Columnمحمد مبشر انوار

غیر یقینی کے بادل چھٹ گئے! ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

جمہوری سیاست کا مسلمہ اصول ہے کہ سیاستدان عوام سے مسلسل رابطے میں اورعوامی مسائل کے حل میں روبہ عمل رہیں وگرنہ عوامی طاقت ان سیاستدان کو اقتدار سے الگ کرنے کا اختیار رکھتی ہے بشرطیکہ اس عوامی حق کو بزور لوٹنے کی کوشش نہ کی جائے۔ مسلمہ جمہوری معاشروں میں یہ روایت پختہ تر ہو چکی ہے، سول ادارے اتنے بااختیار ہیں کہ ان کے سامنے کسی بھی ملزم کی سیاسی و سماجی حیثیت کوئی معنی نہیں رکھتی اور کسی بھی قانون شکنی پر وہ مشکوک اشخاص کو تفتیش کیلئے طلب کر سکتے ہیں،گرفتار کر سکتے ہیں اور ان پر مقدمات چلا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچا سکتے ہیں،سیاستدان عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے اقتدار سے الگ ہو جاتے ہیں اور اگلے انتخابات تک عوام سے رابطے رکھ کر ،عوامی مسائل کو سنتے ہیں،پارلیمنٹ میں آواز اٹھاتے ہیں اور حکومت کو ان مسائل کے حل پرمجبور کرتے ہیں۔ اس سارے عمل میں خواہ وہ سیاسی ہو یا سول اداروں کی کارکردگی،اولین ترجیح بطور ایک شہری اپنی ریاست کے مفادات ،شہری حقوق اور قانون کی بالادستی ہی رہتی ہے،اسی لیے کسی بااختیار کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی مقدمے میں ملوث اپنے کسی حمایتی یا عزیز کی تفتیش پر اثرانداز ہو سکے بلکہ اس کے برعکس ایسی کوشش کرنے والا اپنی سیاسی حیثیت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور عوام میں اپنی مقبولیت بھی کھو دیتا ہے،نتیجہ یہ ہے کہ ایسے معاشروں میں قانون کی بالادستی واضح نظر آتی ہے ماسوائے چند ایک ایسے مقدمات ،جن پر بطور پاکستانی میرے تحفظات ہیں کہ ان میں انصاف نہیں ہوا۔پاکستان ریاست کا معاملہ بابائے قوم محمد علی جناح کی واضح ہدایات کے باوجود بہرطور مختلف ہے کہ یہاں سیاسی خانوادوں نے ریاست کو غیر اعلانیہ حصوں بخروں میں تقسیم کر رکھا ہے اور فریق مخالف کو اس اجازت نہیں کہ دوسرے فریق کے حصہ میں اپنی سیاست کرسکے،اس غیر اعلانیہ تقسیم کی بنیادوں میں دامے درمے سخنے،مقتدرہ کا کردار رہا ہے،جس کے باعث پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ،دوسرے فریق کی سیاسی رائے کو تسلیم کرنا گویا شکست تسلیم کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ معاملات کو طے کرنے کیلئے افہام تفہیم،جہاں ملکی معاملات ہوں یا شہری حقوق ہوں،کی بجائے ذاتی انا و ضد کا درجہ دے کر فریق مخالف کی کردارکشی کرنا ہی اصل مقصد سیاست رہ جاتا ہے۔
پاکستانی سیاست میں یہ چلن قریباً اول روزسے ہی دیکھنے کو مل رہا ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق ہماری سیاسی قیادت کا رویہ یہی نظر آتا ہے کہ بیڑیوں کے ساتھ ملاح جاتے نظر آتے ہیں البتہ کہیں کہیں،کبھی کبھی ازراہ مذاق سمجھیں یا تفنن طبع کہیں یا قدرتی اصول کہ اس دوران چند ایک ایسے سیاسی رہنما بھی منظر پر آئے کہ جن کی سیاسی ابتداء گو کہ اقتدارکی غلام گردشوں سے ہی شروع ہوئی لیکن انہوں نے وقت آنے پر بھرپور عوامی حمایت کے ساتھ ڈٹ کر ’’بیڑیوں ‘‘کی مخالفت کرنے کی سعی کی۔