Editorial

’’امپورٹڈ ‘‘ حکومت تو چین مدد گار کیوں؟

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ امیروں کے ٹیکسوں پر نظرثانی کر رہے ہیں، صاحب حیثیت کی کل آمدنی پر تاریخ میں پہلی بار ٹیکس لگائیں گے، حکومت 14 ماہ پورے کرے گی،چین اور سعودی عرب کب تک ہماری مدد کریں گے، ہمت کرکے وہ فیصلے کرنا ہوں گے جن سے ملک خوشحالی کی جانب گامزن ہو،آئی ایم ایف نے نئی شرط نہ لگائیں تو معاہدہ طے ہوگیا ہے،پی ٹی آئی حکومت نے چین اور عالمی ادارے کو ناراض کیا، معاہدے پر عمل نہ کرکے اعتبار ختم کیا۔دوسری طرف وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ غریب افراد پر ٹیکس کا بوجھ نہیں ڈالا، امیروں پر ٹیکس لگارہے ہیں، ہم ساری ساری رات بیٹھ کر آئی ایم ایف سے بات کرتے ہیں اسی وجہ سے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔
وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف اور وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی گفتگو پر مزید بات کرنے سے پہلے ہم چین سے ہوئے معاہدوں کے اثرات پر بات کرنا ضروری سمجھتے ہیں ، ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان کے چینی بینکوں کے کنسورشیم سے 2.3ارب ڈالر معاہدے کے بعد ایکسپورٹرز میں بے چینی ،زیادہ قیمت حاصل کرنے کے لالچ میں روکے گئے ڈالر مارکیٹ میں آنا شروع ہوگئے ہیں اور مارکیٹ ذرائع کے مطابق جمعرات کو ایکسپورٹرز نے قریباً 22 کروڑ ڈالر مارکیٹ میں فروخت کئے جس سے ڈالر کی قیمت میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی اور توقع کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں روپے پر دبائو میں مزید کمی آئے گی،ڈالر کی قیمت میں نمایاں کمی کے بارے میں فاریکس ایسوسی ایشن نے بھی رپورٹ پیش کی ہے۔ ملکی معیشت سے متعلق مثبت خبروں کے نتائج سامنے آنے لگے ہیں اور پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھنے سے مارکیٹ میں زبردست سرگرمی،
کے ایس ای100انڈیکس میں 259 پوائنٹس کا اضافہ، 67.72 فیصد کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت بڑھی، سرمایہ کاری مالیت میں 43 ارب 21 کروڑ 3 لاکھ روپے کا اضافہ ہوا اور کاروباری حجم بھی 31.34 فیصد زیادہ رہا۔ چین سے معاہدے ہوتے ہی اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رحجان دیکھنے میں آیا اور مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں بھی حیرت انگیز طور پر کمی ہوئی اور توقع کی جانی چاہیے کہ موجودہ حکومت کی معاشی اصلاحات کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں مزید ایسی اچھی خبریں آئیں گی اور معیشت کو اصلاحات سے ٹانک ملے گا، ایک طرف مخلوط حکومت معیشت کی بحالی کے لیے مشکل سے مشکل ترین فیصلے کررہی ہے تو دوسری طرف ان کوششوں کو زائل کرنے یا غیر مفید قرار دینے کا سلسلہ بھی اسی رفتار سے جاری ہے جو یقیناً
افسوس ناک امر ہے اور اِس کی ہر پاکستانی کو حوصلہ شکنی کرنی چاہیے کیونکہ ڈیفالٹ کے قریب پہنچنے کے باوجود بعض سیاسی حریف میثاق معیشت کی طرف آنے کی بجائے معیشت کی بحالی کے لیے ہر کوشش کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں بلکہ ایسی صورتحال چاہتے ہیں جس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے بھلے ملک ڈیفالٹ کے مزید قریب پہنچ جائے بلکہ ماضی کے غلط فیصلوں کے نتیجے پہنچ ہی چکا ہے لیکن بدقسمتی سے ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کی بجائے عقل و سمجھ سے بالا باتیں کرکے قوم کو مایوسی کے اندھیروں دھکیلاجارہا ہے موجودہ حکومت کو ملکی معاملات چلانے کے لیے آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینا پڑی ہے اور ابھی تک آئی ایم ایف سے ایک پائی نہیں ملی، ملک کے انتظامی امور چلانا بھی موجودہ حکومت کے لیے مشکل ہوچکا ہے یہ ساری صورتحال اُس بیانے کی نفی کرتی ہے جس کے مطابق موجودہ حکومت کو مسلط کیاگیا ہے اور اِس کے پیچھے غیر ملکی طاقتوں کا ہاتھ ہے،
