Editorial

پنجاب کیلئے الیکشن شیڈول کا اعلان

پنجاب کیلئے الیکشن شیڈول کا اعلان

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی مقرر کردہ تاریخ 30اپریل کو پنجاب اسمبلی کی تمام نشستوں کے لیے عام انتخابات کا شیڈول جاری کردیا ہے۔انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے کے لیے 24دن ملیں گے۔ واضح رہے کہ 14 جنوری کو پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی تحلیل اوریکم مارچ کے حکم کی تعمیل میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے 2023 کے سوموٹو کیس نمبرایک میں منظور شدہ آئینی پٹیشن نمبر 1 2023 اور آئینی پٹیشن نمبر 2 آف 2023 اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کی طرف سے تاریخ کا اعلان 30 اپریل 2023، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسلامی جمہوریہ کے آئین کے آرٹیکل 224(2) اور 254 کے مطابق کیا ۔پاکستان کا الیکشنز ایکٹ 2017 (2017 کا ایکٹ نمبر XXXIII) کے سیکشن 57(2) صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے انتخاب کرنے والوں سے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تاہم خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق گورنر ہاؤس میں گورنر خیبر پختونخوا ور الیکشن کمیشن کے وفد کے مشاورتی اجلاس میں انتخابات کی تاریخ کا تعین نہیںہوسکا اب اگلی نشست اگلے ہفتے میں ہوگی۔ پنجاب اسمبلی کے لیے عام انتخابات کا شیڈول جاری ہونے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے امیدواروں کے انتخاب سمیت انتخابی حکمت عملی کی تشکیل پر کام شروع کردیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے فوری بعد صوبے میں انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان ہوجاتا تو صورتحال بلاشبہ یکسرمختلف ہوتی اور سیاسی جماعتیں رابطہ عوام مہم میں مصروف ہوتیں لیکن اسمبلی کی تحلیل سے عدالت عظمیٰ کے احکامات آنے تک جو کچھ بھی ہوتا رہا وہ بلاشبہ نہیں ہونا چاہیے تھا اور تمام آئینی شخصیات اور آئینی اداروں کو اپنا اپناکام بخوبی بروقت کرنا چاہیے تھا مگر معاملہ سیاسی مخاصمت کی طرف نکل گیا جس کا انجام سپریم کورٹ نے اپنے واضح احکامات کے ذریعے کیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے ملک میں عام انتخابات کی تاریخ نہ ملنے پر بالآخر پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرکے اپنا آخری اورسب سے بڑا کارڈ کھیلا مگر اتحادی وفاقی حکومت پھر بھی دبائو میں نہ آئی بلکہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد زیادہ سیاسی کھینچاتانی دیکھنے میں آئی اور اِس کی ایک جھلک بدھ کے روز زمان پارک میں پولیس اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے درمیان تصادم کی صورت میں دیکھنے کو ملی جس میں ایک قیمتی جان بھی ضائع ہوئی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کاغذات نامزدگی کی وصولی سے لیکر رائے شماری کے دن تک کا مکمل شیڈول جاری کردیا ہے اسی لیے پنجاب کی سیاست میں نمایاں رہنے والی سیاسی جماعتیں خصوصاً پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون بھی زیادہ سے زیادہ متحرک ہوں گی اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی جنوبی پنجاب سے زیادہ سے زیادہ نشستوں پر کامیابی کے لیے اپنے امیدوار سامنے لائے گی لیکن مجموعی طور پر صوبہ بھر میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے امیدواروں کے درمیان ہی کڑا مقابلہ دیکھا جائے گا۔ عوام اب کیا سوچتے ہیں اور رائے عامہ کس کے حق میں ہموار ہے اِس سے قطع نظر ہم سیاسی قوتوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ کچھ ایسا نہ کریں نہ جس کا جمہوریت اور انتخابی عمل کو نقصان پہنچے اور ایک بار پھر ماضی کی سیاست دیکھنے کو ملے۔ وطن عزیز میں پہلی بار ایسا دیکھنے میں آرہا ہے کہ دو صوبوں میں انتخابات ایسے وقت میں ہورہے ہیں جب قومی اور دیگر دو صوبوں کی اسمبلیاں آئینی طور پر اپنا کام کررہی ہیں مگر دو صوبوں میں آئین کے مطابق انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات میں جو بھی سیاسی جماعت اکثریت لیکر حکومت سازی کے قابل ہوگی وہ بلاشبہ قومی اسمبلی کے انتخابات پر بھی اثر انداز ہوگی کیونکہ اِس کے صوبائی نمائندے اپنی پارٹی کے امیدواروں کی تمام تر پابندیوں کے باوجود درپردہ انتخابی مہم بھی چلائیں گے اور ہر لحاظ سے اثر انداز بھی ہوں گے اسی طرح منتخب ہونے والے اراکین قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی کے اگلے انتخابات میں اپنے پارٹی کے امیدواروں کو کامیاب کرانے کے لیے وہی حربے استعمال کریں گے لہٰذا پی ڈی ایم اتحاد اور پاکستان تحریک انصاف اِس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے کی کوشش کریں گے یہی حقیقت دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی مدنظر رکھتے ہوئے مطالبہ کیا ہوا ہے کہ پورے ملک میں عام انتخابات کرادیئے جائیں تاکہ متذکرہ صورتحال سے بچا جاسکے لیکن اتحادی حکومت اِس کے لیے قطعی تیار نہیں کیونکہ اس کی بیک وقت کئی وجوہات ہیں۔ اول تو مسلم لیگ نون کی مرکزی قیادت بشمول وزیراعظم پاکستان اوروفاقی وزرا ضابطہ اخلاق کی وجہ سے اپنی جماعت کے امیدواروں کی انتخابی مہم میںحصہ نہیں لے سکیں گے اس کے لیے انہیں اپنی وزارتوں سے استعفے دینا پڑیں گے دوسری سب سے اہم وجہ موجودہ معاشی بحران ہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ نون کی مرکزی سے لیکر ضلعی قیادت تک سبھی عوام کے تندوتیز سوالات اور شدید تنقید کا سامناہے، لہٰذا اتحادی حکومت میں اگر سب سے زیادہ مشکل ترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ صرف مسلم لیگ نون ہی ہوگی کیونکہ پیپلز پارٹی سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کا اول تو پنجاب میں اتنا اثرورسوخ نہیں ہے جتنا مسلم لیگ نون کا ہے خصوصاً تحریک انصاف کے فعال ہونے سے قبل تک پنجاب کو مسلم لیگ نون کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا یا پھر یہ دعویٰ کیا جاتا تھا تب پیپلز پارٹی ووٹ بینک کے اعتبار سے صوبہ پنجاب میں دوسرے نمبر پر شمار کی جاتی تھی لیکن پنجاب اسمبلی جو حال ہی میں تحلیل کی گئی اِس میں تحریک انصاف کے اراکین کی اکثریت تھی اور مسلم لیگ نون ایوان میں حزب اختلاف کے طور پر موجود تھی۔ لہٰذا معاشی مسائل اور سیاسی معاملات کی وجہ سے مسلم لیگ نون اِس وقت زیادہ مشکلات کا سامنا کررہی ہے لیکن پھر بھی رائے شماری سے قبل کوئی دعویٰ کرنا قطعی مناسب نہیں۔ سندھ اسمبلی کی ختم ہونے کے قریب آئینی مدت کو مدنظر رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی نے نہ صرف وفاقی حکومت یعنی اتحادی مسلم لیگ نون کو اپنی تنقید کی نوک پر لے لیا ہے بلکہ اتحاد سے الگ سے ہونے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اور اِس کے لیے سیلاب متاثرین کو وعدے کے مطابق امداد نہ ملنا اور مردم شماری کو بنیاد بنایا گیا ہے حالانکہ پہلے پیپلز پارٹی اِس معاملے پر مکمل طور پر خاموش تھی اور اِس کی توجہ اتحادی مسلم لیگ نون کے ساتھ مل کر تخت پنجاب تحریک انصاف سے چھیننے پرمرکوز تھی۔ تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت گرانے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے ہی مسلم لیگ نون سمیت تمام حزب اختلاف کی جماعتوںکو اکٹھا کیا اور اقتدار چھیننے میں کامیاب ہوئی لیکن اب پیپلز پارٹی کی قیادت کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں سندھ میں اپنا ووٹ بینک بچانے کے لیے مسلم لیگ نون پر تنقید کے نشتر چلانا پڑیں گے وگرنہ سیاسی نقصان ہوگا بہرکیف سیاسی قوتوں سے توقع کی جانی چاہیے کہ وہ انتخابی عمل تک حالات کو جمہوریت کےلیے مکمل طورپر سازگار رہنے دیں گے اور ہر ایسے عمل سے گریز کریں گے جس سے جمہوری عمل کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button