Editorial

سیلاب ، صوبوں میں فوج تعیناتی کی منظوری

ملک بھر میں بارشوں و سیلاب سے مزید تباہی پھیل رہی ہے۔ بلوچستان میں بجلی، گیس اور مواصلاتی نظام معطل ہے۔ سندھ اور خیبر پختونخوا میں بھی تباہی و بربادی کے ہولناک مناظردیکھے جارہے ہیں۔ نوشہرہ کے علاقہ میں دریائے کابل کے حفاظتی پشتے ٹوٹنے سے پانی قریبی گھروں میں داخل ہو گیا ہے اور مقامی رہائشی گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں۔ بارشوں کے باعث لینڈ سلائیڈنگ سے شاہراہ قراقرم متعدد مقامات پر بند کر دی گئی ہے تاہم سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے امدادی سامان بھجوا یا جارہا ہے۔ بلوچستان میں سیلابی ریلوں سے مزید 6 ڈیم ٹوٹ گئے ہیں جس کے بعد سیلاب کی وجہ سے زیارت، پشین اور مستونگ کے علاقوں میں کئی آبادیاں ڈوب گئی ہیں۔خیبر پختونخوا حکومت نے وفاقی حکومت سے سیلاب متاثرین کے لیے مدد کی اپیل کر دی ہے۔سندھ کے مختلف شہروں میں 3 روز سے جاری بارش کا سلسلہ تو تھم گیا ہے لیکن ہر جگہ کئی کئی فٹ پانی جمع ہونے سے عوام کی مشکلات برقرار ہیں۔بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے مناظر ناقابل بیاں ہی نہیں ناقابل برداشت بھی ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں متاثرین سیلاب کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جارہا ہے اسی طرح پنجاب حکومت بھی پنجاب میں متاثرہ افراد کو ریلیف پہنچانے کے لیے تمام تراقدامات بروئے کار لارہی ہے ایک بری خبر یہ بھی ہے کہ خیبر پختونخوا کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور اطراف میں وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں اور یقیناً سندھ اور بلوچستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ چاروں حکومتوں نے ریلیف فنڈز قائم کردیئے ہیں اور مخیر حضرات سے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے امداد کی درخواست کی جارہی ہے۔ اسی ضمن میں پاک فوج نے بھی متاثرین کی بحالی کے لیے فنڈ قائم کردیا ہے۔ پاک فوج کے جوان پہلے ہی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اب تمام صوبوں میں امدادی سرگرمیوں کے لیے باقاعدہ فوج طلب کرلی گئی ہے کیونکہ صورتحال بہترہونے کی بجائے بدتر ہورہی ہے حالانکہ پاک فوج، ریسکیو اوردوسرے فلاحی ادارے مسلسل متاثرین کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ریلیف آپریشن کررہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سیلاب کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے گذشتہ روز کراچی پہنچے ، وزیراعظم میاں شہبازشریف بھی سندھ کے دورے پر ہیں، وزیر خارجہ بلاول بھٹو اوروزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی سندھ کے متاثرین کے لیے امدادی کاموں کا جائزہ لینے کےساتھ ساتھ متاثرہ علاقوں کا دورہ کررہے ہیں۔ پنجاب حکومت پہلے ہی کسانوں کا مالیہ اوردوسرے لگان وصول نہ کرنے کا اعلان کرچکی ہے اور متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دے چکی ہے۔پس اس وقت سیاسی قیادت ہی نہیں بلکہ عسکری قیادت بھی سیلاب متاثرہ افراد کے لیے میدان عمل میں ہے مگر پھر وہی بات کہ حالات بگڑ رہے ہیں اور لوگ اذانیں اور قرآن پاک کا واسطہ دینے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں اِس آزمائش سے باہر نکالیں۔ یقیناً دعائیں رنگ لائیں گی اور رب العالمین ہماری گریہ زاری سن کر ہمیں اس قیامت خیز صورتحال سے باہر نکالیں گے۔ آج بارشوں اور سیلاب سے محفوظ شہروں میں متاثرین سیلاب کی بحالی کے لیے کیمپ لگاکر امدادی سامان جمع کیا جارہا ہے اور بلاشبہ کوئی سیاسی و مذہبی جماعت اور فلاحی ادارے اس مقصد میں پیچھے نہیں ہیں فقط ضرورت ہے تو ہم وطنوں کے خصوصی تعاون کی جن کے تعاون کے بغیر متاثرین کو ریلیف فراہم کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے جوق درجوق ہر پاکستانی کو اپنا حصہ فلاحی کاموں میں ڈالنا چاہیے تاکہ ہم اپنے متاثرہ بہن بھائیوں کو فی الحال عارضی چھت فراہم کرسکیں اور کوئی بھی پریشان حال کھلے آسمان تلے بے یارومددگار اور بھوکا نہ سوئے۔ سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ ہم وطن اس وقت شدید کرب میں مبتلا ہیں ان کے پاس تن ڈھاپے لباس کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچا سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے سیلابی ریلوں کی نذر ہوچکا ہے۔ گھر بار، املاک، مال مویشی، اناج، کھیت کھلیان کچھ بھی باقی نہیں بچا اِس لیے ان متاثرہ خاندانوں کو ضرورت کی ہر شے چاہیے ، تن ڈھانپنے کو کپڑے، پینے کے لیے پانی، پیٹ بھرنے کے اناج، سر ڈھانپنے کے لیے خیمے ، ادویات غرضیکہ انہیں ضرورت کی ہر چیز درکار ہے۔ سیلاب سے انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہوچکا ہے بلکہ اب تو اِس نام کی کسی چیز کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ بجلی، پانی، گیس تو خیر پہلے ہی تباہی کی نذر ہوگئے تھے اب متاثرہ علاقوں کا فضائی اور زمینی رابطہ اور نظام مواصلات بھی ختم ہورہا ہے ، پس متاثرہ افراد سے کسی کا رابطہ ہے نہ ہی کوئی اُن سے رابطے میں ہے۔ شمالی علاقہ جات بھی سیلاب کی تباہی سے دوچار ہیں اور وہاں موجود سیاحوں کے لیے بھی تشویش اپنی جگہ موجودہے۔ ہیلی کاپٹرزاور کشتیوں کے ذریعے متاثرین تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے تاکہ انہیں محفوظ مقام پر منتقل کیا جاسکے۔ پنجاب اورخیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات پر تعمیر بلند و بالا عمارتیں سیلاب کی زد میں آکر زمین بوس ہوگئی ہیں۔ سو ات ، کا لا م ، مٹہ ، لوئر دیر، کوہستان،مدین سمیت دیگر سیاحتی علا قوں میں بار شوں اور سیلاب سےمتعدد ہوٹلزاورمکانات منہدم اور مرکزی شاہراہیں غائب ہوچکی ہیں جیسے وہاں کبھی کچھ تھا ہی نہیں اورسیلابی ریلے بڑی تعداد میں علاقوں کے درمیان پل بھی بہا کر لے گئے ہیں اور ابتدائی اورغیر حتمی تخمینے کے مطابق اب تک قریباً نو سو ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ ریلوے نے متاثرہ علاقوں کے لیے ریل آپریشن معطل کردیا ہے کیونکہ مسافروں کی جان کوخطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا، زمینی راستے پہلے ہی قریباً قریباً بہہ چکے ہیں ، پی آئی اے نے بھی کوئٹہ کے لیے فلائٹ آپریشن معطل کردیا ہے۔ پس نہیں ممکن کہ اِس قیامت صغریٰ کو بیان کیا جائے ، اس وقت ضرورت ہے کہ پوری قوم ماضی کی آزمائشوں کی طرح ایک بار پھر مشکل میں گرفتار ہم وطنوں کی مدد کے لیے آگے آئے اور سیاسی قیادت بھی فی الوقت اپنے اختلافات اور سرگرمیوں کو معطل کرکے حالات کا تقاضا پورے کرے وگرنہ ناقابل تلافی نقصان بڑھتا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button