اول تو آئی ایم ایف ابھی تک اپنی شرائط پر اڑا ہوا ہے اور ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں جو بلاشبہ بعض سیاسی جماعتوں کے بیانیے کی کھلم کھلا نفی ہے کیونکہ رجیم کی تبدیلی کا بیانیہ درست ہوتا تو آج اِس کے پیچھے موجود غیر ملکی طاقتیں موجودہ حکومت کو معاشی بحران سے کب کا نکال چکی ہوتی، آئی ایم ایف بھی قسط جاری کرچکا ہوتا اور چینی بینک جنہوں نے پاکستان کے ساتھ معاہدے کئے ہیں وہ بھی واضح طور پر معاشی معاہدوں سے انکار کردیتے، قابل غور بات ہے کہ موجودہ حکومت کو عجیب و غریب القاب سے نوازنے والے یہ بتانے سے کیوں قاصر ہیں کہ ان کے بقول موجودہ حکومت کو لانے والے اِس کی مدد کیوں نہیں کررہے، آئی آیم ایف لکیریں نکلوانے کے باوجود پاکستان کو قرض کیوں نہیں دے رہا اور چینی بینک موجودہ حکومت سے کیوں معاہدے کررہے ہیں حالانکہ موجودہ حکومت کے متعلق تو ’’رجیم تبدیلی‘‘ کا بیانیہ پرچار کیا جارہا ہے۔وزیراعظم میاں شہبازشریف کہتے ہیں کہ ہم صاحب ثروت افراد کی نیٹ انکم پر ٹیکس عائد کرنے جارہے ہیں، حکومت میں آنے کے بعد سے متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، رونے دھونے سے کچھ نہیں ہوگا، ہمیں اس قوم کی حالت بہتر کرنے کے لیے اہم اقدامات کرنے ہوں گے،چین سے کہا ہے کہ سی پیک کو بحال کرنا ہے ،
چینی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ہم تیار ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کا کہنا ہے کہ عمران خان نے نئی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھائیں، پٹرول سستا کرنے کے لیے گزشتہ حکومت نے کوئی فنڈنگ نہیں کی۔ خدا اسی قوم کی حالت بدلتا ہے جو اپنی حالت بدلنے کے لئے اٹھ کھڑی ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ معاشی صورتحال میں حکومت مخالف سیاسی طاقتوں کو پاکستان کے مفاد میں اپنے تمام تر سیاسی اختلافات اور رنجشیں ختم کرکے گریٹ ڈائیلاگ یا میثاق معیشت کا حصہ بننا چاہیے، ملک خطرناک دورارہے پر کھڑا ہے، پاکستان کے حالات کو سری لنکا جیسے حالات قرار دیا جارہا ہے، حکومت اس معاشی بحران کو ٹالنے کے لئے مشکل سے مشکل فیصلے کرنے پر مجبور ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں، بجلی کی قیمت بھی بڑھانے کی نوید سنائی جا رہی ہے، گیس کی قیمت میں اضافہ کردیاگیا ہے اور اگر ہم نے معاشی اصلاحات نہ کیں تو ایسے مشکل فیصلوں کا تسلسل جاری رہے گا کیونکہ اِس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ موجودہ حکومت بارہا کہہ رہی ہے کہ سابقہ حکومت نے قرض حاصل کرنے کے لئے آئی ایم ایف کے ساتھ مشکل ترین شرائط مان کر معاہدے کئے اور موجودہ حکومت کو بہرصورت اِن معاہدوں کی پاسداری کرنا پڑ رہی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال سے نکلنے کے لئے مخلوط حکومت کو ہی نہیں بلکہ سیاسی مخالفین کو بھی حکومت کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا، ایک دوسرے کا تماشا دیکھنے کے چکر میں قوم کو تماشا مت بنایا جائے یہی وہ وقت ہے جب ہم نے ملک و قوم کے مفاد میں میثاق کرنا ہے اور مل کر اِس بحرانی کیفیت سے ملک و قوم کو نکالنا ہے وگرنہ ایسے تمام کردار تاریخ میں ناقابل معافی رہیں گے جو موجودہ سنگین معاشی صورتحال میں تالیاں بجاکر خوشی کا اظہار کررہے ہیں اور عوام معاشی مسائل کی وجہ سے مسلسل پس رہی ہے۔ سیاسی قیادت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ حالات انتہائی خطرناک دورارہے پر ملک و قوم کو لیکر جارہے ہیں، حکومت کوشاں ہے کہ عام آدمی کی بجائے صاحب حیثیت افراد پر معاشی بوجھ منتقل کیا جائے تاکہ عام پاکستانی پر کم سے کم معاشی بوجھ آئے، ماضی کے ادوار میں حکومتوں نے جو غلطیاں کیں اور بروقت فیصلے نہ کئے،
اب ان غلطیوں کے ازالے کا وقت ہے اور اِس کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں، فی الوقت پوری قوم کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہونا چاہیے کہ ’’پہلے ریاست پھر سیاست‘‘، یہی بات وزیراعظم میاں شہبازشریف نے کہی ہے اور یہی ہم پہلے بھی بات کرچکے ہیں کہ اِس وقت سیاست کو نہیں بلکہ ریاست کو بچانے کی ضرورت ہے، عالمی ادارے اور معیشت پر تبصرہ کرنے والے مبصرین ہمارا سری لنکا کے ساتھ موازنہ کرنا رہے ہیں یہ صورتحال ہر پاکستانی کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے اور ہے بھی۔ یہ وقت ماضی کی غلطیوں کو زبان عام کرنے کا نہیں بلکہ موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے اجتماعی کوششوں کا ہے۔ وزیراعظم میاں شہبازشریف کی اِس بات سے ہم اپنی بات سمیٹتے ہیں کہ ہم اگر فیصلہ کرلیں کہ تاریخ کا رخ موڑنا ہے تو خدا بھی مدد کرے گا، ہم کب تک چین سے مانگتے رہیں گے، سعودی عرب کب تک ہماری مدد کرے گا؟ ہم کب تک اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے؟ پہلے ریاست ہے اور بعد میں سیاست، اگر خدانخواستہ ریاست کو کچھ ہوا تو سیاست بھی نہیں رہے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button