ColumnNasir Naqvi

عشرۂ رحمت .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

ہم خوش قسمت ہیں اس سال بھی ہم سب کے لیے عشرۂ رحمت مقدر بنا ورنہ حقیقت تو یہی ہے کہ زندگی کا سفر کرتے کرتے کئی بچھڑ گئے۔ اچانک بیماری، کسی حادثے یا ہوائی فائرنگ سے ہی راہ چلتے مارے گئے اور سفرِ زندگی تمام ہو گیا۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ سفر کتنا طویل ہے اور راستو ں کے کٹھن مسائل کس طرح طے ہوں گے لیکن ’’ہمت مرداں مدد خدا‘‘ کے بھروسے پر سب چل رہا ہے۔ آسرا اُسی کا ہے جسے نے زندگی دی اور شکم مادر سے اس دنیا میں لایا اور پھر اسی نے اس دنیا سے ابدی دنیا کا ویزا دینا ہے۔ کچھ آئے اور کچھ چلے گئے، جو باقی ہیں وہ بھی تیار بیٹھے ہیں جو ابھی تک نہیں آئے وہ بھی آئیں گے اور پھر لوٹ جائیں گے۔ یہی نظامِ قدرت ہے یہاں آنا ضروری نہیں لیکن آنے والے کا جانا ضروری ہے، انکار کی گنجائش بالکل نہیں۔ پھر اگر ہم اور آپ یہ نہ دیکھیں کہ آئندہ سفر کی تیاری بھی کی کہ نہیں؟ تو غلطی کس کی ہے یعنی جو اپنا احتساب خود کرے گا، وہی اگلی منزل کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا ورنہ گھاٹے کا سودا ہے کیونکہ حقیقت میں حضرت انسان سے بڑا منصف کوئی دوسرا نہیں، صرف اپنے لیے۔ اسے اچھا بُرا ہی نہیں حق اور ناحق کی بھی خبر ہے، اپنے لیے پھر بھی بہتری کے لیے نہیں سوچتا۔ جیسے اللہ کے پیغام کی تبلیغ کرنے والے اکثر اپنا معاوضہ وصول کرنے کے لیے اللہ کی بجائے انسانوں پر یقین کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہم اور آپ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی اپنا احتساب کرکے از خود راہ فلاح اختیار نہیں کرتے بلکہ راہ فرار کو ترجیح صرف اس لیے دیتے ہیں کہ کسی کو ہمارا کیا پتا؟ ہم نے کلمہ حق پڑھا ہے۔ مالک کائنات نے آقائے دوجہاں کی ’’امت محمدی‘‘ کی بخشش کا وعدہ کیا ہے۔ ویسے بھی وہ رحمان و رحیم ہے اور بندے سے ستر مائوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے لہٰذا ستے خیراں ۔۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ وہی سب سے اچھا انصاف کرنے والا ہے، ہم سجدے جتنے بھی کریں وہ ہماری نیتوں کو جانتا ہے اور اعمالوں کا دارومدار ہی نیت پر ہے۔ بس یہی وہ بات ہے کہ ہمارے سجدے بھی بے لطف محسوس ہوتے ہیں۔ دراصل قول و فعل کی منافقت ہمارے سجدوں کو بے لطف بنا دیتی ہے۔ اسی راز سے شناسائی کرتے ہوئے ہمیں رمضان المبارک کے پہلے عشرہ رحمت سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مالک ارض و سما نے اس ماہ مقدس کو اپنا قرار دیااور فرمایا ’’روزہ ، میرے لیے ہے، اس کا اجر بھی میں دوں گا اور اجر کثیر دوں گا‘‘ کون جانے کہ آئندہ سال یہ عشرہ رحمت کس کا نصیب بنے گا؟ کیونکہ دنیاوی سفر کے سنگ میل تو دیکھے جا سکتے ہیں، زندگی کے سفر کے سنگ میل ابھی تک ایجاد نہیں ہوئے، اسی لیے اسے کسی دوسرے سے موازنہ کر کے اندازہ بھی لگانا مشکل ہے، کہتے ہیں:
