ColumnM Anwar Griwal

اسلامیہ یونیورسٹی کا ادبی اور ثقافتی میلہ .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

یہ میلہ روایتی اور قدیم تو بالکل نہیں، مگر تین برس کے عرصہ میں ہی ’’تاریخی‘‘ ضرور بن چکا ہے۔ دھنک کے تمام رنگ قوسِ قزاح کی مانند بہاول پور کے اُفق پر چار روز تک چھائے رہے، جن کی روشنیوں سے یہاں سے وہاں تک اُجالا پھیلا رہا۔ یونیورسٹی کے عباسیہ کیمپس سے لے کر بغداد الجدید تک میلے کا ہی سماں تھا۔ یہ گرد وغبار سے اَٹا ہوا، بے ہنگم اور بے ترتیب میلہ نہیں تھا، بلکہ منظم و مرتب اور صاف ستھرے ماحول میں سجایا گیا تھا، اِس کے تمام شرکاء بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور مہمانوں کی کہکشاں تو لاجواب اور باکمال تھی۔ بڑے بڑے بورڈز کے ذریعے ’شائقین‘ کو شیڈول سے آگاہی دے دی گئی تھی، میڈیا کے تمام ذرائع سے تقاریب کے وقت اور جگہ کے بارے میں بتا دیا گیا تھا۔ ہر کوئی اپنی پسند کے پروگرام دیکھنے کے لیے آسکتا تھا، اور آر ہاتھا۔ میلے کی انتظامیہ نے بے تکان محنت کے ذریعے آنے والے مہمانوں کی راہوں میں پلکیں بچھائیں، دید ہ و دل فرشِ راہ کئے، اُن کی تکریم میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ آنے والے آئے اور آکر چلے گئے، مگر خبر یہی آئی کہ وہ اپنے دِل اِدھر ہی چھوڑ گئے۔
فروری کے آخری اور مارچ کے پہلے دو روز اسلامیہ یونیورسٹی انتظامیہ کو سر کھجانے کی فرصت نہیں تھی۔ غلام محمد گھوٹوی ہال ہو یا پھر خواجہ فرید آڈیٹوریم، مہمانوں اور طلبا و طالبات سے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ مقابلہ حُسنِ قرأت ، نعت اور تقریروں سے آغاز پذیر ہونے والا میلہ پہلی شام میڈیا لانچ سے ہوتا ہوا رات قوالی نائٹ پر ختم ہوا۔ آتش بازی کے مظاہرے سے پورا ماحول چمک اٹھا۔ اسلامیہ یونیورسٹی کا بغداد الجدید کیمپس بہت وسیع رقبے پر مشتمل ہے، جامعہ کی وسعت ، ترتیب، سلیقہ مندی اور رونق دیکھ کر نیا آنے والا حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اسلام آباد اور لاہور بیٹھ کر دیکھنے اور سوچنے والے بہاول پور کو ایک دور افتادہ اور پس ماندہ شہر ہی سمجھتے ہیں، اگرچہ الیکٹرانک میڈیا اور بعد ازاں سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ جھلکیاں دنیا کے سامنے آتی ہیں، مکمل تصویر پھر بھی سب کے سامنے نہیں آئی۔ البتہ اب وہ وقت دور نہیں، جب بہاول پور کی خوبصورتی اور دلکشی کے چرچے عام ہوں گے۔ یہ محلات کا شہر ہے، یہ آئیڈیل صفائی کا شہر ہے، یہ عظیم ریگستان کا حامل ہے، یہاں تاریخی قلعے صحرا کی وسعتوں میں جابجا پھیلے ہوئے ہیں، یہاں سرائیکی ، پنجابی اور اردو بولنے والے باہم شِیر وشکر ہیں، اور اب اسلامیہ یونیورسٹی کا یہ ’ادبی و ثقافتی میلہ‘ بھی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، اِسے بھی یاد رکھا جائے گا۔
میلے کے دوسرے روز علم و ادب کی دنیا کے چار ستاروں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا، جو ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو چکے ہیں، ان میں امجد اسلام امجد، بشریٰ رحمن، منور جمیل قریشی اور ضیاء محی الدین شامل تھے۔ کتابوں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا، پھولوں کی نمائش سجائی گئی، زراعت کی مصنوعات کی نمائش ہوئی، علاقائی اور مقامی دستکاریوں کو نمائش کے لیے پیش کیا گیا، آرٹ گیلری کی بھی نمائش ہوئی۔ اپنے اپنے ذوق کے مطابق نمائشوں پر خوب رونق رہی۔ ایک پروگرام ’’روبرُو‘‘ تھا، جس میں کسی اہم شخصیت سے بات چیت شامل ہوتی۔ طلبا و طالبات اور دیگر سامعین نے دل کھول کر مہمانوں کو داد دی ۔ دشتِ حیات کی سیّاحی کرنے والے جب اپنا تجربہ بیان کرتے اور بہترین انداز میں نئی نسل کے سامنے اپنا نقطہ نظر رکھتے تو حاضرین تالیاں بجا کر باتوں کی قبولیت کا ثبوت فراہم کرتے۔ مختلف اوقات میں پیش ہونے والے اس پروگرام میں ڈرامہ نگار خلیل الرحمن قمر، اور یا مقبول جان، وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی پروفیسر اطہر محبوب اور دیگر شامل تھے۔ فلم انڈسٹری کے عروج و زوال پر ایک سیشن ہوا، جس میں فلم لکھنے اور بنانے والی اہم شخصیات نے شرکت کی، جن میں سید نور اور ناصر ادیب وغیرہ نمایاں تھے۔ وقفے وقفے سے کتابوں کی رونمائی بھی ہوتی رہی، ہر کتاب کے مصنف کے ساتھ ساتھ ایک مبصر کو بھی گفتگو کا موقع دیا گیا۔ نامور اور مقامی مصنفین کی کتب کی رونمائی ہوئی۔
مشاعرہ بہت سے رنگوں سے مزین تھا۔ جن میں قومی سطح کے شعراء کے علاوہ مقامی اور سرائیکی شاعر بھی تھے، جنہوں نے نہ صرف خوب رنگ جمایا، بلکہ میلہ لوٹ لیا۔ مشاعرہ میں حاضرین کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ مشاعرہ رات کے پچھلے پہر تک جاری رہا۔ دُنیا نیوز کے پروگرام ’’حسبِ حال‘‘ کے اینکر جنید سلیم کے ساتھ ٹی وی کے انداز میں پروگرام کیا گیا۔ سامعین نے اپنے سامنے (لائیو) پروگرام شروع ہوتے دیکھا تو بے اختیار تالیاں بجا کر اپنی محبت کا اظہار کیا۔ جنید سلیم نے پروگرام کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔ بعد ازاں حسبِ حال کے نواز انجم نے پرفارمنس کے ذریعے خوب داد وصول کی، طلبا و طالبات نے کھڑے ہو کر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ ’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘‘ کے زیر عنوان میڈیا انکلیو تھا، جس میں اسلام آباد ، لاہور اور ملتان سے آئے ہوئے سینئر صحافیوں نے اظہارِ خیال کیا۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے زیراہتمام ’’بہاول پورادبی ثقافتی میلہ کا تصور تو رئیس الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر انجینئر اطہر محبوب نے ہی پیش کیا تھا، جس پر عمل کرتے ہوئے اب یہ میلہ بہاول پور کی پہچان بنتا جارہا ہے۔اگر کچھ کمی تھی تو کمشنر بہاول پور ڈاکٹر احتشام انورکے تعاون کی وجہ سے پوری ہو گئی۔ علم دوستی اور ادب پروری دونوں شخصیات کی فطرت میں شامل ہے۔ جو انسان خود علم و ادب کا ذوق اور جذبہ رکھتا ہو، وہی اس طرح کے پُر عزم اقدام کر سکتا ہے۔ یونیورسٹی کا کام ڈویژنل انتظامیہ کے تعاون سے بہت آسان ہو گیا۔ یونیورسٹیوں میں ایسے پروگرام ہونے سے طلبا و طالبات میں نیا جذبہ پیدا ہوتا ہے، جن لوگوں کے بارے میں سٹوڈنٹس اخباروں میں پڑھتے ہیں، ٹی وی پر دیکھتے ہیں، اُن کو جب براہ راست اپنے سامنے دیکھتے اور ان کی باتیں سنتے ہیں تو اُن میں بھی آگے بڑھنے کی ہمت پیدا ہوتی ہے، ترقی کی امید اجاگر ہوتی ہے، علم و دانائی اور تجربے کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ صرف طلباو طالبات پر ہی کیا موقوف، مقامی سطح کے نمایاں لوگوں اور عام شہریوں کے لیے بھی بڑے لوگوں اور مہمانوں کی آمد کی اہمیت برابر ہے۔ یہ گویا آکسیجن ہے، جامعات کی انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے سٹوڈنٹس کے لیے آکسیجن کا مستقل بندوبست جاری رکھیں، تاکہ طلبا وطالبات کی علمی و ادبی ’’صحت‘‘ بہترین رہ سکے۔ اس بے حد مصروف میلے میں اگر کوئی کمی کوتاہی رہ گئی ہے، یا جس عمل پر معاشرے سے تنقید یا منفی ردّ عمل آیا ہے، آئندہ کے لیے اُسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button