Ali HassanColumn

 شفاف انتخابات کس طرح ممکن ہیں ؟ .. علی حسن

علی حسن

پاکستان کے دو ادوار میں رہنے والے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ1970 کے بعد سے ہونے والے تمام انتخابات کی شفافیت پر انگلیاں اٹھتی رہی ہیں۔ اس لیے الیکشن کمیشن کو شفاف انتخابات کرانے کے اقدامات کرنا چاہیے۔ شاہ محمود پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے ادوار میں وزیر خارجہ اور جنرل ضیا الحق کے دور میں ملتان ضلع کونسل کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔ انہوں نے کئی انتخابات میں حصہ لیا ہے، اس لیے ان کی گواہی مستند تصور کی جا سکتی ہے۔ وہ 1970 میں والے عام انتخابات کے بعد کی بات کرتے ہیں،حالانکہ 1970 میں منعقد ہونے والے انتخابات بھی دھاندلی سے پاک صاف اور شفاف نہیں تھے۔ اس دور کے اخبارات کو دیکھا جائے تو نواب زادہ نصر اللہ خان کا بیان نظر آئے گا جس میں انہوں نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ انتخابات کے انعقاد کا عمل دھاندلی سے پاک اور شفاف نہیں تھا۔

انتخابات کے بعد اس وقت کے مشرقی پاکستان کے سیاسی رہنما شیخ مجیب الرحمان کا انٹر ویو اخبارات میں شائع ہوا ، وہ فرماتے تھے ہم نے لڑکا لوگ ( ان کی مراد عوامی لیگ کے کارکنان تھی )سے پوچھا ، الیکشن کیسا جا رہا ہے، اس لوگ نے جواب دیا کہ سو فیصدی ہمارے حق میں ہے۔ ہم نے کہا کہ کم از کم بوڑھے کی سیٹ تو چھوڑ دو۔ سابق مشرقی پاکستان میں قومی اسمبلی کی 162 نشستیں تھیں ، ان میں سے 160 نشستوں پر شیخ مجیب کی جماعت عوامی لیگ کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی لیکن اس کے باوجود انہیں اقتدار منتقل نہ کیا گیا ۔ بوڑھے سے ان کی مراد نور الامین تھے۔ دوسری نشست پر راجہ تری دیو رائے نے کامیابی حاصل کی تھی۔ راجہ جی چکمہ قبائل کے سربراہ تھے۔ یہ دونوں حضرات پاکستان کے حامی اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد اس وقت کے مشرقی پاکستان سے کالعدم مغربی پاکستان جو آج کا پاکستان ہے، آگئے تھے ۔

یہ بھی پڑھیے

ویسے پاکستان کے قیام سے ہی انتخابات میں مداخلت اور دھاندلی کا عمل دخل رہا ہے۔ 1948 میں ہونے والے انتخابات میں سندھ سے ایک نشست پر جی ایم سید اور قا ضی محمد اکبر کے درمیان مقابلہ ہواتو قاضی محمد اکبر کو کامیاب قرار دیا گیا تھا۔ جی ایم سید، ان کے نامزد چار امیدواروں کو لیگ کا ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے لیگ سے سخت ناراض تھے اور انہوں نے اپنے امیدوار مقابلے میں کھڑے کر دیے تھے ۔ لیگ نے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ناتجربہ کار قاضی محمد اکبر کو نامزد کیا ۔ ان کے انتخابی ورک کے لیے علی گڑھ یونی ورسٹی سے طلباء کا ایک بڑا جتھہ سندھ آیا ۔ انتخابی نتا ئج کے بعد جی ایم سید نے الیکشن ٹربیونل میں مقدمہ دائر کر دیااور نتیجے میں قاضی اکبر کا الیکشن دھاندلی اور مداخلت کی بنیاد پر کالعدم قرار دے دیاگیا، اس فیصلہ کے نتیجہ میں سندھ میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پیر الٰہی بخش کی وزارت اعلیٰ بھی ختم کر د ی گئی تھی۔

