ColumnImtiaz Ahmad Shad

قائد اور اُس کے اوصاف ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

ایک قائد ایسا مربی اور رہنما ہوتا ہے جو کسی حالت میں بھی اپنی قوم کی اصلاح سے دست بردار نہیں ہوتا۔ وہ قوم کو درپیش مسائل سے نہ صرف پوری طرح آگاہ ہوتا ہے بلکہ ان کے حل کیلئے اس کے پاس قوانین، قواعد و ضوابط پر مشتمل ایک مکمل دستور اور طریقہ کار بھی ہوتا ہے۔ وہ ایسا نظام العمل ترتیب دیتا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر قوم دنیا بھر میں حقیقی آزادی اور خودمختاری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ فلاحی ریاست بننے کے مطلوبہ مقاصد حاصل کر لیتی ہے۔بڑی بڑی عظیم شخصیات اپنے اپنے دور میں اس دنیا میں تشریف لائیں، جنہوں نے اپنے اپنے ملکوں اور قوموں کے احوال کو بدلنے کیلئے سر توڑ کوششیں کیں۔ ان میں سے بعض کامیاب بھی ہوئے لیکن جب وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو وہ دستور یا نظام جن سے لوگوں کو متعارف کرایا تھا وہ بھی ان کے ساتھ ہی دفن ہو گیا۔ ایسی ہستیاں تعداد میں بہت کم ہوئی ہیں کہ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی نہ ان کی یاد کم ہوئی اور نہ ہی ان کی تعلیمات کا فیض ختم ہوا۔حقیقی قائد اور مربی وہ ہوتا ہے کہ جس کے کردار کا نقش لوگوں کے قلوب و اذہان پر ایسا نقش ہو جائے کہ وہ دنیا چھوڑ بھی جائے توتب بھی جس انقلابی سوچ اور جرأت سے لوگوں کو باطل کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ پیدا کیا تھا، وہ برقرار رہے۔ اس کردار کے پیچھے اس کی فکر، انقلابی فلسفہ، اعلی اخلاقی جرأت اور اس کا روحانی مقام و مرتبہ پنہاں ہوتا ہے، جس سے اس کے پیروکاروں کو جرات کا پیکر بنے رہنے کی توفیق ملتی رہتی ہے۔ ایسی ہستیاں ہمہ پہلو صفات کی حامل ہوتی ہیں۔ وہ اپنے جلال و جمال، اپنی فکر، روحانیت، جراتِ کردار اور اپنے باطل شکن افکار سے لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل کر کے رکھ دیتے ہیں۔ لوگ ان کی صحبت اور ذکر سے تسکینِ قلب پاتے ہیں۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حضرت ذو القرنین کے حوالے سے مکمل تفصیلات بیان کیں ہیں۔اگر ہم غور کریںتو ان قرآنی تذکار سے یہ استنباط ہو گا کہ لیڈر شپ اور کارکن سازی میں ان سے کس طرح استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: بے شک ہم نے اسے (زمانہ قدیم میں) زمین پر اقتدار بخشا تھا۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہاں حضرت ذوالقرنین رضی اللہ عنہ کو زمین پر اقتدار بخشنے کا ذکر فرمایا ہے کہ بلاشبہ انہیں ایک عظیم لیڈر کی صلاحیتوں سے نوازا گیا تھا۔ انہیں امورِ مملکت کے تمام اسرار و رموز سے آگاہ کیا گیا تھا۔ زمانہ قدیم میں ان کی ایک مضبوط اور طاقت ور سلطنت قائم تھی۔ دنیا میں ان کی قوت کا ڈنکا بجتا تھا وہ اللہ کے نیک و صالح بندہ ہونے کے ساتھ ساتھ فاتح افواج کے سپہ سالار بھی تھے۔ اگرچہ بعض مفسرین انہیں سکندر اعظم تصور کرتے ہیں لیکن قرآنی نکتہ نظر سے کہیں بھی ایسا ثابت نہیں ہوتا،تاہم حضرت ذوالقرنین اس قدر اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل تھے کہ بطور عظیم حکمران، ان کا ذکر قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے۔ ہمیں یہاں اس امر سے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ ذاتِ باری تعالیٰ آج بھی ایسے بندے پیدا فرما سکتا ہے جو امت مرحومہ کو انقلاب آشنا کر سکیں، بشرطیکہ قوم سچے دل کے ساتھ ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صبرو استقامت کے ساتھ باطل کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔اس وقت امت مسلمہ ، بالخصوص پاکستانی قوم کی زبوں حالی سے ہر درد مند دل پریشان ہے اور نم ناک آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہے کہ اے باری تعالیٰ! اس امت مرحومہ کو زوال سے نکالنے کی سبیل پیدا فرما۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس صدائے دل دوز پر فرماتا ہے کہ میری سنت تبدیل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا شیوہ یہ ہے کہ وہ اس وقت تک کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک خود ان میں اپنی حالت بدلنے کا مصمم ارادہ پیدا نہ ہو۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کا ذکر کیا ہے جو حالات کے سامنے جھکنے کی بجائے ڈٹ گئے اور ان کی جرأت و جواں مردی اور بے لوث قربانیوں پر نصرتِ الٰہی نے انہیں کامیابی و کامرانی سے سرفراز فرما دیا۔ قرآن مجید میں ان جرات کے پیکر رہنماؤں اور قائدین کا بیان درحقیقت ہمارے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے، موجودہ زبوں حالی سے باہر نکلنا ان کے نشان راہ پر چلے بغیر ممکن نہیں ہے۔جب اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک قوم کی جانب بھیجا توقائدانہ صلاحیت کے حوالے سے اللہ تعالی سورۃ الکہف فرماتے ہیں: اے ذوالقرنین! (یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے) خواہ تم انہیں سزا دو یا ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔یہ بات بڑی غور طلب ہے کہ حضرت ذوالقرنین اس قوم کے پاس پہنچے جو ظلم و ستم اور بے راہ روی کا شکار ہو چکی تھی۔ فسق و فجور ان کا وطیرہ تھا اور وہ بربادی کے گڑھے میں گر چکی تھی۔ وہ لوگ اپنی سیاہ کرتوتوں کے باعث سزا کے مستحق ہوچکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ذوالقرنین کو اختیار عطا فرمایا کہ یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے چاہے تو انہیں ان کے بد اعمال کی سزا دو یا پھر ان سے اچھا سلوک کرو،اگر ان کا مواخذہ کرنا چاہو تو پھر ان کو کٹہرے تک پہنچا کر عذاب الٰہی کا انتظار کرو اور اگر ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو تو انہیں معاف کرتے ہوئے ان کی تربیت کا نظام وضع کرو اور ان کی کردار سازی کرو۔ یہ اس لیے ہوا کہ انہیں سمجھانے اور سکھلانے والا کوئی قائد میسر نہیں تھا،اس مقام پر حضرت ذوالقرنین کی بات کو قرآن حکیم نے یوں بیان فرمایا:ذوالقرنین نے کہا: جو شخص (کفر و فسق کی صورت میں) ظلم کرے گا تو ہم اسے ضرور سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا، پھر وہ اسے بہت ہی سخت عذاب دے گا۔اس سے یہ واضح ہے کہ لیڈر کو اصلاح کرتے اور لوگوں کے ساتھ رحم کرتے ہوئے یہ بات واضح طور پر معلوم ہونی چاہئے کہ اس شخص کیلئے کوئی معافی نہیں جو ظالم ہو سوائے اس کے وہ توبہ کر لے۔
دوسرے لفظوں میں جو صاحبِ ایمان ہو گیا، امن کا پیکر بن گیا اور اپنی زندگی کو سنوار گیا۔ وہ اگر اعمالِ صالحہ بجا لائے گا تو اس کے لئے جہاں اس دنیا میں آسانیاں ہوں گی، اسے عہدے، مرتبے، عزت اور سربلندی ہو گی وہاں آخرت میں اللہ تعالیٰ اس کیلئے ایسی لازوال نعمتیں مہیا فرمائے گا جس کا دنیا کی زندگی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔اس سے معلوم ہوا کہ اصلاحِ احوال کیلئے سب کو ایک ہی چھڑی سے نہیں ہانکا جاتا بلکہ عدل اور انصاف پر مبنی نظام قائم کیا جاتا ہے۔ اگر ظالم کو انجام تک پہنچاتے ہیں تو اگر کوئی معافی مانگنے آ جائے تو پھر ابوسفیان کی طرح اسی کے گھر کو دار الامن بھی بنا دیتے ہیں۔ یہاں دراصل آقا ﷺ کو بتایا جا رہا ہے کہ جو سلطنتِ مصطفی ﷺ بنے گی وہ اللہ رب العزت کے منشا کے مطابق معاملات کو حل کرے گی اور اس سے بال برابر بھی انحراف نہیں کرے گی۔اگر پاکستان میں موجود لیڈرشپ آج یہ فیصلہ کر لے کہ ہم نظام مصطفی قائم کریں گے تو یقیناً عرش الٰہی سے مدد ومعاونت ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button