Columnعبدالرشید مرزا

سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ سے ملاقات ۔۔ عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

(آخری حصہ )
جس بستی میں بھی آپ لوگ موجود ہوں، وہاں عام آبادی سے آپ کے اخلاق بلند تر ہونے چاہئیں بلکہ آپ کو بلندیٔ اخلاق، پاکیزگی سیرت اور دیانت و امانت میں ضرب المثل بن جانا چاہیے۔ آپ کی ایک معمولی لغزش نہ صرف جماعت کے دامن پر بلکہ اسلام کے دامن پر دھبہ لائے گی اور بہت سے لوگوں کیلئے سبب گمراہی بن جائے گی۔ آپ کو یہ عزم پیدا کرنا ہے کہ اپنی انفرادی زندگی اور گردوپیش کی اجتماعی زندگی کو حقیقت ِ اسلامی کے مطابق بنائیں اور جو کچھ باطل ہو، اسے مٹانے میں جان و مال کی بازی لگا دیں۔ لوگوں کے اندر یہ گہری تبدیلی ساحری اور شاعری سے پیدا نہیں ہوا کرتی۔ آپ میں سے جو مقرر ہوں، وہ پچھلے اندازِ تقریر کو بدلیں اور ذمہ دار مومن کی طرح جچی تلی تقریر کی عادت ڈالیں۔ جو لکھنے والے ہیں، بالکل یک سُو ہوکر اپنے نصب العین کے پیچھے لگ جایئے۔ جو عمل خدا کی راہ میں نہیں ہے، اس میں مشغول ہوکر آپ اپنا وقت اور اپنی قوتیں ضائع کریں گے حالانکہ آپ کو اپنے وقت اور اپنی قوتوں کا حساب دینا ہے۔ تبلیغ میں حکمت اور موعظۂ حسنہ کو ملحوظ رکھیے، حکمت یہ ہے کہ آپ مخاطب کی ذہنیت کو سمجھیں۔ اس کی غلط فہمی یا گمراہی کے اصل سبب کی تشخیص کریں۔ اس کو ایسے طریقے سے تلقین کریں، جو زیادہ سے زیادہ اس کے مناسب حال ہو۔ موعظۂ حسنہ یہ ہے کہ جس کے سامنے آپ تبلیغ کریں، اس کے سامنے آپ اپنے آپ کو دشمن اور مخالف کی حیثیت سے نہیں بلکہ اس کے بہی خواہ اور دردمند کی حیثیت سے پیش کریں۔ ایسے باوقار، بلیغ اور شیریں انداز سے راہِ راست کی طرف دعوت دیں، جو کم سے کم تلخی پیدا کرنے والا ہو، یہ کہ بے موقع تبلیغ نہ کیجیے۔ اسلام ایک حکیمانہ دین ہے اور اس کے مبلغ کو حکیم ہونا چاہیے۔ 29 اگست 1941, جماعت اسلامی کے اس تاسیسی اجتماع کا
آخری دن تھا۔امیر جماعت نے اصحابِ شوریٰ کے مشورے سے جماعت کے ابتدائی پروگرام سے متعلق کچھ اُمور طے کیے اور یہ اجتماع اختتام پذیر ہوا۔ آنے والے یہ چند فرزانے ایمان، رہنمائی اور جذبوں کی دولت لے کر ہندستان بھر میں پھیل گئے۔ ان سب سے بڑھ کر یہ بات ہمت افزا ہے کہ جن لوگوں نے پیش قدمی کی ہے، ان میں سے اکثر کے طرزِ اقدام سے احساسِ ذمہ داری کا اظہار ہورہا ہے۔ وہ اس تحریک اور دوسری تحریکوں کے فرق کو سمجھتے ہوئے آ رہے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ وہ کھیل کے میدان میں نہیں اُتر رہے ہیں بلکہ شہادت گہ اُلفت میں قدم رکھ رہے ہیں۔ اس لیے وہ وضع احتیاط کے ساتھ اپنے نفس کا احتساب کرتے ہوئے بڑھ رہے ہیں کہ جو قدم بھی خدا کی راہ میں اُٹھے پھر پیچھے نہ پلٹے۔
داعی تحریک اسلامی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مذکورہ بالا خطبات میں بیان کردہ اہداف اور ہدایات میں نشانِ منزل بھی ہے، اور منزل کے راستے کا نقشہ بھی۔ ان کلمات میں راستوں کی رکاوٹیں بھی درج ہیں اور عزم و ہمت کے مینار بھی روشن ہیں۔ تاسیسی پروگرام کی کاروائی سننے کے بعد مجھے یہ اندازہ ہوگیا تھا، کہ امیر جماعت اسلامی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کون ہیں اور یہ جماعت اسلامی کیوں قائم کی گئی، جیسے ہی پروگرام ختم ہوا میں آہستہ آہستہ نو منتخب امیر جماعت کے پاس حاضر ہوا، انہوں نے مجھے دیکھا اور پوچھا کہاں سے آئے ہیں میں نے جواب دیا میں لاہور شہر کا باسی ہوں، میری آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے انہیں پریشانی بھی ہوئی اور حوصلہ دیا اور پوچھا بتاؤ کیا بات ہے پھر میں نے انہیں بتایا، جس تحریک کی آپ نے بنیاد رکھی آپ کے بعد اس کے امراء میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن، سراج الحق بنے، انہوں نے اپنا کام دیانتداری سے کیا، سپریم کورٹ نے موجودہ امیر جماعت کو دیانتداری کے القاب سے پکارا، باقی قیادت پر بھی کوئی کرپشن کا الزام نہیں لیکن سیاست کے میدان میں بڑی کامیابی نہیں مل سکی۔ میرے اس سوال کے جواب پر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے فرمایا ہمارے ساتھ لوگ ہمارا کام دعوت سے شروع ہوتا ہے اور قیادت تک پہنچتا ہے غلبہ دین کیلئے ہمیں افکار کی تطہیر اور تعمیر نو،دوسرا صالح افراد کی تلاش و تنظیم و تربیت ،تیسرا اجتماعی اصلاح کی سعی یعنی اصلاحِ معاشرہ اور چوتھا نظامِ حکومت کی اصلاح، ہمیں کامیابی کیلئے اسی ترتیب کو سامنے رکھنا ہوگا، یہ ممکن نہیں کہ ہم پہلے تین نکات پر کام نہ کریں ور چوتھے نکتے کو حاصل کر لیں، اور ہمارا مقصود بیج لگانا، پانی دینا پھر پودے کی دیکھ بھال کرنا ہے اور پھر جب تناور درخت بن جائے گا۔ لوگوں کی خدمت اور انہیں دوزخ کی آگ سے بچانا ہمارا مقصد ذندگی ہونا چاہیے۔ اپنے اپنے حصے کے چراغ جلانے ہوں گے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ملاقات میں امید کے چراغ جلاتے رہے، بندے کا قرآن و حدیث رشتہ مضبوط کرنے کی تلقین کرتے رہے، پھر کچھ دیر خاموش رہ کربولے کامیابی کیلئے ضروری ہے۔ہمارے کارکنان، ذمہ داران کے
درمیان مضبوط رشتہ ضروری ہے منزل دنیا لیکن وہ آخرت کی کامیاب سے برتری نہ لے جائے۔ قرآن، حدیث اور جدید علوم پر عبور حاصل کرنے اور لوگوں کو قائل کرنے کیلئے مطالعہ ضروری ہے۔ دنیا آپ کی طفل مکتب ہوں، دین اور دنیا کا علمی امتزاج ہو۔ اگلا سوال مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے مجھے کیا میرا پاکستان کیسا ہے جو مدینہ کی ریاست کے بعد پہلی اسلامی ریاست بنی تھی، میرے پاس شاید کوئی جواب نہیں تھا، شرمندگی کے مارے میری آنکھیں نم تھیں، میں نے آہستگی سے جواب دیا کہ ہمارے حکمران کرپشن میں کھو گئے، کشمیری پابند سلاسل ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ، آپ کے ساتھی مولانا مطیع الرحمن نظامی، عبدالقادر ملا، مولانا غلام اعظم جنہوں نے پاکستان کو دو ٹکڑے ہونے سے بچانے کیلئے 1971 میں قربانیاں دیں، بنگلہ دیش میں انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے حکمران خاموش ہیں۔مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے حکومت وقت کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا تاریخ میں بہت سے فرعون، نمرود، ابوجہل آئے لیکن ہمارے نبی حضرت محمدﷺ، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام کامیاب ٹھرے۔ اس لئے حق پر ثابت قدم رہیں ایک دن ضرور اسلامی انقلاب آئے گا۔میں نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ سے کہا کہ انڈیا میں آپ کے لٹریچر پر علی گڑھ یونیورسٹی میں پابندی لگا دی گئی ہے، ساتھ ہی وہ بولے کفر کو یہ اندازہ ہے کہ اسلام ایک دن پوری دنیا پر غالب آئے گا اور کفر ختم ہو جائے گا ۔اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے پوچھا امیر جماعت اسلامی پاکستان کون ہیں میں نے جواب دیا سراج الحق ہیں جنہیں تمام اداروں نے امانت اور دیانت کی وجہ سے تحسین پیش کیا ہے۔ آخر میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے کہا کہ میرا پیغام سراج الحق اور کارکنان کو دینا، جس راستے پر آپ چل رہے ہیں یہی
حق کا راستہ ہے اس پر ثابت قدم رہیں، مایوس نہ ہوں تم ہی غالب رہوگے۔ پیارے نبی حضرت محمد ﷺکی سیرت سے رہنمائی حاصل کریں اور قرآن مجید کو اپنا محور مرکز بنائیں، باطل قوتیں سرمائے، ظلم کے ساتھ ہمیشہ حق کو ختم کرنے کی کوشش کرتی رہیں لیکن حق ہمیشہ نکھر کر سامنے آئے گا۔ قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جاؤ۔ آج 82 سال گزرنے کے بعد، اس کاروانِ شوق کو پوری دنیا میں منزل کی جانب سفر کرتے ہوئے گزر گئے، نہ کوئی طاقت ہماری منزل کو کھوٹا کرسکی نہ ہی ہم نے راستہ بدلا اس لیے فکری یگانگت کے ساتھ حق کے راہی گرمِ سفر ہیں۔ اب دعوت کا کام تیسری نسل کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ شجر طیبہ برگ و بار لا رہا ہے، قربانیاں دے رہا ہے، ہر رکاوٹ میں سے راستے نکال کر منزل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مگر داعی کی پکار اور تاسیسِ جماعت کے مخاطب آج ہم خود اہلِ قافلہ ہیں۔ اس لیے ہم میں سے ہر دیکھنے والا دیکھ لے، اور ہر تولنے والا تول لے۔ قافلہ کہاں سے شروع ہوا اور کن منزلوں سے ہوتا ہوا کہاں تک پہنچا ہے، اور کتنا سفر باقی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button