ColumnKashif Bashir Khan

تجدید وفا پاکستان ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

آج پاکستان تکنیکی طور پر معاشی ڈیفالٹ کر چکا اور پاکستان کے عوام بدترین گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔مہنگائی نے متوسط طبقے کو ختم اور نچلے طبقے کو زندہ در گور کر دیا ہے۔پٹرولیم مصنوعات اور اشیاء صرف کی قیمتیں عام کیا خاص طبقے کی بھی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں اور درحقیقت قائدؒکا پاکستان جن کے ہاتھ میں کھلونا بنا ہوا ہے، ان کے بارے میں لکھ لکھ کر اور بول بول کر میرے جیسے بہت سوں کی اُنگلیاں گھس چکیں اور زبانیں تھکنے کو آچکی ہیں لیکن شاید ہمارے قلم اور زبانوں میں وہ تاثیر نہیں یا پھر ظالم نظام کے پروردہ حکمران بہت ہی مضبوط اور بڑے مافیاز ہیں۔نو ماہ کے بعد اس رجیم چینج کے تحت بنی وفاقی حکومت کے عوام کش فیصلوں نے آج عوام کو زندہ درگور تو کیا ہی ہے لیکن دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت کی سالمیت کو بھی سنگین خطرات سے دو چار کر دیا ہے۔میرا استدلال ہے کہ صرف ایک مثال ہی کافی ہے کہ جو کیس مرحوم ڈاکٹر رضوان نے شہباز شریف وغیرہ پر تیار کیا تھا وہ اتنا اوپن اور شٹ کیس تھا کہ اگر ان پر ایک مرتبہ فرد جرم عائد ہو جاتی تو وہ تا قیامت بھی سزا سے نہیں بچ سکتے تھے اور کوئی بھی وکیل و جج چاہتے ہوئے بھی انہیں نہیں چھوڑ ،یا چھڑوا سکتا تھا لیکن ہوا کیا؟ایف آئی اے کے افسران نے خود اس 24 ارب کی منی لانڈرنگ کے کیس کو آگے چلانے سے انکار کر کے عدالت سے اس کیس کو ختم کرنے کی استدعا کی اور کیس کو ختم کروا دیا۔صرف ایک ہی کیس جو 24 ارب کی کرپشن کا حامل تھا، میں اگر سزا ہوتی تو لامحالہ 24 ارب کی ریکوری بھی ہونے تھی۔یہی 24 ارب اگر قومی خزانے میں ڈال دیئے جاتے تو اندازہ
کریں کہ حکمرانوں کی کرپشن کے شکار عوام کو اگر فی کس ایک لاکھ بھی بانٹ دیا جاتا تو دو لاکھ چالیس ہزار افراد نہ صرف مستفید ہوتے بلکہ ان کی اکثریت اس رقم سے چھوٹا موٹا کاروبار بھی کر لیتے اور ملک میں طاری شدید بے روز گاری اور غربت میں کمی کا سلسلہ کچھ کم ہوتا لیکن اس بدترین اور زنگ آلودہ نظام میں ایسا ہونا کب ممکن ہے یہاں تو چھوٹا چور اور اکثر بے گناہ سزائیں پاتے ہیں اور بڑے مجرم کھلے عام نہ صرف دندناتے پھرتے ہیں بلکہ اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے جاتے ہیں۔میں نے تو صرف ایک کیس کی بات کی جس نے میرے بہت ہی اچھے دوست ڈاکٹر رضوان کی جان لے لی اور اصل مجرموں کو ایف آئی اے اور دوسرے طبقات نے ڈاکٹر رضوان مرحوم کی مشکوک موت کے بعد ’’باعزت‘‘بری کر دیا۔اس منی لانڈرنگ کیس کے ساڑھے چار ہزار صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ پر جتنی محنت ڈاکٹر رضوان مرحوم نے کی تھی اس کے بعد مقصود چپڑاسی۔دو دوسرے شریف برادران کے ملازمین اور ڈاکٹر رضوان کو اس دنیا سے رخصت کرنا ہی بنتا تھا کہ ڈاکٹر رضوان کا زندہ رہنا اس کیس کو کبھی بھی زندہ کر سکتا تھا اور ڈاکٹر رضوان کی موجودگی میں شائد شریف برادران کی اس بظاہر چھوٹی چوری میں بریت شاید ہو نہ پاتی۔
یہ وہ فارمولا ہے جو میں نے گزشتہ دن تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان کو ایک خصوصی ملاقات میں بھی بتایا تو انہوں نے اس کو سراہا لیکن ساتھ ہی کہا کہ میرے دور حکومت میں تمام تر کوششوں کے باوجود میں ملک و قوم کی دولت کا وحشیانہ طریقے سے لوٹنے والوں کو سزا نہیں دلا سکا کیونکہ نیب پر میرا اختیار اور کنٹرول نہیں تھا اور اپنے دور حکومت کے بعد جب ڈیڑھ سال بعد میری ملاقات چیئر مین نیب جاوید اقبال سے ہوئی اور میں نے ان سے بڑے بڑے ملزم، جو عوام کی دولت لوٹ چکے تھے ،کو سزائیں نہ ملنے کی بابت گلہ کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمیں’’اْدھر‘‘سے اجازت نہیں ملتی تھی۔جو فارمولا میں نے عمران خان کو گوش گزار کیا اسے اگر لاگو کر دیا جائے تو لاکھوں لوگوں کو اور کچھ نہیں تو قرض حسنہ دے کر ان کی غربت میں کمی اور چھوٹے موٹے روزگار کے مواقعے فراہم کئے جا سکتے تھے،بلکہ آنے والے دنوں میں اگر حکومت ملتی ہے تو عمران خان جو قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں، کو فوری طور پر ہنگامی قانون سازی کر کے لاکھوں ارب روپے ریکور کر کے عوام اور پاکستان کے معاشی اور معاشرتی حالت کی بہتری کا جانب جانا چاہیے۔مقصود چپڑاسی کیس تو آٹے میں نمک برابر ہے حدیبیہ سے لیکر اومنی سکینڈل تک اگر تمام کرپشن