پاکستانی سیاست میں ’’بیڑیوں‘‘کی مخالف سیاست کرنا بڑے دل گردے کا کام تو ہے ہی لیکن اس میں جان کی بازی لگانے کی ہمت اور جرأت ہر سیاسی قائد میں نہیں گو کہ اقتدار کے جھولے جھولتے ہوئے سیاسی قائدین کے اشارہ ابرو پر نجانے کتنی جانیں ،ان کے اقتدار پر قربان کر دی گئی لیکن جب آزمائش کا وقت اپنی ذات پر آیا تو سازباز کر کے بیرون ملک جانا زیادہ بہتر اور مناسب سمجھا کہ ’’بیڑیوں‘‘کو مستقبل میں بھی ایسے وفاداروں کی ضرورت ہو سکتی ہے،پاکستانی سیاسی تاریخ میں مختلف سیاسی ادوار میں جن سیاسی رہنماؤں نے عوامی حمایت پائی ہے ان میں بلا شک و شبہ بابائے قوم کی عوامی حمایت غیر متنازعہ رہی ہے،قائد ملت لیاقت علی خان کی عوامی حمایت بھی بہرطور رہی ہے،ایوب خان کی عوامی حمایت کو ڈنڈے کے زور پر تصور کیا جاتاہے،قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی حمایت(مغربی پاکستان میں)غیر متنازعہ اور اپنے وقت میں انتہا کو چھوتی نظر آتی ہے،ضیاء الحق کی عوامی حمایت کلیتاً ڈنڈے کی مرہون منت رہی، جونیجو ایسی پارلیمنٹ کے وزیراعظم رہے جس کا انتخاب غیر جماعتی ہوا لیکن بطور وزیراعظم و سیاستدان ، جونیجو نے بہت عزت کمائی،بے نظیر بھٹو کی عوامی حمایت سے بھی کسی ذی فہم کو انکار نہیں ہو سکتا اورنہ ہی کوئی سیاسی طالبعلم اس سے منکر ہو سکتا ہے،نواز شریف کی عوامی حمایت کا پیمانہ بہرطور مختلف رہا ہے کہ نواز شریف کو عوامی حمایت بیلٹ بکس کی صورت(حقائق سامنے آ رہے ہیں کہ کس طرح یہ حمایت ممکن رہی)میسر رہی لیکن نواز شریف کے رفقاء نے دور آزمائش میں ہمیشہ نواز شریف کو اکسایا ’’قدم بڑھاؤ نواز شریف،عوام تمہارے ساتھ ہے‘‘ لیکن یہ دعویٰ بالعموم اخبارات یا سڑکوں پر بینرز کی حد تک ہی رہا اور نوازشریف کو مجبوراً یہ کہنا پڑا کہ میں نے جب قدم بڑھایا تو میرے پیچھے کوئی بھی نہ تھا۔ آخر میں جس سیاسی قائد کو بھرپور عوامی حمایت میسر آئی ہے وہ عمران خان ہیں اور وہ خود اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ حکومت سے بیدخلی کے بعد یہ عوامی ردعمل تھا جس نے انہیں سڑکوں پر آنے کیلئے آمادہ کیا کہ اس سے قبل چشم فلک نے پاکستان میں ایسا احتجاج بھٹو کیلئے دیکھا تھا۔
عمران مخالفین یہ کہتے نہیں تھکتے کہ عمران سیاست میں نابلد اور اناڑی ہیں لیکن حیرت ہے کہ اس نابلد اور اناڑی کا مقابلہ کرنے کیلئے تیرہ گھاگ سیاسی جماعتیں اتحاد کرکے ستائیس کلومیٹر کے رقبہ پر حکومت کر رہی ہیں لیکن اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ اس ستائیس کلومیٹر کے رقبہ میں ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود بلدیاتی انتخابات کرواسکیں۔یہ وہ کہنہ مشق سیاسی قائدین ہیں کہ جن کا نعرہ یہ رہا ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ کس کے ووٹ کو عزت