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں
اس لیے وقت حاضر کو غنیمت جانیے اور عشرہ رحمت سے فائدہ اٹھائیے۔ اللہ تعالیٰ دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا جہنم سے بچائو بھی آپ کا مقدر بنائے گا۔ امید پر دنیا قائم ہے۔ دعا ہے کہ آئندہ برس بھی ایسے لمحات ہمارا نصیب بنیں، لیکن فی الحال تو آج کا کام کل پر مت چھوڑیں۔ ذرا حوصلہ کریں گردن گھما کر جائزہ لیں گزشتہ سال اور اس سے پہلے کون کون تھے اور اب وہ کہاں ہیں؟ کس حال میں ہیں؟ لہٰذا جس طرح دنیاوی ہر سفر کے لیے ایڈوانس تیاری کرتے ہیں بالکل اسی طرح ابدی سفر کے لیے بھی زادِ راہ اکٹھا کریں۔ یہ سوچ سمجھ کر کہ وہاں اس دنیا کی دولت کام نہیں آئے گی یعنی وہاں کی کرنسی یہ نہیں جو آپ اور میں نے اکٹھی کر رکھی ہے یا پھر جس کی دیوانگی میں حق، سچ اور جائز ناجائز کی فکر چھوڑے بیٹھے ہیں، گھبرانے کی ضرورت ہرگز نہیں، صرف فکر اور عمل کی کوشش کریں، نسخہ کیمیا قرآن مجید ہمارے پاس ہے اور رحمتہ العالمینﷺ کی سفارش بھی ہمارے ساتھ ہو گی لیکن پہلا فیصلہ تو اس پر ہو گا کہ سفر آخرت کے لیے ہم اور آپ نے کیا جوڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’قسم ہے زمانے کی کہ انسان گھاٹے میں ہے، لیکن جنہوں نے حق کا ساتھ دیا، حق پر ڈٹے رہے اور صبر و استقامت سے ان کے لیے ’’ستے خیراں‘‘ یعنی خیر ہی خیر ہے۔
اگر غور کریں تو مالک کائنات کی جانب سے رمضان المبارک نیکیوں کی سیل کا مہینہ ہے۔ کیا ہم اتنے بے وقوف ہیں کہ دنیاوی سیل سے تو فائدہ اٹھاتے ہیں خدائی سیل پر کان نہیں دھریں گے۔ اگر سچ مچ ماضی میں ہم اسی روئیے کا اظہار کرتے رہے تو اب بھی مہلت ہے، اپنے انداز بدلیں، توبہ کے دروازے کھلے ہیں، اس سے مانگیں جس سے سب مانگتے ہیں جو خود محتاج ہیں ان کا دروازہ چھوڑ دیں۔ اللہ فرماتا ہے ’’تو میرا بندہ ہے میرا ہی بن جا ، جتنا تجھے دیا اس پر شکر بجا لا پھر دیکھ میری رحمتوں اور نوازشات کا تماشا‘‘ فارمولا صرف اتنا ہے کہ اپنی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شامل رکھ، کچھ مل جائے تو تکبر نہ کر، کسی دوسرے کو ملتا دیکھ کر حسد نہ کر، جو تجھے ملے شکر کرتے ہوئے اس میں سے یتیموں، مسکینوں اور غریبوں کو بھی دے پھر دیکھ میں تجھے کتنا غنی کر دیتا ہوں لیکن ہمیں عشرہ رحمت مل بھی گیا پھر بھی ہم اور آپ غافل رہے تو مالک سے کیسا گلہ شکوہ؟ مالک تو دیکھ رہا ہے ہمارے کرتوت کیا ہیں اسے دھوکہ دینے والے دراصل اپنے آپ کو دھوکہ دے کر مشکلات خریدتے ہیں صرف اس غلط فہمی میں کہ وہ معاف کرنے والا ہے۔ رحمان و رحیم، بھلا ہم پر مہربان کیوں نہیں ہو گا، اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کو ہرگز تیار نہیں، حدیث مقدسہ ہے کہ ’’روزہ ڈھال ہے‘‘ یقیناً نماز روزہ برائیوں کے سامنے ڈھال کا کام کرتی ہے لیکن جب ہم اس پر عمل درآمد کریں گے، کسی کے روزے نماز دوسرے کے لیے ڈھال ہرگز نہیں ہو سکتے۔
