Editorial

وزیراعظم پاکستان کا صدر مملکت کو جوابی خط

 

وزیراعظم شہبازشریف نے صدر عارف علوی کو پانچ صفحات اور سات نکات پر مشتمل جوابی خط تحر یر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صدر کا خط پی ٹی آئی کی پریس ریلیز لگتا ہے،یکطرفہ خط حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے اور صدر کے منصب کا آئینہ دار نہیں، قوم عمران خان کی کارکردگی پر جواب طلب کر رہی ہے،صوبائی اسمبلیاں وفاقی حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے توڑی گئیں، عدالتی حکم کے خلاف عسکریت پسندی پہلےکبھی نہیں دیکھی گئی، میں اور وفاقی حکومت آئینی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ، آئین کے دفاع کے عہد پر کاربند ہیں، آئین کے تحت صدر کابینہ یا وزیراعظم کی ایڈوائس کے مطابق کام کرنے کا پابند ہے۔ قریباً دو روز قبل ہی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم شہباز شریف کے نام خط لکھ کر کہا تھا کہ توہین عدالت سمیت مزید پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے وزیر اعظم، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ حکام کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مقررہ وقت میں عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تمام متعلقہ انتظامی حکام کو انسانی حقوق کی پامالی سے باز رہنے کی ہدایت کی جائے، لگتا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں وفاقی اور نگراں حکومتوں نے متعلقہ محکموں کے سربراہان کو عام انتخابات کے انعقاد کے لیے ضروری تعاون فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کرنے کا کہا۔وزیراعظم پاکستان نے صدر مملکت کے خط کے تمام نکات کا جواب دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام قومی ذرائع ابلاغ اور نشریاتی اداروں نے جوابی خط کو شہ سرخیوں میں جگہ دی ہے کیونکہ صدر مملکت کے خط کو وزیراعظم پاکستان نے تحریک انصاف کی پریس ریلیز قرار دیا ہے، صدر مملکت تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں اور 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف نے مرکز اور صوبوں میں حکومت بنائی اور ڈاکٹر عارف علوی کو صدر مملکت منتخب کرکے اپنا استحقاق استعمال کیا، مگر جب پچھلے سال قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائی گئی، جس کے نتیجے میں تحریک انصاف کو مرکز میں اقتدار سے محروم ہونا پڑا تو عمران خان کی ہدایت پر اُن کے بیشتر اراکین اسمبلی نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا مگر چند ایک اراکین اسمبلی نے اُن کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے ایوان میں بیٹھے رہنے کا اعلان کیا۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتیں موجود تھیں مگر جب پی ڈی ایم اتحاد نے ملک میں عام انتخابات کا عمران خان کا مطالبہ تسلیم نہ کیا تو رواں سال کے شروع میں ہی عمران خان نے دونوں اسمبلیاں تحلیل کردیں جیسا کہ وزیراعظم پاکستان نے بھی کہا ہے کہ حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے ایسا کیاگیا، بہرکیف اب تک تحریک انصاف کے منتخب کردہ ڈاکٹر عارف علوی صدر مملکت کے منصب پر براجمان ہیں اوربوقت ضرورت وہ آئینی امور کے معاملے پر مداخلت بھی کرتے ہیں جیسا کہ انہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صدر مملکت کی اعلان کردہ تاریخ پر ہی صوبے میں عام انتخابات ہونا طے پائے مگر گورنر خیبر پختونخوا جن کا تعلق وفاقی حکومت یعنی عمران خان کے مخالف اتحاد سے ہے، انہوں نے تاحال صوبے میں عام انتخابات کے معاملے پر عمران خان کی پارٹی کو الجھایا ہوا ہے، چند روز قبل جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب میں بھی انتخابات اکتوبر میں کرانے کا نیا فیصلہ دیا تو تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا تاکہ وفاقی حکومت کے خلاف توہین عدالت کو بنیاد بناکر نئی ہدایت لی جاسکے، بہرکیف اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اوراطلاعات ہیں اور سپریم کورٹ آج دوسرے روز بھی اِس کیس کی سماعت کرے گی۔ جو کہا اور سنا جارہا ہے اور حالات حاضرہ میں جو نظر آرہا ہے اِن کا طائرانہ مشاہدہ کیا جائے تو حالات کی گُتھی سلجھنے کی بجائے الجھتی جارہی ہے، کوئی بھی معاملہ آئین و قانون کے مطابق سرخم تسلیم کیا جارہا ہے اور نہ ہی کوئی فریق اپنے موقف سے پیچھے ہٹ رہا ہے، عدم برداشت عروج پر ہے جو مستقبل میں کئی پیچیدگیوں کی مثال اور پیش خیمہ بن رہی ہے، چہار سو پیش قدمی ہورہی ہے کوئی بھی حالات کی سنجیدگی اور اپنی ادائوں پر غور کرنے کو تیار نہیں، کیونکہ معاملات تبھی سُلجھتے ہیں جب فریقین افہام و تفہیم کا تہیہ کرکے مذاکرات کی میز پر بیٹھیں، مگر جب ٹھان لی جائے کہ ہر معاملے میں’’دیکھی جائے گی‘‘ تب حالات کشیدگی کی طرف جاتے ہیں جس طرح اب جارہے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان، پنجاب میں انتخابات کے متعلق کیا حکم صادر کرتی ہے ، اب سبھی کی نظریں اِس جانب مبذول ہیں مگر کاش کوئی ایسا پلیٹ فارم بھی ہو جس پر سیاسی عدم برداشت اور رویوں میں نرمی لانے کے لیے مقدمہ پیش ہو اور یہ فیصلہ سامنے آئے کہ آئین و قانون کو مقدم رکھنا سبھی پر لازم ہوگا اور رویوں میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ عدم برداشت کا بھی خاتمہ کیا جائے گا یہی نہیں بلکہ معاملات کو اُلجھانے کی بجائے ملک و قوم کے بہترین مفاد میں سُلجھایا جائے گا۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے خبر دار کیا ہے عمران خان نے سیاست کو اس سٹیج پر لاکر کھڑا کردیا ہے جہاں اب یا تو وہ رہیں گے یا ہم رہیں گے، ہم سمجھیں گے وجود کی نفی ہورہی ہے تو ہر حد تک جائیں گے، عمران سیاست میں جمہوری روایات، پرامن سیاسی ماحول پر یقین نہیں کرتے ،سیاست کو دشمنی بنا دیا ہے،عمران خان پر 40 کے قریب مقدمات ہیں،100 مقدمات درج ہونے کا جھوٹ ہے۔وفاقی وزیر داخلہ کا انٹرویو اور ماضی قریب میں لاہور اور اسلام آباد میں سکیورٹی اداروں کے ساتھ تصادم، سابق وزیراعظم کے گھر پر پولیس کی ریڈ، کارکنوں کی گرفتاری اور ایسے ہی دوسرے معاملات کی تفصیل اتنی طویل ہے کہ اِنہیں بیان کرنا آئندہ سطور میں ممکن ہیں ہے مگر بخوبی تصور کیا جاسکتا ہے کہ سیاست دان کس نہج پر اِن دنوں سیاست کررہے ہیں، قوم کے لیے ہر اُس سیاست دان کا وجود ضروری ہے جو اپنی ذات پر ملک و قوم کو ترجیح دیتا ہے اور جس کا مرمٹنا اِس ارض پاک کے لیے ہے، مگر بسا اوقات شائبہ ہوتا ہے کہ معاملات اِس لیے بھی پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جارہے ہیں کیونکہ ملک و قوم پیچھے اور شخصیت پرستی کا عنصر آگے آجاتا ہے، جب ملک و قوم کے داخلی و خارجی مسائل اور چیلنجز کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے، جو کہ ہمیشہ سے رہی ہے، عین اسی وقت شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا ہوکر ہم معاملے کو اتناالجھادیتے ہیں کہ فریق دوم بھی بھرپور ردعمل کا ٹھان لیتا ہے، لہٰذا اِس سیاسی گھٹن کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، مگر اسی یہ ختم ہوسکتی ہے جب ہم اداروں کو متنازعہ نہیں بنائیں گے اور اداروں کے فیصلوں کو من و عن بغیر کسی اعتراض کے تسلیم کریں گے، جب ہم اداروں کو اِس نہج تک متنازعہ بنادیں گے، جیسا کہ دیکھنے میں بھی آرہا ہے تو پھر کس کی ثالثی اور کون ثالثی قبول کرے گا، حالات کی گمبھیرتا کا ادراک تبھی ہوگا جب ہم اپنی ذمہ داری کا احساس کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button