Column

غیر جانبدار …. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

کیا واقعی جانور غیر جانبدار ہوتا ہے؟یہ ایک عجیب سا سوال ہے اور اگر اسے وزیراعظم کے حالیہ بیان کے پس منظر میں دیکھیں اور وائلڈ لائف کی مثال کو سامنے رکھیں تو وزیر اعظم کا بیان غیر منطقی لگتا ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں وائلڈ لائف سے متعلقہ ایک ویڈیو بہت زیادہ وائرل رہی ہے ۔ اس ویڈیو میں جنگل کی رانی شیرنی ایک جنگلی بھینسے کا شکار کرنے کی کوشش کرتی ہے تو بھینسوں کا پورے کا پورا ریوڑ ہی شیرنی پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور جو حالت شیرنی کی ہوتی ہے،وہ اس ویڈیو سے واضح ہے۔شکاری ،شکار کرتے کرتے ، خود شکار ہو کر اپنی پسلیاں تڑوا بیٹھتا ہے،تسلیم کہ شکار کرتے ہوئے خطرہ طرفین کو لاحق رہتا ہے اور کبھی کبھارشکاری کو شکست بھی ہو جاتی ہے۔لہٰذا یہ کہنا کہ جانور غیرجانبدار ہوتا ہے ،مناسب نہیں کہ جانور بھی اپنی کمیونٹی پر ہونے والے حملے،اورجان بچانے کے لیے اکٹھے اور جانبدارہو جاتے ہیں،لیکن جس پس منظر میں عمران خان نے جانوروں کی غیر جانبداری کا اظہار کیا ،وہ قدرے مختلف ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے ،اچھے برے ،غلط صحیح کی تمیز رکھتا ہے،اپنی رائے رکھتا ہے اور اس کے اظہار میں آزاد بھی ہے۔ اس پیرائے میں عمران خان کے مو ¿قف کو دیکھا جائے تو اس کی صداقت سے انکار نہیں لیکن کسی بھی کھیل کو مروجہ اصولوں ،قواعدو ضوابط کے مطابق کھیلنے سے ہی مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ عمران خان کا اشارہ درحقیقت کس طرف ہے اور کون نہیں جانتا ،کون نہیں مانتا کہ جس شخصیتادارے کو یہ بات کہی جا رہی ہے،ہر سیاستدان اقتدار سے باہر اسی چیز کا مطالبہ کرتا نظر آتا ہے،جو موجودہ صورتحال میں سب کے سامنے ہے کہ اپوزیشن ساڑھے تین سال سے غیر جانبداری کا تقاضا اور حکومت ایک پیج پر ہونے کا مسلسل دعویٰ کر رہی ہے۔اصولی طور پر ہونا تو یہی چاہیے کہ متعلقہ شخصیت یا ادارے کو پارلیمانی طرز سیاست میں کسی بھی طور سیاسی شخصیات کی طرف داری سے گریز کرنا چاہیے اور سیاست کے کھیل کو اس کے مروجہ اصولوں کے مطابق جاری رکھنا چاہیے لیکن پاکستان میں یہ ممکن نہیں رہا اور بدقسمتی سے تمام سیاستدانوں کی نظریں اسی طرف اٹھتی ہیں کہ نظرکرم کس طرف ہے تا کہ اس کے مطابق اپنا لائحہ عمل طے کیا جائے۔

