Column

ناکامی (Failure)

علیشاہ بگٹی

ایک ایسی کیفیت ہے۔ جس میں کسی معاملے میں مطلوبہ یا ارادی مقاصد حاصل نہ ہوں۔ یہ کامیابی کی ضد ہے۔ کامیابی کے برعکس ناکامیوں کو مکمل طور پر عموماً ڈھکا چھپا رکھا جاتا ہے۔ بلکہ اپنے مقاصد میں ناکام رہنے والے لوگ اپنی ناکامی کا تذکرہ کرنے سے بھی شرمندہ سے رہتے ہیں۔
مگر مشہور سائنسداں ایڈسن نے ایک ہزار سے زیادہ بار تجربات میں ناکام ہو کر آخر بجلی کا بلب بنانے میں کامیاب ہوئے ۔ تو جب ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا: ایک ہزار بار آپ کو ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد آپ کامیاب ہوئے تو آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟ ایڈسن نے جواب دیا: مَیں ناکام نہیں ہوا بلکہ مَیں نے ایک ہزار ایسے طریقے سیکھے ہیں جن سے بجلی کا بلب نہیں بنتا ہے۔
بل گیٹس 1955ء میں امریکہ کے شہر واشنگٹن کے ایک نواحی علاقے کے ایک عام گھرانے میں پیدا ہوا۔ بچپن میں ہی اس کی دوستی کمپیوٹر سے ہوگئی اور وہ کمپیوٹر کی دنیا میں مگن ہوگیا۔ ہر وقت کمپیوٹر میں مگن رہنے کی وجہ سے تعلیمی میدان میں بہت پیچھے رہ گیا تھا، اسے یونیورسٹی سے خارج کر دیا گیا تھا ۔ یونیورسٹی سے نکال دئیے جانے کے بعد اپنے ایک ہم جماعت پال ایلن کے ساتھ مل کر اپنے خواب کو پورا کرنے کا عزم و ارادہ کیا۔ اس نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر ایک خاص پراجیکٹ پر کام شروع کر دیا۔ وہ ایک ایسی خاص زبان ترتیب دینا چاہتا تھا، جس سے کمپیوٹر چلانا آسان ہو۔ دونوں دوستوں نے اپنے اس مقصد کے حصول کی خاطر دن رات ایک کر دیا اور بالآخر اپنی کوشش میں کامیاب ہوگئے اور انہوں نے ایک ایسی زبان تیار کر ڈالی جس کی بدولت کمپیوٹر کی مانگ میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو ملا، جس سے دونوں دوستوں کا حوصلہ بھی بڑھ گیا۔ انہوں نے اس میدان میں اک نیا افق تخلیق کرنے کا پروگرام ترتیب دے ڈالا اور اپنے اس پروگرام کو حتمی شکل دینے کے لیے وہ میکسیکو چلے گئے۔ میکسیکو پہنچ کر انہوں نے مائیکرو سافٹ کارپوریشن کی بنیاد رکھی جس کی چھتری تلے انہوں نے 1975ء میں ایک ایسا سافٹ ویر تیار کیا، جس کے چرچے دنیا کے طول و عرض میں ہونے لگے اور اسے دنیا کے کونے کونے میں خریدا جانے لگا اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ وہ دنیا کا امیر ترین شخص بن گیا۔
معروف فلسفی اور چین کی امیر ترین شخصیت جیک ما تین بار کالج میں فیل ہوا۔30مرتبہ نوکری حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی۔ ہزاروں کو نوکری ملی لیکن وہ تب بھی ناکام رہا۔ ہارورڈ جانے کے لیے دس بار درخواست جمع کرائی۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ نے بھی مسترد کیا لیکن ہمت نہ ہاری۔ آخر میں جیک ما نے 1999ء میں علی بابا ڈاٹ کام ویب سائٹ بنائی اور آج وہ دنیا کے 20امیر ترین انسانوں میں ایک ہے۔
