Editorial

فنانس بل کی منظوری

قومی اسمبلی نے مالی سال 2022-23 کے لیے وفاقی بجٹ ( فنانس بل) کی کثرت رائے سے منظوری دے دی ہے۔ شق وار منظوری کے دوران پٹرولیم لیوی کی قیمت میں مرحلہ وار 50 روپے لیٹر اضافے،10فیصد سپر ٹیکس اور تنخواہ دارطبقے کے لیے  ریلیف ختم کرکے نئی ٹیکس شرح کی ترامیم کی منظوری دی گئی، موبائل فون کی درآمد پر 16ہزار تک لیوی عائد ہوگی،ایئر لائنز، آٹوموبیل، سیمنٹ، کیمیکل، سگریٹ، فرٹیلائزرز، سٹیل، شوگرانڈسٹری، ٹیکسٹائل،بینکنگ اور دیگر سیکٹرز پر 10فیصد سپر ٹیکس عائد ہوگا، نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح 100 سے بڑھا کر 200فیصد کردی گئی ہے اور ایل پی جی کے فی میٹرک ٹن یونٹ پر 30 ہزار روپے لیوی عائد کرنے کی ترمیم بھی منظور کرلی گئی،
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ پٹرولیم مصنوعات پر اس وقت لیوی صفر ہے، حکومت نے قومی اسمبلی کو اختیار دے رکھا ہے اور پچاس فیصد پر لیوی یکمشت عائد نہیں کی جائے گی ۔اپوزیشن اراکین مولانا عبدالاکبر چترالی، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، وجیہہ قمر، ڈاکٹر رمیش کمار اور جویریہ ظفر آہیر نے بل کو مسترد کیا تو وزیر مملکت عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ مالی بل میں کی جانے والی ترامیم آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت پاکستان کے معاہدے کے مطابق ہیں۔ اگر یہ ترامیم نہ کرتے تو اس سے حکومت پاکستان کی ساکھ متاثر ہوتی۔ بجٹ میں کم آمدنی والے طبقے کو ٹیکسوں میں ریلیف دیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ حکومت فی الحال پٹرولیم لیوی عائد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ۔ مالی بل میں ترمیم کے بعد حکومت ایک روپے سے لے کر پچاس روپے فی لیٹر تک پٹرولیم لیوی عائد کر سکتی ہے۔ بعد ازاں اسپیکر نے یہ ترامیم ایوان میں پیش کیں۔ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی ترامیم کثرت رائے سے مسترد جبکہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور حکومتی اراکین کی جانب سے پیش کی گئی بعض ترامیم منظور کرلی گئیں۔ قومی اسمبلی سے مالی سال 2022-23 کے لیے وفاقی بجٹ ( فنانس بل) کی کثرت رائے سے منظوری کے بعد اب معاشی اصلاحات اور نئی ترامیم کا اطلاق ہوگا لیکن ہم ایک بارپھر کہنا چاہیں گے کہ حکومت معاشی اصلاحات کے لیے کام کرتے ہوئے اُن تمام پیچیدگیوں کو مدنظر رکھے جو اُن اصلاحات کے نتیجے میں سامنے آسکتی ہیں،
فی الحال پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمت میں ایک سے زائد بار اضافہ کرکے، یعنی ان متذکرہ مصنوعات پر سبسڈی ختم یا کم کرکے براہ راست عوام پر معاشی بوجھ لاد دیاگیا ہے اور تواتر کے ساتھ مزید آزمائشوں کی نوید بھی دی جارہی ہے مگر حال ہی میں سپرٹیکس کے نفاذ سے حکومت نے عوام کے ہمیشہ چبھتے سوال کا جواب دے دیا ہے ، اِس وقت سارا ہی مسئلہ عام آدمی کا ہے، معیشت کی زبوں حالی کا ہر پاکستانی کو علم ہے، لیکن بتدریج سبسڈی ختم کرنا تب زیادہ بہتر ہوتا جب اتنی ہی آمدن ہر گھر کی بڑھادی جاتی تاکہ عوام کا سامنا کرتے ہوئے جواز فراہم کیا جاتا کہ اگر بجلی، گیس اور پٹرول مہنگا کیاگیا ہے تو فلاں مد میں اُس کے برابر یا قریب قریب ریلیف بھی دیا گیا ہے،