دینی ہے اور کیسے عزت دینی ہے؟کیا عوامی ووٹ کو عزت دینی ہے یا عوامی نمائندگان کو بعوض زر،عزت دینی ہے؟یا ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر سودے بازی کرکے ،ایک دوسرے کے معاملات کو سمیٹ کر ووٹ کو عزت دینی ہے؟وفاق میں تحریک عدم اعتماد پر جن عوامی نمائندگان کو سندھ ہاؤس میں رکھا گیا تھا،حکومت بنانے میں ان کے ووٹ کی ضرورت نہیں پڑی اور تیرہ گھاگ سیاسی جماعتوں نے ان منحرف اراکین اسمبلی کو اپوزیشن طور پر نواز دیا،حکومت اور حکومت مخالف سکے کے دونوں رخ پر حکومت نظر آتی ہے،چت بھی میری پٹ بھی میری،ایسی سیاست خال ہی کسی دوسری ریاست میں نظر آتی ہوگی۔اناڑی سیاستدان عمران خان کی دو صوبوں میں حکومتیں موجود تھی اور پنجاب میں نمبر گیم ایسی پیچیدہ تھی کہ صرف ایک اتحادی قاف لیگ کے ٹوٹنے سے ساری گیم اتھل پتھل ہوتی نظر آتی تھی لیکن چودھری تمام تر شکووں کے عمران خان کے ساتھ رہے گو کہ کئی ایک مواقع پر یوں نظر آیا کہ اب ٹوٹی کہ تب ٹوٹی لیکن ابھی تک قائم ہے۔عمران خان وفاقی حکومت سے نکلے تو بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں نے عمران کو مشورے دئیے کہ انہیں فوری طور پر دو صوبائی اسمبلیاں توڑ کر عام انتخابات کیلئے دباؤ بڑھانا چاہیے،ان حالات میں یہ تجزیہ کار اپنے تئیں صحیح مشورہ دے رہے تھے لیکن اناڑی سیاستدان کے سر میں نجانے کیا سمایا تھا کہ وہ ملک کے طول و عرض میں طوفانی دوروں اور تاریخ سازجلسوں کیلئے نکل پڑا،بعینہ وزیراعظم ہاؤس سے نکلتے ہوئے اپنے فقرہ کو سچ ثابت کرنا چاہ رہا تھا کہ ’’کوئی رہ تو نہیں گیا‘‘۔ضمنی انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تو اناڑی سیاستدان کا اعتماد قابل دید تھا کہ تمام تر وسائل کے باوجود وہ ہر ضمنی انتخاب میںاس نے تیرہ سیاسی جماعتیں کو عوام میں بری طرح ننگا کردیا ،جو کل تک کہتے تھے کہ عمران حکومت میں رہتے ہوئے عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکا ہے کہ اسے ایک بھی ضمنی انتخاب میں کامیابی نہیں ملی،منہ چھپانا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ مسلسل نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے کرتے،مخالفین کے سیاسی داؤ پیچ سے گذر کر (کہ جس میں اس کے سیاسی ساتھیوں کو چھانٹ کر الگ کر لیا گیا)،کوئی رہ تو نہیں گیا کا عمیق مشاہدہ کرکے، مخالفین کی آئینی و قانونی سعی سے نپٹ کر،عمران خان کے اتحادی چودھری پرویز الٰہی نے آئینی تقاضہ پورے کرتے ہوئے اعتماد کا ووٹ حاصل کر تے ہی،عمران خان کے لائحہ عمل کے مطابق گورنر کو پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی باقاعدہ سمری بھیج کر اپنے خلوص کو ثابت کردیا ہے اور وہ تمام افواہیں جو اختلاف کو ہوا دیتی تھی،ان کو بظاہر لائحہ عمل کا حصہ قرار ثابت کر دیا ہے۔ گو کہ پس پردہ کئی ایک دیگر معاملات بھی ہیں،جن کا ذکر مناسب نہیں کہ سب کو ان کا علم ہے،البتہ چودھری پرویز الٰہی کے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو بھجوانے سے غیر یقینی کے بادل چھٹ گئے ہیں یا ابھی حکومتی ترکش میں اور تیر باقی ہیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button