ایڈسن کے جواب سے اس کے مثبت سوچ ، ہمت اور جستجو و لگن کا پتہ چلتا ہے بلکہ یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ زندگی میں آنے والی ہر ناکامی سیکھنے کے لیے ایک سبق ہوتا ہے۔ اگر کوئی انسان ناکامیوں سے نہیں سیکھتا ہے۔ تو پھر کامیابی اس کے لیے ایک خواب ہی رہتا ہے.اس لئے ناکامیوں سے ہمیشہ سیکھنا اور ہر بار ناکامیوں کی وجوہات کو جاننا چاہیے۔ مگر کچھ لوگ ناکامی کی وجوہات کو جاننے کی بجائے ناکامی پر مایوس ہو جاتے ہیں ۔ جبکہ ناکامی پر مایوس ہونے کی بجائے اسے اپنا راہبر ماننا چاہئے۔ کیونکہ ہر ناکامی ، کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔ لیکن اس سیڑھی پر پائوں رکھنا تبھی ممکن ہوتا ہے جب اپنی ناکامیوں سے سیکھتے ہوئے کامیابی کی طرف سفر گامزن رہے ۔ اور ناکامی پر یہ دیکھنا چاہے کہ ایسا کون سا ساتھی، مشورہ منصوبہ یا عمل تھا ؟ جو ناکامی سے ہمکنار کر گیا۔۔.کیونکہ جب کسی بھی چیز کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے تو اس چیز کے اچھے یا برے فیکٹس عیاں ہو جاتے ہیں.پھر یہ بات بھی سامنے آنے لگتی ہے کہ غلطی کہاں اور کس مرحلے پر ہوئی ۔ تاکہ پھر آئندہ پہلے کی جانے والی غلطیوں کو دوبارہ دہرانے سے بچا جا سکے۔ ایڈسن کے جواب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر ناکامی اپنے اندر کامیابی کا ایک پیغام چھپائے ہوتی ہے۔ ایک دانش مند انسان ہی ہر ناکامی میں چھپے اس پیغام کو سمجھتا ہے۔ اور پھر بلاآخر وہ ایک نہ ایک دن اِس ناکامی کو ناکام کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی انسان وہی مضبوط ہوتا ہے جو سو بار گر کر بھی سو بار اٹھے۔۔۔ بقول اس شعر کے
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
ہر شخص اپنی زندگی میں کامیابی کا خواہش مند ہوتا ہے مگر کچھ ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صحیح معنوں میں کامیاب ہو پاتے ہیں جب کہ بیش تر کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟؟ کیونکہ ہم ناکامی کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں،
ناکامی، دراصل آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ مگر انسان میں سب سے بڑا خوف ’ ناکام‘ ہوجانے کا خوف ہوتا ہے۔ اس کی مثال کچھ اس طرح ہے کہ ہرن کے دوڑنے کی رفتار شیر کی رفتار سے زیادہ ہے، اس کے باوجود ہرن اکثر شیر کا شکار بن جاتا ہے۔ کیونکہ ہرن خوف کی وجہ سے بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے کہ کہیں شیر قریب تو نہیں آیا، یہی خوف اور ڈر ہرن کی رفتار پر اثرانداز ہوتا ہے اور بالآخر شیر اس تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ کو کامیاب ہونا ہے۔ تو سب سے پہلے اپنے اندر سے ناکامی کے خوف کو ہرن کی طرح پیچھے موڑ موڑ کر دیکھنے کی عادت کو نکال باہر کرنا ہو گا۔ کیونکہ خوف آپ کی صلاحیت کو غفلت کے پَردوں میں مخفی کر دیتا ہے۔ جس سے آپ کی کارکردگی محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ اور محدود کارکردگی سے لا محدود نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں۔
