Column

حقوق اطفال اور ہمارا کردار …. مظہر چودھری

مظہر چودھری
ہمارے ہاں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں معمول کی بات ہیں لیکن میڈیا و سول سوسائٹی اورحکومت وریاست صرف اس وقت تھوڑا بہت حرکت میں آتے ہیں جب بچوں سے زیادتی یا گھریلو تشدد کا کوئی بہت سنگین واقعہ رونما ہوتا ہے۔ انتہائی سنگین نوعیت کے واقعات کے بعد بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم سرکاری و غیر سرکاری ادارے سکولوں اور گلی محلہ کی سطح پر آگاہی مہم چلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن تھوڑا وقت گذرنے کے بعد ان اقدامات کو جوں کا توں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پاکستان ان اولین 20ملکوں میں سے تھا جس نے 1990ءمیں اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے کنونشن کی توثیق کی لیکن بدقسمتی سے ملک میں اب تک بچوں کے حقوق کے تحفظ کی مجموعی صورتحال میں کوئی نمایاں بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔صحت اورتعلیم سمیت دیگر بنیادی حقوق کے حوالے سے پاکستان میلینیم ڈویلپمنٹ گولز2015ءکے زیادہ تر ترقیاتی اہداف پورے کرنے میںبھی ناکام رہا ہے۔ اب پاکستان کومیلنیم ڈویلپمنٹ گولز2030کے تحت2030تک بچوں کے حقوق کے حقوق کے حوالے سے کئی ایک اہداف مکمل کرنے ہیں جن میں بچوں پر تشدد کے مکمل خاتمے جیسا مشکل ہدف بھی شامل ہے۔
ہمارے ہاںبچوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اٹھائے گئے ناکافی اقدامات کے باعث بچوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں محنت و مشقت(چائلڈ لیبر) کرنے پر مجبور ہے ۔پاکستان میں بچوں سے محنت و مشقت سے متعلق 23سالہ پرانے اعدادوشمار دستیاب ہیں جن میں گھروں میں کام کرنے والے بچوں سمیت بدترین اقسام کی چائلڈ لیبر شامل ہے ۔1996میں کیے گئے سروے کے مطابق 33لاکھ بچے جبری مشقت پر مجبور تھے۔ حکومت نے پچھلے سال چائلڈ لیبر سروے کرایا لیکن ابھی اس سروے کے نتائج آنے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اب ایک کروڑ کے قریب بچے جبری مشقت پر مجبور ہیں۔پاکستان میں ڈومیسٹک چائلڈ لیبر کے علاوہ چوڑیاں بنانے ، سرجیکل آلات ، کھیلوں کے سامان اور گہرے پانیوں میں ماہی گیری جیسے خطرناک پیشوں میں بچوں کی ایک بڑی تعداد جبری مشقت کرنے پر مجبور ہے جو بین الااقوامی سطح پر چائلڈ لیبر کی بدترین اقسام میں شمار ہوتی ہیں۔پاکستان میںپانچ سال سے کم عمر کے 40 فیصد(دنیا میں سب سے زیادہ) بچے غذائی کمی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان کے وزن اور قد عالمی معیار سے کافی کم ہیں۔ عالمی ادارے یونیسیف کے مطابق سٹنٹڈ (اپنی عمر سے کم وزن اور قد والے )بچوں کی ایک تہائی تعدادصرف پاکستان میں پائی جاتی ہے ۔جنوبی ایشیا میں پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاںغذائی کمی اور اس سے منسلک امراض کے نتیجے میں سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔
کم عمری اور جبری شادیوں کے رواج سے بھی بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔کم عمری میں شادی کی وجہ سے بچے نہ صرف تعلیم ، صحت ،ترقی ، والدین کے ساتھ رہنے اور تفریح جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں بلکہ انہیں کھیلنے کودنے کے ایام میں ہی ذمہ داریوں کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کم عمری کی شادی کی وجہ سے ایک طرف سکولوں میں پرائمری اور مڈل کے بعد لڑکیوں کی تعداد میں بتدریج کمی دیکھنے میں آتی ہے تو دوسری طرف کم عمری کی شادی دوران زچگی ماﺅں اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کے امکانات بڑھا دیتی ہے۔ کم عمر والدین بچوں کی درست خطوط پر تربیت کرنے کے حوالے سے مکمل معلومات نہیں رکھتے جس کی وجہ سے انہیں بچوں کی تربیت کرنے میں مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 18 سال سے کم عمرلڑکا یا لڑکی بچے تصور ہوتے ہیں اور 18 سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی قانوناً جرم ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سندھ کے علاوہ کسی بھی صوبے میں 18سال سے کم عمر بچیوں کی شادی جرم قرار نہیں دی گئی۔ ہمارے ہاں جنسی زیادتی کے حوالے سے بھی بچوں کے حقوق کی پامالی عام بات ہے۔ بچوں پر جسمانی تشدد اور ناروا سلوک کے حوالے سے بھی ہمارے ہاں صورتحال بہت تشویشناک ہے۔ پاکستان ان 50ممالک میں شامل ہے جہاں پر بچوں پر ہونے والے جسمانی تشدد کو نظر انداز کرنے کے علاوہ اس کی حوصلہ افزائی کی روش بھی موجود ہے۔ ایک طرف گھروں میں والدین بچوں کو راہ راست پر رکھنے کے لیے ہلکی پھلکی ڈنٹ ڈپٹ اور مار پیٹ کو ناگزیر خیال کرتے ہیں تو دوسری طرف ہمارے اساتذہ کی ایک بڑی تعداد بچوں کوکلاس رومز میں نظم و ضبط کی پابندی اور بہتر تعلیمی نتائج کے لیے کسی نہ کسی قسم کی سزاکوضروری خیال کرتے ہیں۔ اگرچہ پنجاب سمیت ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بچوں پر جسمانی تشدد کی ممانعت کا قانون پاس ہو چکا ہے لیکن تلخ حقائق یہ ہیں کہ پنجاب سمیت چاروں صوبوں کے تعلیمی اداروں میں ابھی بھی بچوں کو جسمانی وذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔واضح رہے کہ سکولوں سے بھاگنے والے بچوں کی ایک بڑی تعدادنے جسمانی تشدد سے ہی بھاگ کر سکول چھوڑے ہیں۔پاکستان میں جنسی زیادتی کے حوالے سے بھی بچوں کے حقوق کی پامالی عام بات ہے۔موجودہ حکومت نے مدارس کے طلبہ کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے یکساں تعلیمی نصاب تو شروع کر دیا ہے لیکن وہ مدارس میں بچوں پر جسمانی تشدد کی ممانعت کو یقینی بنانے کے لیے قانون بنانے کی ہمت نہیں کر پائی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سرچ فار جسٹس اور قومی کمیشن برائے حقوق اطفال حکومت پاکستان سمیت بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم فلاحی تنظیموں کی شبانہ روز کوششوں سے پاکستان میں گذشتہ دو تین سالوں میں بچوں کے حقوق کے ضمن میں موثر قانون سازی ہوئی ہے جن میں نیشنل کمیشن فار چائلڈ رائٹ کے قیام اور بچوں کے جنسی استحصال بارے منظور ہونے والے قوانین زیادہ اہم ہیں لیکن بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بہت سے سنگ میل طے کرنے ابھی باقی ہیں۔موجودہ حکومت نے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے ضمن احساس تعلیمی وظائف کے اجرا سمیت چائلڈ لیبر سروے کرانے جیسا اہم کام کیا ہے جو بلاشبہ قابل ستائش اقدامات ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب سمیت دیگر صوبے اپنے طور پر بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آزاد اور فعال صوبائی کمیشن تشکیل دیں تاکہ نہ صرف بدلتے ہوئے حالات وواقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جاسکے بلکہ پہلے سے موجود قوانین پر موثر طریقے سے عمل درآمدیقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جا سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button