اگرچہ حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مد میں دو ہزار روپے مخصوص آمدن والے افراد کو دینے کا اعلان کیا ہے لیکن دیکھا جانا چاہیے کہ کیا یہ رقم لوگوں کے معاشی مسائل کم کرنے کے لیے کافی ہوگی؟ دہائیوں سے مالی مصائب میں گرفتار عام پاکستانی جو غربت کی لکیر سے نیچے جارہے ہیں اور متوسط اب اُن کی جگہ لے رہے ہیں، یہ معاشی تنزلی درحقیقت معاشی ناہموار کا واضح اور منہ بولتا ثبوت ہے، جو ہماری معاشی پالیسیوں اور ماضی کے بے ڈھنگے فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ رواں مالی سال میں بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا اعلان کیا ہے، سرکاری ملازمین جن کی تنخواہ ہر سال بجٹ میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور بسااوقات ان کی مطالبے پر بھی مراعات وغیرہ بڑھائی جاتی ہیں،
لیکن اصل مسئلہ اُن پاکستانیوں کا ہے جو غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں اور سرکاری ملازم بھی نہیں ہیں اور ان کی روٹی روزی یومیہ اُجرت یا نجی شعبے کی ملازمت سے جڑی ہوئی ہے، آج پٹرول، بجلی اور گیس مہنگی ہونے سے سب سے زیادہ یہی طبقہ متاثر ہوا ہے کیونکہ نہ تو اِس طبقے کی آمدن بڑھتی ہے اور نہ ہی بڑھانے کے لیے حکومتی سطح پر تدابیر کی جاتی ہیں اور انتہائی ادب کے ساتھ ہم گذارش کرنا چاہیں گے کہ اس بجٹ میں بھی متوسط طبقے کے لیے کوئی خاص ریلیف فراہم نہیں کیا گیا ماسوائے اس کے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ تنخواہ دار طبقے کو بھی ٹیکس سلیبز اور ٹیکس کی حد میں چھوٹ دی گئی ہے لیکن ارباب اختیار پر واضح رہنا چاہیے کہ جنہیں چھوٹ دی گئی ہے ان کی تعداد انتہائی کم ہے اور دیکھا یہی گیا ہے کہ مہنگائی اور معاشی خرابی کے اثرات اِنہیں زیادہ متاثر نہیں کرتے،
یوں اس بجٹ میں جو طبقہ سب سے زیادہ نظر انداز ہوا اور مزید قربانیوں کے لیے بھی اسی طبقے کو منتخب کیاگیا ہے جیسا کہ وزیراعظم اور اُن کی معاشی ٹیم کی جانب سے ایک سے زائد بار عندیہ بھی دیاگیا ہے کہ اِسی طبقے پر مزید بوجھ پڑنے والا ہے ،فنانس بل میں پٹرولیم لیوی کی وصولی کی منظوری دی گئی ہے۔ تیل اور گیس پر لیوی کی مد میں زیادہ محصولات نے مہنگائی میں اضافہ کرنا اور متوسط طبقے نے اس بوجھ کا سہنا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ مثبت اور بروقت بعض اقدامات کے بعد اگر قربانی دینے والی عوام سے مزید قربانی مانگی جاتی تو یقیناً آج لوگوں کا مہنگائی کے حوالے سے سخت ردعمل نہ ہوتا
لہٰذا حکومت کی معاشی ٹیم کو کوئی ایسی راہ تلاش کرنا پڑے گی جس پر چلنے کی صورت میں متوسط اور غریب طبقہ معاشی مشکلات سے باہر نکل سکے اور بعض حکومتی شخصیات کا کہنا ہے کہ وہ حالیہ اصلاحات کے بعد عام شہریوں یعنی اپنے ووٹرز کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں۔ حکومت ٹیکس نیٹ بڑھائے، پبلک ٹرانسپورٹ بڑھائی جائے تاکہ لوگ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود کم سے کم متاثر ہوں اِس لیے مزید مہنگائی اور آزمائشوں کے عندیہ دینے کی بجائے زمینی حقائق اور عام پاکستانی کی  معاشی صورتحال کو ایک بار ضرورمدنظر رکھاجائے کیونکہ جمہوری طاقتوں نے بالآخر عوام سے ہی رجوع کرنا ہوتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button