ColumnMazhar Ch

عورت بھی خواب دیکھتی ہے ۔۔ مظہر چودھری

مظہر چودھری

عورت بھی خواب دیکھتی ہے

زندگی کے مختلف شعبوں میں عورتوں کے مساوی حقوق کو یقینی بنانے کیلئے قلمی کاوش ہر سال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اس بار لکھے جانے والے کالم کا عنوان’’عورت بھی خواب دیکھتی ہے‘‘ دینے کی دو وجوہات ہیں۔پہلی وجہ،چند روز قبل ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی شائع ہونے والی کتاب ہے۔ ویمن ڈے سے ایک ہفتہ قبل عکس پبلی کیشنز لاہور میں اس کتاب کی تقریب رونمائی کی خبر ہوئی تو اسے اس وجہ سے پڑھنے کا ارادہ کیا کہ شاید اسے پڑھنے کے بعد رواں برس ویمن ڈے پر لکھے جانے والے کالم میں چند نئی باتیں شامل ہو سکیں۔ایک اور حسن اتفاق یہ رہا کہ مذکورہ کتاب کی تقریب رونمائی کے دن ہی سے لاہور میں سالانہ پانچ روزہ ادبی میلہ شروع ہو رہا تھا۔پیشہ ورانہ مصروفیت کی وجہ سے اتوار پانچ مارچ کو کتاب میلے میں جاسکا لیکن کتاب میلے میں جا کرمعلوم ہواکہ اس بار عکس پبلی کیشنز والوں نے وہاں سٹال ہی نہیں لگایا تھا ۔شومئی قسمت یہ کہ اورکسی سٹال پر ڈاکٹر صاحبہ کی کتاب دستیاب نہیں تھی۔سات مارچ کو لاہور پریس کلب میں بانڈڈ لیبر لیبریشن فرنٹ پاکستان نے عورتوں کی جبری مشقت کے حوالے سے سیمینار کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ وہاں سول سوسائٹی اور خواتین کے حقوق کیلئے کوشاں تنظیموں کے افراد کے علاوہ اینٹوں کے بھٹوں اور چھوٹے موٹے کارخانوں میں کام کرنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔وہاں آئی ہوئی محنت کش عورتوں کے ساتھ ان کے بچے بھی تھے ۔اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والی ان خواتین کے چہروں پر وہ شگفتگی اور رونق مفقود تھی جو اس عمر کی خواتین کے چہروں پرموجود ہوتی ہے۔
اظہار خیال کرنے والے مقررین میں سے کسی نے بہت خوب کہاکہ اصولی طور پر تو اینٹوں کے بھٹوں جیسا سخت کام عورتوں کے کرنے کا ہے ہی نہیں لیکن غربت اور افلاس کے ہاتھوں تنگ خواتین اگر یہ سخت کام بھی کرنے پر مجبور ہیں تو انہیں کم از کم اس کام کی پوری اجرت تو ملنی چاہیے۔تلخ حقائق یہ ہیں کہ ہمارے ہاں اینٹوں کے بھٹوں سمیت مختلف جگہوں پر کام کرنے والی عورتوں کو مردوں کے مساوی اجرت نہیں دی جاتی۔سیمینار میں جب کوئی مقرر محنت کش خواتین کو مساوی اجرت یا مساوی معاشی حقوق دینے بارے قدرے پرجوش انداز میں بات کرتا تو غریب محنت کش خواتین فرط جذبات میں ایسے تالیاں بجانے لگتیں جیسے سیمینار میں کیے جانے والے مطالبات نہ صرف حکمرانوں تک پہنچ جائیں گے بلکہ حکمران محنت کش عورتو ں کے معاشی استحصال کے خاتمے کیلئے فوری اقدامات بھی اٹھا لیں گے۔ایسے مناظر دیکھ کر ذہن میں ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی کتاب’’عورت بھی خواب دیکھتی ہے‘‘ آتی رہی۔ تلخ حقائق یہ ہیں کہ ہمارے ہاں عورت کو فقط جسم یا جنس ہی سمجھا جاتا ہے ۔ہمارے ہاںنہ تو گھریلو، ازدواجی اور سماجی سطحوں پر عورت کے احساسات و خیالات کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی مردیہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ عورت بھی خواب دیکھتی ہے ۔ کالم کے عنوان کی وضاحت کے حوالے سے آخری بات یہی کہ جبری مشقت کے حوالے سے خواتین کانفرنس کے خاتمے کے بعد ڈاکٹر صاحبہ کی کتاب عکس پبلی کیشنز سے حاصل کر تو لی گئی لیکن ابھی کتاب کے مندرجات کو سرسری طور پر ہی دیکھا جا سکا ہے۔کتاب پر تبصرہ تو پڑھنے کے بعد ہی کیا جانا چاہیے لیکن کتاب کے ذیلی عنوانات پر ایک نظر دوڑانے کے بعد اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب خواتین سے زیادہ مردوں کو پڑھنی چاہیے ۔ خواتین خاص طور پر ماں اور بیٹی تو ایک دوسرے کے خوابوں کو اچھی طرح سمجھتی ہیں لیکن بدقسمتی سے مردوں کی اکثریت نے ابھی تک عورتوں کے خوابوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔اس حوالے سے آخری بات یہی کہ اگرچہ مردوں نے عورتوں کے خوابوں کوسمجھنے یا انہیں اہمیت دینے کی کوشش نہیں کی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عورتیں اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے عملی جدوجہد کرتی دکھائی دینے لگی ہیں۔
زندگی کے مختلف شعبوں میں مساوی حقوق کے حصول کیلئے خواتین کی منظم جدوجہد کا آغاز 113 سال قبل امریکہ میں ہوا ۔1908میں ہزاروں امریکی خواتین صنفی امتیاز کے خاتمے، خواتین کے حق رائے دہی اورمساوی تنخواہوں کے مطالبات لے کر نیویارک کی سڑکوں پر نکلیں۔ عالمی سطح پر پہلی بار 8 مارچ 1914کو عورتوں کا دن منانے کا آغاز ہوا جبکہ 1975میں اقوام متحدہ نے 8مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دے دیا۔خواتین کاعالمی دن منانے کا مقصد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ گھریلو، سماجی، معاشی اور سیاسی معاملات میں خواتین کی بھر پور شمولیت کی راہیں ہموار کرنا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ صنفی عدم مساوات کئی ایک مغربی اور یورپی ممالک میں بھی موجود ہے تاہم پاکستان سمیت بہت سے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے مقابلے میں مغربی و یورپی ممالک کی صورت حال صنفی مساوات کے حوالے سے بہت بہتر ہے۔مغربی اور یورپی ممالک میں عورتوں پر صنفی مساوات کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن پاکستان سمیت کئی ایک ممالک میں مساوی حقوق کیلئے عورتوں کی جدوجہد کو سخت قسم کی مخالفت کا سامنا ہے۔مردانہ بالا دستی کے اصول پر قائم پاکستانی سماج میں خواتین کی اکثریت اپنے جسمانی اور مالیاتی تحفظ کیلئے مردوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہے۔بیشتر دیہی علاقوں میں عورتوں کومحض ڈھور ڈنگر سے زیادہ حیثیت نہیں دی جاتی۔مردانہ بالادستی کے اعتقادات پر مبنی نظام میں مرد کی فوقیت اور عورت کی کمتر حیثیت کو اس طرح سے اجاگر کیا جاتا ہے کہ ان پڑھ اور کم پڑھی لکھی روایتی خواتین بھی یہ یقین کر لیتی ہیں کہ مردوں کو نہ صرف تشدد کے ذریعے خواتین کو قابو میں رکھنا چاہیے بلکہ مرد رقم اور جائیداد کی ملکیت کی بنا پر خواتین کو قابو میں رکھنے پر قادر ہیں۔
تلخ حقائق یہ ہیں کہ مسلم معاشرہ بالخصوص پاکستانی معاشرہ دنیا بھر میں ہونے والی سائنسی، فنی اور سماجی تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت دکھانے میں مشہور رہا ہے۔عورت مارچ کے حوالے سے بھی ہمارے معاشرے کا مجموعی ردعمل انتہائی جارحانہ اور شدید مزاحمانہ ہے۔دنیا کی تاریخ اور سماجی تغیر کا قانون تو یہی بتاتا ہے کہ عورتوں نے ایک وقت ہمارے جیسے قدامت پسند معاشروں میں بھی وہ مساوی انسانی حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی جانا ہے جو مہذب معاشروں کی خواتین آج حاصل کئے ہوئے ہیں۔انیسویں صدی تک برطانیہ سمیت مغربی ممالک میں بھی خواتین کو سماجی ومذہبی اقدار کے نام پر گھروں تک محدود رکھنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن مغربی اور یورپی ممالک کی خواتین نے یونیورسٹیوں میں تعلیم کا حق اور ووٹ کا حق حاصل کرتے ہوئے بتدریج مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مردوں کے مساوی حقوق کے حصول کی جدوجہد جاری رکھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button