پاکستانی سیاست دانو ں کا حال اس وقت وائلڈ لائف حیسا ہو چکا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں عوام و منشور سے لاتعلق ہو کر صرف اقتدارکے حصول میں کوشاں ہیں کہ کسی طرح بھی اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو سکیں۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ امپائر اس وقت غیر جانبدار ہے،لیکن کیا واقعی امپائر غیر جانبدار ہے یا صرف اپوزیشن کو محسوس ہو رہا ہے یا اپوزیشن ہم جیسے سیدھے سادھے عوام کو باور کروانا چاہ رہی ہے؟حالانکہ یہی اپوزیشن ہے کہ جس کے بقول ان کی اجازت کے بغیر کوئی بھی تبدیلی ممکن ہی نہیں اور دوسری طرف قاف لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا کا بیان کہ ہماری جماعت ریاست کے ساتھ ہے، گو کہ کامل علی آغا نے ریاست کے متعلق لب کشائی نہیں کی اور نہ ہی واضح نشاندہی کی لیکن اتنا ضرور کہا ہے کہ ریاست کے متعلق سب جانتے ہیں ۔مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ پاکستانی سیاسی نظام کا لائحہ عمل جس ماخذ سے نمودارپھوٹتا ہے سیاسی جماعتیں سورج مکھی کے پھول کی مانند اپنا رخ ادھر موڑ دیتی ہیں،اس سے تو یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی سوچ انتہائی محدود اور ذاتی و آزادانہ حیثیت میں ملک و قوم کی رہنمائی کرنے قاصر ہیں ۔ یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ ہمارے نظام نے سیاسی قیادت کو اس سے زیادہ سوچنے کی آزادی ہی نہیں دی اور وہ دل و دماغ سے اس حقیقت پر قائل ہو چکے ہیں کہ جمہوری عمل میں حکومت سازی میں کہیں بھی عوامی حمایت کی اہمیت نہیں؟اس سوچ کے پروان چڑھنے میں جہاں ماضی کے تلخ واقعات کا بھرپور ہاتھ ہے، جس نے سیاسی قیادت کو ہتھیار ڈالنے کی اداسکھائی ہے، سمجھوتہ کے علاوہ اس آسان راستے کے خلاف مرچکی مزاحمت بھی ہے اور آمریت کے سائے میں پروان چڑھی سیاسی قیادتیں بھی ہیں،جن کا مرکز و محور صرف اور صرف ذاتی مفادات تک محدود ہو چکا ہے۔کہیں اِکا دُکا ایسی شخصیات بھی بہرطور موجود ہیں کہ جن کی نظر عالمی سیاسی منظر نامے پر بھی ہے لیکن بدقسمتی سے بحیثیت مجموعی ان تمام تر امور پر سیاسی قیادت سمجھوتہ کر کے خود کو ان چیزوں سے دور رکھ رہی ہے کہ جن کا کام انہی کوساجھے،یوں اپنی لگامیں برضا و برغبت کسی اور کے ہاتھوں دے چکی ہے۔
یہاں تک اتحادیوں کی سیاست بڑی واضح ہے کہ ان کا مستقبل میں لائحہ عمل کیا ہو سکتا ہے البتہ درون خانہ مفاہمت یا غیرجانبداری ختم ہونے کا امکان کسی بھی طور خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا یا تیسری صورت ملک کو پھر ماضی میں دھکیل سکتی ہے۔پاکستان میں تیسرے امکان کو خیر کسی بھی صورت خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتااور جو لائحہ عمل خود حکومت اپنانے جا رہی ہے،وہ اس امکان کو حقیقت کا روپ دینے میں اہم ترین کردار ادا کر سکتا ہے کہ ماضی میں ایسی روایات بہر طور موجود رہی ہیں۔حکومت کی بنیادی ذمہ داری ملکی امن و امان کو یقنی بنانا ہوتاہے لیکن موجودہ حکومت خود امن و امان کے خلاف جانے کی تیاریوں میں ہے اور آئینی معاملات کو سڑکوں پر گھسیٹ کر معاملات پارلیمان سے باہر لا رہی ہے۔ تحریک عدم اعتماد سے قبل کئی ایسے مواقع آ چکے ہیں جہاں حکومتی شکست یقینی رہی ہے لیکن”معجزاتی طور“ پر حکومت اس میں سرخرو رہی ہے،جس پر حکومت ہمیشہ فخر کا اظہار کرتی رہی ہے لیکن تحریک عدم اعتماد پر حکومت کو یہ شدید تراحساس ہو رہاہے کہ اس مرتبہ ”معجزہ“ برعکس ہو رہا ہے،جس پر وزیر اعظم نے غیر جانبداری پر جو الفاظ کہے ہیں،ان کا صحیح پس منظر یقینی طور پر ان کی نظر میں بھٹو مرحوم کے یو این او اجلاس میں کہے گئے الفاظ ہونگے لیکن بھٹو نے جس سیاق و سباق اور جن سامعین کو یہ الفاظ کہے تھے،کیا عمران خان کے الفاظ بعینہ انہی حالات اور سامعین کے لیے کہے گئے ؟مجھے یہ اعتراف ہے کہ عمران خان کے اقوام متحدہ میں ،رسالت مآبﷺ اور دفاع پاکستان کے حوالے سے ،کہے گئے الفاظ سو فیصد برمحل،سیاق و سباق کے عین مطابق اور متعلقہ سامعین سے کہے گئے اور ان الفاظ کے نتیجے میں عالمی برادری کے سرکردہ رہنماو ¿ں کے قائل ہونے کا اظہار روسی صدر پوتن اور کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈر نے کیا بھی،اور اس کے بعد اقوام متحدہ نے اسلامو فوبیالڑائی کے خلاف15مارچ کا دن مختص کر دیا ۔ دنیا میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کے خلاف عمران خان کی یہ ایک بڑی کامیابی ہے،جسے عالم اسلام میں قدر کی نگاہ سے دیکھا اور سراہا جا رہا ہے لیکن مکرر عرض ہے کہ سیاق و سباق ،سامعین اور بھٹو کے الفاظ کو ذہن میں رکھتے ہوئے،اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسان بطور اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے غیر جانبدار رہے۔ انسان کی غیر جانبداری اصولی طور پر اچھے یا برے،غلط یا صحیح کے معیار پر ہونی چاہیے ،جانبداری کا معیار اگر بزعم خود صرف یہ ہو کہ حق ہے مابدولت کا فرمایا ہوا،تو اس پر بہر طور اختلاف ممکن ہے۔ ایسی صورت میں لازم ہے کہ انسان اپنے اعمال پر رجوع کرے اور یہ دیکھے کہ کسی بھی طاقت کی حمایت حاصل کرنا صرف میری خواہش ہے یا واقعتا اختلاف رائے رکھنے والا ٹھیک کہہ رہا ہے؟تحریک عدم اعتماد پرجو صورتحال سامنے آ رہی ہے،اس میں فریقین کی تشریح و دعوے انتہائی مختلف ہیں اور پاکستانی سیاست کو ملحوظ رکھیں تو یہ حقیقت واضح ہے کہ طاقتوروں کا یہ کہنا کہ وہ غیر جانبدار ہیں،درحقیقت حزب مخالف کی حمایت پر عکاسی کرتا ہے کہ یہی ہمارے سیاسی کلچر کی تلخ حقیقت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button