوں پر پناہ لیتے ہیں ان کی بھی مانیٹرنگ کی جائے گی، اسلحے کی نمائش کے حوالے سے بھی اہم فیصلے کئے گئے، جو لوگ بڑی گاڑیوں میں اسلحہ لے کر گھومتے ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی، کسی کا بھی محافظ ہو اس کو اسلحے کے نمائش کی اجازت نہیں ہوگی، اس سلسلی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کل سے ایکشن لیں گے، وردی کے بغیر جس کسی نے بھی اسلحے کی نمائش کی اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
ایپکس کمیٹی کی جانب سے جس قسم کے اقدامات کا عندیہ دیا جارہا ہے وہ بہت حد ضروری تھے کیونکہ کچے میں مقیم ڈاکوئوں نے ریاست کے اندر ریاست قائم کرکے ملکی عملداروں کو للکارا ہے۔ اگر ان کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی جائیگی تو آنے والے دنوں میں کئی ایسے پاکٹ ریاست کے اندر ریاست بناکر عوام کو مشکلات سے دوچار کریں۔ ملکی معاشی صورتحال بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ملک میں بے یقینی کی کیفیت ہو یا امن و امان کے مسائل اس طرح ہوں کہ لوگ سڑکوں پر موبائل فونز اور نقدی کے لئے مارے جارہے ہوں۔ ملکی اور غیر ملکی شہری اغوا کئے جارہے ہیں۔ یہ صورت حال ملک کے لئے اچھی نہیں ہے اور اس صورتحال میں کوئی سرمایہ کار بھی اس ملک کا رخ نہیں کرے گا۔ امید کی جاتی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت ایپکس کمیٹی میں کیے گئے فیصلوں پرعملدرآمد کرائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button