کسی مقصد میں ناکامی سے بچنے کے لئے محنت و تگ و دو کے سارے مراحل میں خوف کے بعد جو چیزیں سب سے زیادہ رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ اُن میں Frustrationمایوسی soft zoneمیں رہنا ، سستی، مواقع کی کمی، سرمائے اور وقت کا جز وقتی نقصان۔۔، لیکن زندگی میں ہر چیز جو حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
اگر ہمارے سامنے کوئی شخص اپنے کسی منصوبے یا ہدف کا ذکر کرے تو ہم کہتے ہیں یہ آسان تو نہیں۔ یہ تو مشکل کام ہے۔ پھر اگلا انسان ذرا سا مایوس ہونے لگتا ہے۔ سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ اگرچہ مایوس ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ کامیابی یا ناکامی دینے والی ذات رب تعالیٰ کی ہے، ہاں! کچھ ظاہری اسباب و وجوہات بھی ہوتے ہیں کہ اگر ان پر توجہ رکھی جائے تو ناکامی سے کافی حد تک بچا جاسکتا ہے ۔
ناکامی کے چند اسباب یہ بھی ہیں:
(1) منزل کا تعین نہیں۔ اگر منزل کا تعین ہی نہیں تو پھر ناکامی کیسے نہیں ہوگی۔ پھر تو بیکار بھٹکتی زندگی خود ہی ناکامی کی ایک اعلیٰ مثال ہوگی۔ دراصل منزل کا تعین ہی ناکامی سے بچنے کا اسی طرح پہلا نام ہے جس طرح کسی کتاب کا نام ہو۔ اور پھر پوری کتاب اس سرورق موضوع پر لکھ دی جائے۔
(2) مقصد ۔۔۔ زندگی کا کوئی مقصد ہونا چاہے اور مقصد کے تعین میں غلطی سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مثلاً ایک شخص کی دلچسپی کمپیوٹر میں ہے لیکن وہ ڈاکٹر بننے کی ٹھان لیتا ہے تو ناکامی کا ذمہ دار وہ خود ہے۔ پھر مقصد کے حصول کے طریقہ کار میں خرابی سے بچنا چاہیے۔ مثلاً اگر کوئی شخص گاڑیوں کا مکینک بننا چاہتا ہے تو اسے سیکھنے کے لئے کسی ماہر کے پاس جائے اگر وہ شروع میں ہی اپنی ورکشاپ کھول کر لوگوں کی گاڑیوں پر تجربات شروع کر دے گا تو شاید لینے کے دینے پڑ جائیں۔
(3) ناتجربہ کار ہونے کے باوجود تجربہ کار لوگوں سے مشورہ نہ کرنا۔ جو خود کو بڑا ہوشیار سمجھتا ہے ۔ ایک دن وقت اس کو سب سے برا بدھو ثابت کر دیتا ہے۔
(4) کام کرنے سے ہوتا ہے صرف سوچنے سے نہیں، کئی لوگ بڑے بڑے اہداف مقرر کرنے کے بعد سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کرتے کچھ نہیں، ایسوں کو کامیابی کہاں ملتی ہے۔ بلکہ انہی کے لئے تو کہتے ہیں شیخ چلی کے خواب دیکھنا۔
(5) کبھی کبھار کامیابی کے راستے میں وقتی ناکامی کا سامنا بھی ہوتا ہے اس مقام پر کئی لوگ حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں کہ ہم کامیاب نہیں ہوسکتے، غور کرنا چاہئے کہ ہمارے اردگرد وہ لوگ جنہیں ہم کامیاب سمجھتے ہیں کیا انہیں کبھی ناکامی کا سامنا نہیں ہوا اور کیا کامیاب لوگ فوری اور جلدی کامیاب ہوئے۔