ہمت کریں اللہ کے خاص مہینے میں دنیا سے پہلو تہی کر کے اس سے رابطہ کریں، نماز اور روزہ کی ادائیگی، صدقہ خیرات کے لیے کمر کس لیں، پلے سے نہیں، سب کچھ اسی کا دیا ہوا ہے اس میں سے اسی کے نام پر ایسے کو دیں جو ضرورت مند ہوتے بھی سوال کرنے سے گریز کرتا ہے۔ یوں دیں کہ ایک ہاتھ سے دیتے ہوئے دوسرے ہاتھ کو بھی پتا نہ لگے، اس عشرہ رحمت میں اس یقین سے دل کی باتیں کر ڈالیں کہ حقیقت میں سننے والا وہی ہے جنہیں دنیا میں اب تک سناتے رہے ہیں، وہ تو تسلی و تشفی کے قابل بھی نہیں تھے، یہ ماہ مقدس اللہ اور بندے کا مہینہ ہے اللہ نے تو بتا دیا لیکن اس کا بندہ ابھی تک اسے اپنا مہینہ بنانے میں لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہا ہے کوشش کریں مصلحت پسندی اور خوف کی چادر سے باہر نکل کر حقیقی مالک کے دربار میں اپنی گرفتاری پیش کر دیں پھر دیکھیں اس کی قید میں کیسی حقیقی آزادی آپ کا مقدر ہے، اگر صدق دل سے یہ مراحل طے کر لیے تو پھر آپ کے کانوں میں آواز گونجے گی ’’اے میرے بندے مانگ کیا مانگتا ہے اور تو مانگنے سے بھی قاصر ہو جائے گا‘‘ لیکن وہ تو دلوں کے بھید بھی جانتا ہے تیرا مسئلہ ایسے حل ہو جائے گا جیسے کبھی تھا ہی نہیں،تاہم مانگنے کا فارمولا ایک اور بھی ہے کہ تو مطلبی بن کر ’’میں میں‘‘ کی رٹ نہ لگا، پہلے اپنے دنیا سے چلے جانے والے عزیز و اقارب، دوست احباب کے لیے ہاتھ پھیلا پھر اپنی حاجت بیان کر، مالک سب جانتا ہے لیکن وہ تیرے منہ اور دل سے یہ الفاظ سننا چاہتا ہے کہ تو کس قدر سنجیدہ ہو کر فریاد کر رہا ہے، وہ تو اس قدر مہربان ہے کہ نہ مانگنے والوں کو بھی رزق بانٹتا ہے پھر بھی وہ چاہتا ہے تو مانگے اور وہ اتنا دے کہ مانگنا بھول جائے۔ عشرہ رحمت میں ہی نہیں، ماہ رمضان میں کثرت سے قرآن مجید پڑھنے، سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے کا عملی مظاہرہ کیا جائے،حاجت روا سے التجا کی جائے کہ وہ دنیا کو امن کا گہوارہ بنا دے، مظلوموں کے خلاف ظالموں کو شکست سے دوچار کرے، بیماروں کو شفایاب اور ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم اہل زمین کے کام آ سکیں، امت مسلمہ ، کشمیریوں اور فلسطینیوں کو استحکام بخشے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کو حفظ و امان میں رکھے اور ہمیں افہام و تفہیم سے اجتماعی مفادات میں فیصلے کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصرہو۔ حقیقت اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ دنیا میں آنے والوں کی واپسی کی ٹکٹ ہاتھ میں ہوتی ہے جس جس کی سیٹ کنفرم ہوتی جاتی ہے وہ واپس چلا جاتا ہے۔ یہی نظام قدرت ہے جس سے کسی کو فرار حاصل نہیں۔ آپ کے پاس جتنا بھی وقت ہے اسے آئندہ سفر کے لیے زادِ راہ جمع کرنے کے لیے خرچ کریں ورنہ واپسی کی سیٹ کنفرم ہو گئی تو جانا ہی پڑے گا اور پچھتانے کا بھی موقع نہیں ملے گا لہٰذا عشرہ رحمت کی قدر کریں تاکہ آپ بھی قابل قدر بن سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button