ایوب خان کا1964میںہونے والے صدارتی انتخاب بھی دھاندلی کی شکایات سے بھر پور تھا۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ان کے مقابلہ میں پاکستان کی صدارت کی امیدوار تھیں۔ ڈھاکہ اور کراچی سے انہوں نے ایوب خان کے مقابلہ میں زیادہ ووٹ حاصل کئے لیکن کئی شہروں سے شکایات موصول ہوئیں کہ ووٹروں سے ووٹ خریدے گئے یا انہیں لالچ دے کر ووٹ حاصل کئے گئے۔ ملک میں تین مواقعوں پر جنرلوں نے اپنے اقتدار کو قانونی شکل دینے کے لیے ریفرنڈم کرائے لیکن تمام ریفرنڈم کے بارے میں شکایات تھیں کہ ان میں شفافیت کا پہلو نمایاں نہیں تھا۔ اس کے بارے میں الیکشن کمیشن کو بھی مورود الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔

1977کے انتخابات کے دھاندلی کی بنیاد پر وقت کے حکمران ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نظام مصطفیٰ کے نفاذ کو بنیاد بنا کر تحریک بنائی گئی جس کا نتیجہ مارشل لاء کے نفاذپر نکلا۔1985 میں انتخابات سیاسی جماعتوں کے بغیر کرائے گئے اور پاکستان پیپلز پارٹی نے بائی کاٹ کیا ۔ 1988کے انتخابات جنرل ضیاء الحق کو پیش آنے والے حادثہ کے بعد کرائے گئے ۔ ان انتخابات کے نتیجے میں مرحومہ بے نظیر بھٹو بر سراقتدار آئیں لیکن لیگ کی طرف سے نواز شریف نے انتخابات کے بارے میں دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا۔ بعد میں ہونے والے ہر انتخاب کے نتائج کے بارے میں ایک دوسرے کے خلاف دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے ۔ ایک موقع پر تو انتخابات کو انجینئرڈ کرنے کا الزام بھی عائد ہوا ۔ 2018 کے انتخابات کے بعد تو وزیر اعظم عمران خان کو ان کے سیاسی مخالفین سلیکٹڈ پکارتے تھے ۔ الیکشن کمیشن کے سربراہ اور اراکین کو اصولاً دھاندلی کا الزام لگنے کے بعد سپریم کورٹ کی مدد سے تحقیقات کرانا چاہیے اور اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جانا چاہئے۔

الزام در الزام نے پاکستان کی سیاست کو شدید طور پر آلودہ کر دیا ہے۔ کسی انتخابات کے بعد سیاسی نظام میں پائی جانے والی آلودگی کو کسی طور پر ختم نہیں کیا جا سکا ۔ سارے ہی سیاست دانوں کو اقتدار کی پگ ڈنڈیوں پر چلنا گوارا ہے لیکن ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنا عزیز نہیں۔ 1970 میں ہونے والے انتخابات کے بعد تو ایسا ہی ہوا تھا جس کی وجہ سے ملک دو لخت ہو گیا تھا۔ یہ بہت ضروری ہے کہ انتخابات میں کوئی بھی غیر سیاسی قوت کسی انداز میں بھی مداخلت نہ کرے اور سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے بارے میں الزام تراشی کی بجائے کھلے دل سے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنا چاہیے اور انتخابی نتائج کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومت کو کام کرنے کا بھر پور موقع دینا چاہیے ۔ اس ملک میں جمہوریت اسی طریقہ سے پنپ سکتی ہے، مستحکم ہو سکتی ہے۔ ہر انتخاب کے بعد کیا جانے والا دھاندلی، مداخلت وغیرہ پر مبنی واویلا غیر سیاسی قوتوں کو کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ سیاسی عناصر کسی طرح بھی مطمئن نہیں ہوتے۔ عدم اطمینان کا یہ رجحان ہی ماضی میں ماورائے آئین حکومتوں کے قیام کا سبب بنتا رہا ہے۔ اگر سیاسی دان یہ سمجھتے ہیں کہ غیر آئینی حکومت قائم کرنے والے عناصر صرف تماش بینی ہی کرتے رہیں گے تو یہ کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button