کیسوں میں اگر مستقبل میں یہ ہی فارمولا اپنایا گیا تو یقین جانیں کہ خوشحالی پاکستان کے عوام کی بہت جلد مقدر بن سکتی ہے۔کوئی بھی کاروبار دیکھ لیں اگر اس کا سرمایہ مارکیٹ میں پھنسا ہو تو اس پر قرضوں کی زیادتی بڑھتی جاتی ہے اور ایک دن وہ دیوالیہ ہو جاتا ہے۔اچھا کاروباری شخص و ہی ہوتا ہے جو دیوالیہ ہونے سے پہلے ہی اپنا سرمایہ مارکیٹ سے نکالنا شروع کر دیتا ہے اور پھر اسی سرمائے کو مارکیٹ میں اپنے مال کی صورت میں بھیج کر اپنا کاروبار نہ صرف بچاتا ہے بلکہ اسے وسعت بھی دیتا ہے کچھ ایسا ہی معاملہ پاکستان کی معیشت کا نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کی دولت چند ہاتھوں نے بدترین لوٹ کھسوٹ کے بعد ہتھیائی ہوئی ہے اور ہماری حکومتیں پاکستانی دولت برآمد کرنے کی بجائے عالمی ادارے سمیت دوسری ممالک اور اداروں کے پاس کشکول لے کر پہنچ جاتے ہیں۔جو عالمی ادارے ہمیں امداد کے نام پر سرمایہ فراہم کرتے ہیں اور اس پر شرح سود بہت زیادہ ہوتا ہے ۔دوسرے کرپٹ حکمران اس امداد میں سے بھی ڈائریکٹ کرپشن اور کک بیکس کے ذریعے لاکھوں کروڑوں ڈالرز اندرون خانہ لے لیتے ہیں اور بوجھ پاکستان اور عوام پر بڑھتا جاتا ہے۔یعنی پیسہ پاکستان کے نام پر لیا جاتا ہے اور اس سرمائے کی بڑی تعداد کھا پی لی(کرپشن) جاتی ہے اور سرمایہ سود سمیت واپس کرنے کی زمہ داری عوام بلکہ آنے والی نسلوں پر ڈال دی جاتی ہے۔
بات معاشی شدید بحران سے شروع ہوئی تھی کہ پھر سے اس ملک کو کرپشن کے ذریعے اجاڑنے والے تک پہنچ گئی۔پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا تمام برائیوں اور خرابیوں کی جڑ ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی دولت لوٹنے والوں کیلئے جنت پاکستان کو جنت بنا چکی ہے جہاں طاقتور کو سزا ملنا قریباً نا ممکن ہو چکا ہے اور ریاست کی ایک ایسی بدترین شکل سامنے آ چکی ہے جہاں طاقتور ہی سب کچھ ہے۔کل ہی عمران خان سے دوران گفتگو جب اس صورتحال پر بات ہوئی تو عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے نظام میں لولی لنگڑی حکومت کرنے سے بہتر ہے کہ حکومت نہ کی جائے جیسا کہ افسر شاہی،عدلیہ اور تمام ادارے کرپشن اور سیاسی مداخلت کی وجہ سے نچلی سطح پر لگے ہوئے ہیں اور اگر ان سب کو ٹھیک کرنا ہے تو پھر دو تہائی اکثریت سے حکومت ملنے پر ہی یہ سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔آخر میں یہ لکھنے کو جسارت کر رہا ہوں کہ عمران خان نے جو بات مجھ سے کہی تھی کہ گو اس وقت معاشی صورتحال بدترین ہے لیکن معاشی استحکام کی واپسی کیلئے نئے انتخابات اس لیے بھی ضروری ہیں کہ ان وفاقی حکمرانوں پر دنیا کی کوئی بھی حکومت و عالمی ادارے اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں اور پاکستان کی معاشی بہتری پاکستان میں سیاسی استحکام سے جڑی ہوئی ہے۔۔موجودہ وفاقی حکومت کا وزیر خارجہ پچھلے آٹھ ماہ میں بیرونی دوروںپر قریباً 2 ارب روپے خرچ کر چکا ہے جن کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اس وفاقی حکومت کوگھر نہ بھیجا گیا تو پھر نوبت پاکستان کے’’اصل اثاثوں‘‘کو کمپرومائز کرنے پر بھی آ سکتی ہے۔موجودہ بدترین ملکی حالات عوام سے ’’تجدید وفا پاکستان‘‘ کا تقاضا کر رہے ہیں۔سب کو سوچنا ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button