Editorial

وزیراعظم کا عوام کو ریلیف پیکیج دینے کا حکم

 

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے عوام کوگیس اور بجلی سمیت زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ریلیف پیکیج کی تیاری کے لیے وسائل کی فراہمی اور ایڈجسٹمنٹ کے لیے وزیر خزانہ کو بھی خصوصی ہدایت کی گئی ہے۔وزیراعظم پاکستان کی زیر صدارت مسلم لیگ نون کی قیادت کے اجلاس میں عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات سمیت معاشی مسائل اور سابقہ حکومت کی معاشی پالیسی کے منفی اثرات اور لاحق خطرات بھی عوامی اجتماعات کے ذریعے عوام کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ حکمران جماعت نے ایسے وقت میں عوام کو ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہے جب مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول،اجناس غرضیکہ عام آدمی کے استعمال کی ہر چیز کی قیمت دُگنا ہوچکی ہے، بھلے تاریخ کا بدترین سیلاب، خطے کی صورتحال اور عالمی سطح پر کساد بازاری اِس کی وجوہات بظاہر نظر آتی ہیں مگر یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت جو معاشی اصلاحات اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا دعویٰ لیکر برسراقتدار آئی تھی، اِسی کے دور میں عوام کے معاشی مسائل میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے، لہٰذا اتحادی حکومت کی قیادت ہی نہیں بلکہ قائدین سے لیکر ورکر تک سبھی تشویش میں مبتلا ہیں کہ آنے والے دنوں میں انتخابی مہم کے دوران عوام کو کیسے مطمئن کریں گے کیونکہ موجودہ اتحادی حکومت توریلیف کا وعدہ کرکے برسراقتدار آئی تھی لیکن ابتک ریلیف دینے کے بظاہرکوئی اقدام نظر نہیں آیا البتہ عوام کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ جہاں تک بجلی اور گیس سمیت دیگر مدات میں ریلیف دینا زیرغور ہے، مگرکیا آئی ایم ایف اِس کی اجازت دے گا ؟ کیونکہ ابتک وہ تمام اقدامات جن کے نتیجے میں تاریخ کی بلند ترین مہنگائی ہوئی ہے وہ آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم کرنے کا ہی نتیجہ ہیں اور معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ ہمیں بدستور آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر سائل کی طرح رہنا ہوگا کیونکہ ذرائع ابلاغ کی منظر کشی کے برعکس حکومت کی معاشی ٹیم کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام معطل نہیں ہوا اور
وزارت کی سطح پر مذاکرات میں تکنیکی جائزہ لیا جا رہا ہے مگر گورنر سٹیٹ بنک جمیل احمد خان نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں اعتراف کیا ہے جب تک باہر سے پیسہ نہیںآئے گا ہم پیسے ریلیز نہیں کر سکتے، اس وقت کاروباری افراد کو مسائل کا سامنا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ معاشی حالات کی سنگینی میں عوام کوریلیف دینا انتہائی مشکل نظر آتا ہے کیونکہ ہمارا کوئی بھی فیصلہ آئی ایم ایف کی تائید کے بغیر کوئی حیثیت نہیںرکھتا، ہم اُن کے سامنے کچھ وقت کے لیے ٹال مٹول تو کرسکتے ہیں مگر بالآخر ہمیں اُن کی ہر شرط ماننا پڑے گی جس کا خمیازہ ایک بار پھرعام پاکستانی کوبھگتنا پڑے گا پھر مجھے حکومت کے ذمہ دارین کا کہنا بھی قابل توجہ ہے کہ سابق حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل نہ کیا جس کی وجہ سے بمشکل آئی ایم ایف کو قرض کے حصول کے لیے رضا مند کرنا پڑا لہٰذا اب بھی اگر ہم آئی ایم ایف کے معاہدے کی پاس داری نہیں کریں گے تو آئی ایم ایف اگلی بار ہمیں ایک پائی بھی بطورقرض دے گا؟ درحقیقت منصوبہ بندی کے فقدان اور موسم کی طرح بدلتی معاشی پالیسیوں نے ہمیں ایک قدم آگے نہیں بڑھنے دیا، ہر نئی حکومت بلکہ ہر نئی معاشی ٹیم کی اپنی پالیسی ہوتی ہے لہٰذا جو بیج ابھی صرف پھوٹا ہی ہوتا ہے وہ پودا بننے سے پہلے مسل دیا جاتا ہے، یہی المیہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت ایک دوسرے کی مثبت پالیسیوں کو آگے بڑھانے کی بجائے یا تو ان کورد کردیتی ہیں یا پھر کچھ ایسا کیا جاتا ہے جو دوبارہ ہمیں صفرپرلے آتا ہے۔ چونکہ عام انتخابات قریب آنے کے نقارے بج رہے ہیں اور غیر اعلانیہ طور پرانتخابی مہم کا آغاز بھی سبھی جماعتیں کرچکی ہیں اِس لیے اتحادی حکومت بالخصوص مسلم لیگ نون کے لیے موجودہ معاشی صورت حال انتہائی تشویش ہے کیونکہ باقی تمام اتحادی جماعتیں پس پردہ ہیں یعنی معاشی اصلاحات کے نام پر ابتک جو کچھ ہوا بالخصوص مہنگائی عروج پر پہنچی، چھوٹی اور بڑی صنعتوں کے مسائل میںاضافہ ہوا، نجی ادارے بندش کے قریب پہنچے اوربے روزگاری میں اضافہ ہوا، اِن تمام کا جوابدہ دراصل حکمران جماعت مسلم لیگ نون کو ہی ہونا ہوگا اورووٹرز سوال بھی کریں گے کہ آپ معاشی اصلاحات اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے برسراقتدار آئے تھے مگر حالات اِس کے برعکس ہوئے۔ بظاہر معاشی بحران ہر شعبے کو پوری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، کوئی ایک شعبہ بھی موجودہ صورت حال میں اطمینان ظاہر کرتا نہیں آرہا۔ مہنگی ترین بجلی کی فراہمی اپنی جگہ گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے شدید ترین مسئلہ ہے دوسری طرف انڈسٹری کو ضرورت کے مطابق گیس بھی فراہم نہیں کی جاسکتی ، کئی صنعتوں کا پہیہ رک چکا اور لوگ بیروزگاری کا سامنا کررہے ہیں۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں عام صارف کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیںلہٰذا سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایسے کیا اقدامات کیے جائیںگے جن کا کریڈٹ انتخابی مہم میں لیا جائے گا۔ عوام تو ہر دور میںمعاشی مسائل سے دوچارہوکر ریلیف مانگتے رہے ہیں اوربدلے میں انہیںسستے بازاروں کی عارضی سہولت سے ٹرخایا جاتارہا ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس مسائل کا مستقل حل ہے ہی نہیں، ہر حکومت پچھلی حکومت کے بچھائے کانٹے صاف کرتی ہے اور جاتے وقت اگلی حکومت کے لیے کانٹے بچھادیتی ہے تاکہ اپنے دور کو خوشحالی کا دور قرار دے سکے۔ سیاست دانوں کے انہی حربوں نے ملک اور قوم کو آج اِس نہج تک پہنچایا ہے کہ اب بحرانوں سے باہرنکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔حکمران جماعت مسلم لیگ نون موجودہ صورت حال میں زیادہ آزمائش میں دکھائی دیتی ہے اِس کی وجہ اقتدارکا تاج ہے جو اتحادیوں نے اِن کے سر پرسجایا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عام انتخابات سے قبل اب مسلم لیگ نون ہر ممکن طور پرایسے اقدامات کرنا چاہے گی جن کے نتیجے میں اِسے رابطہ عوام مہم کے دوران عوام کا سامنا کرنے میں آسانی ہو مگر وہ اقدامات کیا ہوں گے اور کتنے دور رس ہوں گے اور ان کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے یہ سب کچھ ابھی معمہ ہے کیونکہ ہم آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتے مگر اب اتحادی حکومت کو اپنی ساکھ بچانے اور عوام سے کیے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کرنا پڑیں گے وگرنہ عام انتخابات میںمشکل صورت حال کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے اور ویسے بھی حکمران جماعت بارہا کہہ چکی ہے کہ انہوں نے معاشی اصلاحات کے لیے اپنی سیاست دائو پر لگائی ہے،اِس سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ حکمران متوقع نتائج سے بخوبی آگاہ ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button