Column

پولیس میں اصلاحات کی ضرورت ہے

تحریر : عبد الماجد ملک
محکمہ پولیس کسی بھی معاشرے کے تحفظ، اصلاح اور ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن اتنی زیادہ قربانیوں کے باوجود بھی عوام میں وہ مقام نہیں بنا سکا، اس کی وجوہات کے لیے جب معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو عیاں ہوتا ہے پولیس کا سسٹم ایسا گورکھ دھندہ ہے کہ انسان الجھ کر رہ جاتا ہے اور اوپر سونے پہ سہاگا یہ کہ عوام کے ساتھ ان کا رویہ بہترین نہیں ہوتا بلکہ کچھ جگہوں پہ یہ دیکھا گیا کہ پولیس کو دیکھ کر تحفظ کی بجائے دہشت کا احساس ہوتا ہے اور گزشتہ ڈیڑھ سال میں شاید اس میں زیادہ فرق پڑا ہے کہ اختیارات بڑھا دئیے گئے ہیں تو پھر عوام اور پولیس کو جوڑنے والی رسی مزید کمزور ہو گئی ہے، اس کی وجوہات کیا ہیں کہ ایک اہم ادارہ عوام کا اعتماد ابھی تک حاصل کیوں نہیں کر پاتا۔
ہر محکمے میں اصلاحات کا عمل جاری رہتا ہے، خامیوں، غلطیوں اور کوتاہیوں کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں اور اس حوالے سے محکمہ ء پولیس میں بھی انتظامی بنیادوں پہ بہتری کے لیے کوششیں جاری ہیں اور اس حوالے سے کچھ سالوں قبل ایک تجربہ کیا گیا تھا کہ وردی تبدیل کرنے سے شاید کوئی اچھا تاثر جائے، لیکن وہ تجربہ بھی ناکام ٹھہرا، پھر یہ پلین ترتیب دیا گیا کہ جو اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے تو اسے انعامات کے ساتھ نوازا جائے، اس وجہ سے کچھ حد تک بہتری دیکھنے میں آئی، پھر ایک اقدام یہ کیا گیا کہ دور حاضر میں میڈیا اہم کردار ادا کرتا ہے اور ڈیجیٹل میڈیا کا زمانہ ہے تو اس سلسلے میں محکمے میں پروفیشنلز میڈیا مینیجرز ہائر کیے گئے جس میں پولیس کی کارکردگی کو اجاگر کرنے کے لیے مین سٹریم میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا کا سہارا لیا گیا، جس کی شروعات انتہائی بہترین تھیں اور عوام کے ساتھ اعتماد کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کو ملا، لیکن کچھ عرصے بھی یہ تاثر بھی غائب ہوا کہ جو سوشل میڈیا پہ دکھائی دے رہا ہے حقائق اس کے برعکس ہیں اور عوام نے پھر یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ مقولہ غلط ہے کہ جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے، آج بھی پولیس کے پی آر او ادارے کی کارکردگی سے آگاہ کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں لیکن شاید عوام اس سے مطمئن نہیں یا یقین نہیں کرنا چاہتی، پھر ذمہ داران نے یہ کیا کہ پولیس کو ماحول اچھا دیا جائے تو شاید اس کی کارکردگی بہترین ہو جاوے، اس سلسلے میں تھانوں کی اپ گریڈیشن کی گئی، اب تھانوں کی عمارات اتنی خوبصورت ہیں کہ کسی ستاروں والے ہوٹل کا گمان ہوتا ہے لیکن اندر وہی پولیس والے موجود ہیں جن سے عوام مطمئن نہیں ہیں، چند ماہ قبل محکمے کی بہتری کے لیے ایک اور قدم اٹھایا گیا کہ اگر ان کی تربیت پہ فوکس کیا جائے اور بہترین ماحول میں ٹریننگ کی جاوے کیونکہ بنیاد اچھی ہو گی تو ممکن ہے کہ اس سے بہتری آ جائے، اس سلسلے میں گزشتہ ماہ قبل کمانڈنٹ ٹریننگ کالج ڈی آئی جی محبوب اسلم للہ صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ پر امید تھے کہ ہم اچھا اور بہترین ماحول دے رہے ہیں، رہن سہن، کھانا پینا، ٹریننگ، سوئمنگ، شوٹنگ کے ساتھ انہیں انٹرٹین بھی اچھے سے کیا جا رہا ہے تو اس کے نتائج مثبت ملیں گے اور شاید آنے والے کچھ عرصے میں اس کے اثر سے عوام بھی مستفید ہو سکیں، اور اسی حوالے سے چند دنوں قبل وزیر اعلیٰ پنجاب بھی وردی میں پولیس کا مورال بلند کرنے کے لیے تشریف لے گئیں، جس پہ ٹرینیز کا حوصلہ یقینا بڑھا ہو گا۔لیکن گزشتہ عرصے میں ہونے والے کچھ واقعات نے پولیس کے امیج کو زیادہ نقصان پہنچایا بلکہ حالیہ گجرات واقعہ بھی کئی سوالات چھوڑ گیا ہے، سوشل میڈیا اور عوامی تھڑوں پہ پنجاب پولیس کے بارے جو باتیں کی جا رہی ہیں وہ کوئی حوصلہ افزا نہیں ہیں کیونکہ ہر محکمے میں چند گندے انڈے ضرور موجود ہیں تو دوسری جانب اچھے آفیسرز بھی موجود ہیں جو کہ عوام کی خدمت میں پیش پیش ہیں اور اس حوالے سے ہر ضلع میں کھلی کچہریوں میں عوام کے مسائل کے ازالے کے لیے کوشاں بھی ہیں۔
پولیس ناکے ہماری حفاظت کے لیے لگائے جاتے ہیں اور لاء اینڈ آرڈر ز کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہوتے ہیں، کسی بھی شہر میں امن و امان بحال رکھنے میں ان پولیس ناکوں کا کردار بلاشبہ اہم ہے لیکن ان ناکوں پہ جو شریف عوام کی تذلیل کی جاتی ہے اس کے سدباب کے لیے بھی اعلیٰ افسران کو ضرور غور و خوض کرنا چاہئے تاکہ عوام اور پولیس میں باہمی عزت و احترام کا رشتہ موجود رہے۔
پنجاب کے آئی جی صاحب انتہائی متحرک شخصیت ہیں وہ گاہے بگاہے پولیس کی بہتری کے لیے اقدامات کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن تاحال جن کے نتائج ڈائریکٹلی عوام تک نہیں پہنچ پا رہے، امید ہے اس حوالے سے کوئی بہترین حکمت عملی ترتیب دیں گے تاکہ پولیس کا بہترین امیج بحال ہو سکے اور واقعتا بلکہ حقیقتا َ ایسی پولیس بن جائے جس کو دیکھ کر تحفظ کا احساس ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button