Abdul Hanan Raja.Column

ابھی وقت لگے گا! ۔۔ عبدالحنان راجہ

عبدالحنان راجہ

 

آرچ والڈ ایک مغربی مفکر کہ جنہوں نے سائنسی تجربات کے عمل سے گذرنے والے چوہوں کی آپ بیتی لکھی، مضمون تو چوہوں کی آپ بیتی پر، مگر خوب صادق آتا ہے تیسری دنیا کے ممالک بشمول پاکستانی عوام پر، کہ کس طرح چند سو افراد اور طبقہ اشرافیہ 90 فی صد سے بھی زائد اقلیت پر تجربات پہ تجربات کرتی چلے آ رہے ہیں مگر دکھ کی بات تو یہ کہ سات دہائیاں گذرنے کے بعد بھی تجرباتی عمل مکمل ہو اور نہ نتیجہ خیز، مگر مشق ستم بننے والے عوام کی قوت برداشت قابل داد، کہ خوش کن دعووں کی مے پی کر پھر سے لیبارٹریز میں پڑھے چوہوں کی طرح خود کو سیاسی سرجنوں کے سپرد کرنے کو تیار، سائنس دان چوہوں کے نیم مردہ جسموں پر جبکہ مجسم فرعونیت کے پیکران نیم مردہ ذہنوں پر مشق ستم ڈھاتے ہیں، مگر خوابیدہ ضمیر ہیں کہ زندہ ہونے کا نام تک نہیں لیتے، پاکستان میں بدعنوانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی جتنی پاکستان کی، کہ آغاز میں ہی جعلی کلیموں کا دھندہ شروع ہو گیا، بیوروکریسی کے شاطر دماغوں نے سادہ لوح اور لٹے پھٹے مہاجرین سے زمینیں اونے پونے داموں ہتھیائیں یا ہتھیانے میں معاونت کر کے اپنا حصہ وصول کیا اس وقت سے لیکر آج تک کرپشن اور بدعنوانی نے اپنی جڑیں کتنی گہری اور مضبوط کر لی ہیں اس کا اندازہ اس ضرب المثل سے لگایا جا سکتا ہے کہ’’پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے‘‘ اس نظام اور جمہوریت کے دلدادہ ہی بتا سکتے ہیں کہ گزشتہ ایک عشرہ میں قانون طاقتور ہوا یا قانون شکن.! کتنے طاقتور مجرموں کو سزا ہوئی جبکہ اس کے برعکس جو کچھ عام شہریوں کے ساتھ تھانہ کچہریوں میں ہوتا ہے وہ عبرت کیلئے کافیہے۔
کرپشن اور بدعنوانی کے مجرمان اب بھی بااختیار اور بااقتدار ! بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہماری بیورو کریسی اور سیاست دانوں نے قدرت کے عطا کردہ اختیارات اور صلاحیتیں بدعنوانی کے نت نئے طریقے دریافت کرنے اور آئینی راستہ سے بچنے میں استعمال کیں جس کا نتیجہ معاشی و اخلاقی دیوالیہ پن کی صورت میں سامنے ہے، کمزور نظام انصاف نے ہمیشہ قاتلوں، دہشت گردوں، سہولت کاروں، اربوں کی منی لانڈرنگ کرنے والوں کو سہولت فراہم کی جبکہ سانحہ ماڈل ٹاون، سانحہ ساہیوال اور بلدیہ کراچی جیسے خونی واقعات کے لواحقین آج بھی دربدر، مظلوموں، مجبوروں کی آہیں عرش الٰہی کو ہلا رہی ہیں مگر ٹس سے مس نہیں ہوتا تو ہمارا قانون!
حکمرانوں کے مکروہ چہرے ایک ایک کر کے سامنے آ رہے ہیں مگر تبدیلی ! آثار ہی نہیں، اب تو زرعی ملک میں جان کے لالے پڑے ہیں، پاکستان ایک زرعی ملک ہے، کی گردان کئی عشروں سے دہرائی جا رہی ہے بالکل اسی طرح جیسے انور مقصود نے کہا تھا کہ پاکستان ایک آزاد مملکت ہے! پاکستان کی ساٹھ فی صد سے زائد آبادی زراعت سے بلا یا بالواسطہ منسلک، مگر نااہل حکمرانوں زرعی ملک کے ساتھ جو کر رہے ہیں اس کا نظارہ آٹے کے حصول کیلئے مرنے والوں کی بھوک سے کیا جا سکتا ہے۔ 60 کی دہائی میں پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی دیکھا دیکھی صنعتی انقلاب کی طرف تو مائل ہوا، زراعت کی بجائے زرعی انڈسٹری کی طرف توجہ بڑھائی گئی مگر غلطی یہ ہوئی کہ زراعت کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ گندم، کپاس اور گنا جو ہماری بڑی فصلیں تھیں کاشت کاروں کی عدم تربیت اور حکومتی عدم توجہی کی بنا پر ملکی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہو گئیں اور آج ہم اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے درآمد پر مجبورہیں صوبائی حکومتیں اور وفاق آمنے سامنے اور کوئی مہنگائی، قلت اور سمگلنگ کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں، سیاست دانوں نے قوم کو غربت، افلاس اور قرضوں کی ایسی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے کہ جس سے قدرت کا معجزہ اور قومی خودی (اگر بیدار ہو جائے) ہی نکال سکتے ہیں، اب حال یہ ہو چکا کہ بھیک اور خیرات ملنے کو کامیابی اور اس پر جشن، مگر پاکستانیوں کے مقدر، کہ مانگت کوئی کم درجہ کے لوگ نہیں، وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور اعلی ترین قیادت ہے. مان لینا چاہیے کہ یہ نظام فرسودہ ہو چکا اور اس کی کوکھ میں ظلم، ناانصافی، افلاس اور بددیانتی کے سوا اور ہے کیا،اب اسے ہم درویشانہ عیاری کہیں یا سلطانی سادگی کہ اقتدار کا مزا چکھ لینے اور ناکامیوں کے بوجھ کے باوجود اسی نظام میں بذریعہ انتخابات تبدیلی کا خواب دیکھا جا رہا ہے جبکہ انہیں نظام انتخابات پر بھی کلیتاً اعتماد نہیں۔اشرف ندیم کا کلام موجودہ حالات کی خوب عکاسی کرتا ہے۔
پانی کے اترنے میں ابھی وقت لگے گا
حالات سنورنے میں ابھی وقت لگے گا
مچھر سے تعفن سے ابھی لوگ مریں گے
افلاس سے مرنے میں ابھی وقت لگے گا
ہم لوگ تو آقائوں سے ڈرتے ہیں سو ہم کو
اللہ سے ڈرنے میں ابھی وقت لگے گا
شاید نہیں بدلے گا یہاں طرز حکومت
شاید کہ سدھرنے میں ابھی وقت لگے گا
اشرف ہم ہی لوگ یہاں مرتے رہیں گے
اشرافیہ کو مرنے میں ابھی وقت لگے گا

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button