Editorial

سول اور عسکری قیادت کی اہم ملاقات

ملک میں عام انتخابات کے نتیجے میں نئی اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ اتحادی حکومت مل کر ملک اور قوم کو مصائب اور مشکلات سے نکالنے کے عزم کا اعادہ کرتی چلی آرہی ہے۔ یہ امر خوش کُن ہے۔ اس کی ضرورت بھی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ چند ایّام میں کچھ اہم فیصلے کیے ہیں، آئی ٹی کے شعبے کے فروغ اور ترقی کے لیے اُن کے اقدامات لائق تحسین ہیں۔ حکومتی اخراجات میں کمی کے لیے کمیٹی کی تشکیل بھی بڑا اقدام قرار پاتا ہے۔ ٹیکس ریکوری کے حوالے سے صورت حال کو مزید بہتر بنانے کا عزم کا اعادہ بھی اہم ٹھہرتا ہے۔ وفاقی کابینہ کو قائم ہوئے ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا، لیکن وہ فعال اور مستعد دِکھائی دیتی ہے۔ خصوصاً وزیر خزانہ خاصے متحرک نظر آتے ہیں۔ وفاقی وزرا کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے اور وہ مل کر مسائل کو حل کرنے کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اگر تندہی اور جانفشانی کے ساتھ نیک نیتی سے ملک و قوم کے مفاد میں فیصلے لیے جائیں تو ضرور صورت حال بہتر رُخ اختیار کرے گی۔ حالات مشکل ضرور ہیں، لیکن ان کا حل ناممکن ہرگز نہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف اور اُن کی کابینہ نے جی ایچ کیو کا اہم دورہ کیا ہے، جس میں سول اور عسکری قیادت نے مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی وزرا کے ہمراہ جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کا دورہ کیا، جہاں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ان کا استقبال کیا۔ عسکری قیادت سے ملاقات میں قومی سلامتی، علاقائی استحکام اور فوجی تیاریوں کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، سول اور عسکری قیادت نے مل کر کام کرنے کا اعادہ کیا۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق جی ایچ کیو میں وزیراعظم کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، شہباز شریف نے یادگارِ شہدا پر حاضری دی اور پھول چڑھائے۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق اس موقع پر عسکری قیادت کے ساتھ قومی سلامتی کے امور اور علاقائی استحکام پر گفتگو کی گئی، عسکری قیادت نے وزیراعظم اور کابینہ ارکان کو سیکیورٹی صورت حال، خطرے کے اسپیکٹرم، سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے اور انسداد دہشت گردی کارروائیوں پر بریفنگ دی۔ بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم اور کابینہ ارکان نے پاک فوج کی پیشہ ورانہ مہارت، آپریشنل تیاریوں کو سراہا، علاقائی سالمیت کے تحفظ اور امن و استحکام کے لیے پاک فوج کے عزم کو سراہا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت مسلح افواج کی آپریشنل تیاری کو یقینی بنانے کے لیے تمام وسائل فراہم کرے گی، پاکستان عروج پر ہے اور قیام امن کے لیے مسلح افواج کے کردار کو سراہتے ہیں۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے دورے اور فوج پر اعتماد بحال کرنے پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا۔ بیان کے مطابق آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاک فوج قوم کی توقعات پر پورا اترتی رہے گی اور پاکستان کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے میں حکومت کی بھرپور حمایت کرے گی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دورے کے اختتام پر فوجی قیادت نے قومی مفادات کو برقرار رکھنے اور پاکستان کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کا دورۂ جی ایچ کیو انتہائی اہم نوعیت کا تھا۔ سول اور عسکری قیادت ملک و قوم کے مصائب اور مشکلات کے حل کے لیے ایک پیج پر موجود ہیں۔ مل کر کام کرنے کا آمادہ اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ سب سے خوش کُن امر معلوم ہوتا ہے۔ افواج پاکستان ملکی سلامتی اور تحفظ کا ضامن ادارہ ہے۔ پاکستان کی افواج کا شمار دُنیا کی بہترین فوجوں میں ہوتا ہے۔ دشمن جب بھی وطن عزیز کے خلاف میلی آنکھ اُٹھاتا ہے تو اسے ہماری افواج منہ توڑ جواب دیتی ہیں۔ دشمنوں کی کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہونے دیتیں۔ ملک پر جب بھی کوئی مشکل وقت آتا ہے، آفات آتی ہیں تو افواج پاکستان امدادی سرگرمیوں میں سب سے آگے ہوتی ہیں۔ بحالی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتی ہیں۔ ملک و قوم کی خدمات میں افواج پاکستان کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔ امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لیے افواج پاکستان مصروفِ عمل رہتی ہیں۔ ملک میں پچھلے کچھ عرصے سے دہشت گردی کا عفریت پھر سے سر اُٹھا رہا ہے، جس کے قلع قمع کے لیے سیکیورٹی فورسز تندہی سے مصروف ہیں اور انہیں بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ دورہ جی ایچ کیو کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے بھی افواج پاکستان کے کردار کی ناصرف تعریف کی بلکہ اسے سراہا بھی ہے۔ سول اور عسکری قیادت کی یہ ملاقات خاص اہمیت کی حامل تھی اور اس کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ مل کر کام کرنے کا عزم ملک اور قوم کے لیے نیک شگون ہے۔ پاکستان بی پناہ وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ قدرت کے عظیم خزینوں کا حامل ملک ہے۔ ان شاء اللہ وسائل کو درست خطوط پر استعمال میں لاتے ہوئے مسائل کا حل نکالا جائے گا۔ حکومتی اخراجات میں معقول حد تک کمی لائی جائے گی۔ غیر ضروری اخراجات کا خاتمہ کیا جائے گا۔ معیشت کی درستی کے لیے سنجیدہ کوششیں ہوگی۔ یقیناً ان تمام اقدامات کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے اور کچھ ہی سال میں ترقی اور خوش حالی ملک اور قوم کا مقدر بنے گی۔
رمضان کا پہلا ہفتہ، گرانی میں ہوشربا اضافہ
وطن عزیز میں ماہِ صیام میں مہنگائی مافیا پوری طرح عوام کی جیبوں پر بھرپور نقب لگانے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ یہ سال دو سال کی بات نہیں، کئی عشروں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ دُنیا بھر کے ممالک میں وہاں کے مذاہب کے اہم تہواروں اور مواقع پر اشیاء کے نرخوں میں بڑی رعایتیں دی جاتی ہیں، قیمتیں نصف یا اس سے بھی کم کردی جاتی ہے جب کہ پاکستان میں اس کے اُلٹ ہوتا ہے، یہاں تو ہر تہوار کے موقع پر مافیا کی تمام تر توجہ بھرپور کمائی پر مرکوز ہوتی ہے۔ رمضان المبارک میں تو خصوصی طور پر حشر سامانیاں بپا کی جاتی ہیں۔ عوام کو اُلٹی چُھری سے ذبح کیا جاتا ہے۔ ہر شے کے دام آسمان پر پہنچادیے جاتے ہیں۔ پھلوں کی قیمتیں مائونٹ ایورسٹ سر کرتی دِکھائی دیتی ہیں۔ کتنے ہی سال ہوگئے کہ غریب عوام نے افطار میں پھلوں کے استعمال کو ترک کردیا ہے کہ وہ اس مہنگائی کے دور میں اتنے گراں فروٹس خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ پچھلے پانچ سال کی ہوش رُبا مہنگائی نے اب تو روٹی کا نوالہ بھی منہ سے چھین لیا ہے۔ دو تین سال سے سبزیوں کے دام بھی رمضان میں ہوش رُبا حد تک بڑھادیے جاتے ہیں۔ پیاز 300 روپے فروخت ہورہی ہے جب کہ ٹماٹر 200 روپے کلو بیچے جارہے ہیں۔ اسی طرح پھلوں میں خربوزہ، تربوز، کیلے، سیب، امرود، پپیتا وغیرہ کی قیمتیں بھی کئی گنا زائد وصول کی جارہی ہیں۔ سرکاری مقررکردہ نرخوں کو کسی خاطر میں نہیں لایا جارہا۔ مختلف شہروں کے کچھ بازاروں میں روزانہ ہی گراں فروشوں کے خلاف کارروائیاں ہورہی ہیں، لیکن اکثر مہنگی اشیاء غریبوں کو بیچنے میں مصروف ہیں۔ یہ سلسلہ آخر کب تک چلے گا۔ کب متعلقہ ادارے حرکت میں آئیں گے اور حکومتی عمل داری یقینی بنائیں گے۔ مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے اور رمضان کے پہلے ہفتے میں تو اس کی شدّت میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔وفاقی ادارۂ شماریات کی رپورٹ کے مطابق رمضان المبارک کے پہلے ہفتے میں مہنگائی میں 1.35 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے 18 اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، گزشتہ ہفتے کیلے 22 فیصد تک مہنگے ہوئے، ٹماٹر 22 فیصد اور انڈے 7 فیصد سے زیادہ مہنگے ہوئے، پیاز کے نرخ بھی 6 فیصد تک بڑھ گئے۔ لہسن، مٹن، بیف اور مرغی کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے۔ رپورٹ کے مطابق مہنگائی کی سالانہ شرح 32.89 فیصد تک پہنچ گئی، ایک سال میں لہسن کی قیمت 60 فیصد تک بڑھ گئی، سالانہ بنیاد پر ٹماٹر 185 فیصد جب کہ پیاز 90 فیصد مہنگے ہوئے۔ گزشتہ سال کی نسبت گندم کا آغاز 52 فیصد تک مہنگا ہوا، گڑ 41 فیصد، چینی کے دام بھی 37 فیصد بڑھ گئے۔ آخر گرانی کا یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ کب عوام کی دادرسی ہوگی۔ کب اُنہیں مناسب نرخوں پر اشیاء دستیاب ہوں گی۔ کب اشیاء ضروریہ کے دام نیچے آئیں گے۔ یہ تمام سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بیانات سے بڑھ کر اب عوام کی حقیقی اشک شوئی کے لیے راست اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ مہنگائی مافیا کا راستہ روکا جائے۔ دوسری جانب اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کی خاطر منصوبہ بندی کی جائے۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button