Editorial

ؕسیاسی رواداری کی ضرورت

 

وطن عزیز کو گذشتہ چند دہائیوں سے باہمی منافرت، فرقہ واریت اور شدت پسندی کا سامنا تھا اور اب بحرانوں میں معیشت اور سیاسی عدم استحکام کی صورت میں دو بڑے اور سنگین بحران شامل ہوگئے ہیں، بلاشبہ ان تمام بحرانوں کے خاتمے کی ضرورت ہر مکتبہ فکر کو محسوس ہوتی ہے اور اِن کے خاتمے کا عزم بھی ظاہر کیا جاتا ہے مگر عمل کے وقت کوئی ایسا گُل کھل جاتا ہے جو رواداری کے ماحول کو مکدرکردیتا ہے اور پھر اتحاد باہمی کے لیے وہ ماحول اور کاوشیں رائیگاں چلی جاتی ہیں اور پھر وہی کج بحثی اور انتقامی سیاست کے دعویٰ اور شائبہ۔ سیاسی بے یقینی نے ملک و قوم کو درپیش بحرانوں اور اِن سے متاثرہ عام پاکستانیوں کو دربدر کرکے درحقیقت بے قدر کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ عامۃ الناس سیاسی نظام سے یا تو لاتعلق نظر آتے ہیں یا پھر اِن کو اپنے مسائل کا حل نہیں سمجھتے لیکن جمہوری ملک میں یہی نظام ہوتا ہے لہٰذا ہمیں اِسی کے تابع رہنا ہے اور دستور پاکستان کے مطابق زندگی گزارنی ہے اور مشکلات کا حل نکالنا ہے، مگر کیا نظام عوام کو اُن کے حقوق مہیا کرنے کے لیے تیار ہے یا ابھی بھی مصلحت کے پودوں کو پروان چڑھانا مقصود ہے۔ شاید ہمارے اندر تعصب اِس قدر سرائیت کرچکا ہے کہ کسی کی پرنم آنکھیں، زبوں حالی اور خالی پیٹ بھی ہمیں متوجہ نہیں کرتے اور ہم مخالفت برائے مخالفت کے کھیل میں جیت کےلیے ہر ممکن حربہ استعمال کررہے ہیں مگر کیا اِس کھیل میں جیت ملک کو داخلی و خارجی بحرانوں کے خاتمے کے لیے ناگزیر ہے اور کیا اِس تمام کج بحثی اور اشتعال کے ذریعے بحرانوں کو دھتکارا جارہا ہے؟ جس ریاست میں روٹی اور قبر اِس قدر مہنگے کردیئے جائیں کہ غریب کی دسترس ہی اُن تک نہ رہے کیا وہاں سیاسی دھڑے بندیاں، ایک دوسرے کے خلاف تعصب اور ہمہ وقت کی کج بحثی ناگزیر ہے؟ ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ میثاق جمہوریت کے بعد آج تک کوئی اور میثاق نہیں ہوسکا، حالانکہ ہم جن سنگین بحرانوں کا سامنا کررہے ہیں ہمیں ایک ایک موڑ پر نئے میثاق کی ضرورت ہے، جن میں میثاق معیشت اور میثاق عوام سب سے اہم ہیں اور شاید میثاق جمہوریت سے بھی۔ مگر ہوتو یہ رہا ہے کہ ایک طرف سے میثاق معیشت کی آواز آتی ہے مگر دوسری طرف سے اِس کو رد کردیا جاتا ہے یا پھر میثاق کی پیشکش کے اگلے ہی لمحے سامنے والے کو مشتعل کردیاجاتا ہے یوں بات وہیں دفن ہوجاتی ہے بلکہ اُس میثاق کی اُنہی لمحات میں تدفین ہوجاتی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کئی بار سیاسی قوتوں کو میثاق معیشت کی پیش کش کرچکے ہیں، ہفتہ کے روز پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ میں سب سے بات اور سمجھوتہ کرنے کو تیار ہوں۔ مجھ پر حملہ ہوا ملک کے خاطر میں وہ بھی معاف کرنے کو تیار ہوں۔ آج جہاں پاکستان کھڑا ہے سب کو اکٹھا ہونا پڑے گااس کا جواب یوں دیاگیا کہ رو، چیخو یا پیٹو، تم سے کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ تمہیں سمجھوتہ نہیں این آر او چاہیے، فارن ایجنٹ، گھڑی چور ہو، آرمی چیف سے کیوں ملنا چاہتے ہو؟۔ گھڑی چور فارن ایجنٹ سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتا۔ عمران خان برسراقتدار تھے تو ان کا بھی یہی دعویٰ رہتا تھا کہ حزب اختلاف اُن سے این آر او مانگ رہی ہے اور اب وہ حزب اقتدار میں ہیں تو انہیں بھی ویسے ہی جواب سننے کو مل رہے ہیں، لہٰذا ملکی حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں سیاسی رواداری اور افہام و تفہیم کا فقدان ہمہ وقت دیکھنے کو ملے گا۔ ملک میں اِس وقت کوئی ایک طبقہ بھی ایسا نہیں جو داخلی و خارجی حالات کی وجہ سے تشویش میں مبتلا نہ ہو۔ سکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف میدان جنگ میں ہیں دوسری طرف سیاست دانوں نے ایک دوسرے کے خلاف سیاسی محاذکھولے ہوئے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ سے تو سکیورٹی فورسز فتح و نصرت سے ہمکنار ہوں گی مگر سیاسی جنگ کبھی ختم ہوگی ایسا دور کہیں تک شائبہ نہیں ملتا کیونکہ عوام کو آج جتنے گروہوں میں تقسیم کیا جاچکا ہے، قطعی ممکن نہیں کہ کوئی بھی غیر متوقع حالات میں ہم ایک قوم کے طور پر متحد و متفق نظر آئیں، قوم کی اخلاقی تربیت کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی کیونکہ جنہوں نے ضرورت محسوس کرنی تھی اُن کی ترجیحات میں یہ بے نفع امر موجود ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج سیاسی ماحول گھروں کی چار دیواری تک سرائیت کرچکا ہے، کم و بیش وہی لب و لہجہ اور فکر کا معیار ،سیاست کی وجہ سے بچے منفی اثر لے رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کو بھی درپیش چیلنجز سے زیادہ سیاست پر توجہ مرکوز کرنا پڑتی ہے کیونکہ بارہا کوشش کے باوجود سیاست ہی ترجیح ہے۔ ابلاغ کا کوئی بھی ذریعہ ہو وہاں سیاسی بحث و مباحثے جاری ہیں اور ہر فریق اور اُس کے ہم آواز دوسرے فریق کو ناقص اور ملک دشمن گردانتے میں زیادہ تاخیر کا مظاہرہ نہیں کرتے اور اپنے نظریات کے دفاع میں کسی بھی حد تک جانا اپناسیاسی حق سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک کے بعد دوسرا بحران اورایک کے بعد دوسرا مسئلہ سراٹھاتا ہے کیونکہ ان کے روکنے کے لیے کوئی متوجہ ہی نہیں ہورہا بوجہ سیاست۔ کیا ہم نہیں دیکھ چکے کہ مشتعل ہجوم نے کسی فرد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا، خود ہی منصف بنے اور خود ہی سزا پر عمل درآمد کیا۔ ایسا ہر واقعہ ہمیں متوجہ کرکے ماضی کا حصہ بنتا گیا لیکن ہم اپنی دھن میں مگن ہیںمگر ایسے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں کیونکہ سیاسی عدم رواداری میں اضافے کے نفسیاتی پہلو بھی ہیں۔ سیاسی قیادت کب حالات کی سنگینی کا ادراک کرے گی اور کب اپنے فرائض کی جانب متوجہ ہوگی، نہیں معلوم کیونکہ ہر شعبہ اور ہر شخصیت جن پر مکمل اعتماد کیا جاسکتا ہے، ان کو سیاسی مقاصد حاصل نہ ہونے پر متنازعہ بنادیاگیا ہے ،بہرکیف سیاسی عدم رواداری کی حالیہ لہر عوام کے تمام طبقات میں سرایت کر گئی ہے اور اگر اِس پر قابو نہ پایا گیا تو اندیشہ ہے کہ سیاسی کارکنوں کے درمیان تصادم کی صورت پُرتشدد شکل اختیار کر جائے کیونکہ انتشار کا شکار معاشرے میں ایسا ہونا قطعی ناممکن نہیں ہوتا بلکہ ہمہ وقت اِس کا احتمال رہتا ہے، لہٰذا اگر انتشار کو مزید ہوا دی گئی تو یہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے اچھا نہ ہوگا اور اِس کی زد میں پورا نظام بلکہ معاشرے آئے گا۔ بحث برائے بحث ، مخالفت برائے مخالفت اور انتقامی رویوں کا نتیجہ ہمیشہ لاحاصل کی صورت میں برآمد ہوتا ہے، جمہوری معاشروں میں بحرانوں کو ایک طرف رکھ کر ازخود نئے بحران پیدا نہیںکیے جاتے بلکہ زیرک قیادت اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے قوم کے سامنے سرخرو ہوتی ہے، پس سیاسی قیادت کے لیے لازم ہے کہ وہ خود بھی بحرانوں اور حالات کا ادراک کریں تاکہ ان کےکارکن بھی اشتعال کو ترک کریں کیونکہ کوئی بھی منفی بیانیہ آج کے دور میں عوامی سطح تک سرائیت کرنے میں زیادہ وقت نہیں لیتا، ایک دوسرے کے خلاف عدم برداشت کا رویہ ترک کریںاور سیاسی رواداری کو فروغ دیں تاکہ سیاست سے فرصت پانے کے بعد آپ ملک و قوم کو درپیش بحرانوں سے پوری توجہ کے ساتھ نبرد آزما ہوسکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button