(6) استقامت(Perseverance) کا نہ ہونا بھی ناکامی کا ایک بڑا سبب ہے ، راستہ کتنا ہی کٹھن کیوں نہ ہو مگر استقامت کا وصف اپنا کر پار کیا جاسکتا ہے، پانی کے قطرے کو دیکھ لیجئے کہ اگر مسلسل کسی پتھر پر ٹپکتا رہے تو اس میں بھی کچھ نہ کچھ سوراخ کر دیتا ہے ۔
(7) طویل مشقت سے گھبرا جانا۔۔ جبکہ بعض اوقات کامیابی اور ناکامی کے درمیان ایک قدم کا فاصلہ ہوتا ہے لیکن بعض نادان قدم بڑھانے کی بجائے واپس چلنا شروع کر دیتے ہیں اور کامیابی کو خود اپنے ہاتھوں سے دفنا دیتے ہیں ۔
(8) اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو جو صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں، ان پر اعتماد ہونا بہت ضرور ی ہے۔
(9) جسے کوئی کام کرنا ہو اسے اُس کام کی فکر ہوتی ہے لیکن حد سے بڑھی ہوئی فکر مندی بھی (Tension) بن جاتی ہے اور ٹینشن سے بعض اوقات کام بگڑ بھی جاتا ہے کیسی ہی ایمرجنسی کیوں نہ ہو حواس پر قابو رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے ۔
(10) وقت ضائع کرنے والا اگر ناکامی کا سامنا کرے تو اسے حیران نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ جو آج وقت کو ضائع کر دیتا ہے پھر کل وقت بھی اُس کو ضائع کر دیتا ہے۔
(11) مزاج (Mood)موڈ کے تحت چلنا بھی ناکامی کی ایک وجہ ہوسکتی ہے ، جب جی چاہا کام کرلیا ، جب چاہا آرام کرلیا۔ یہ کامیاب لوگوں کا طریقہ کار نہیں۔ چنانچہ موڈ نہیں بلکہ اصول، وقت کی پابندی اور وقت کے صحیح استعمال کے تحت کام کرنا چاہئے.
(12) بہت زیادہ توقعات (Expectations) وابستہ کر لینے والے جب اپنی خواہشات کو پورا ہوتے نہیں دیکھتے تو اعلان کر دیتے ہیں کہ جناب ہم ناکام رہے، بکرے سے گھوڑے کا کام خواب میں تو لیا جاسکتا ہے بیداری میں نہیں۔۔
(13) دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں ان کے مزاج کا سمجھنا اور اس کے مطابق ان سے کام لینا دینا بہت ضروری ہے۔ عزت ، حوصلہ افزائی کسے اچھی نہیں لگتی اگر دوسروں سے کام لیتے وقت حکم نہیں بلکہ درخواست کا طریقہ اپنایا جائے تو وہ شخص آپ کا کام ذوق وشوق سے کرے گا لیکن مزاج شناسی کے فُقدان کی وجہ سے کئی لوگ دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں ۔
(14)ضرورت سے زیادہ کام اپنے ذمے لے لینا بھی ناکام کروا دیتا ہے۔
(15)مخلص لوگوں کی قدر نہ کرنا بھی ناکامی کی ایک وجہ ہے۔
(16) غلطی کی نشاندہی کرنے والے سے ناراض ہوجانے والا اپنے اوپر اصلاح کا دروازہ گویا بند کرلیتا ہے ، اب وہ کھائی میں بھی چھلانگ لگائے گا تو شاید ہی کوئی اس کو روکنے والا ہو ۔
یہ بھی ناکامی کا ایک بہت بڑا سبب ہے ۔جو اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔
(17) اپنی غلطیوں(Mistakes) کو تسلیم کرنے والا آئندہ ان سے بچ سکتا ہے لیکن جو اپنی غلطیوں کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینا شروع کر دے اس کا غلطیوں سے بچنا بہت دشوار ہوجاتا ہے ، پھر وہ ناکامی کا ہی سامنا کرتا ہے ۔
(18) بعض نوجوان ، اچھے عہدہ(Good Post) کے انتظار میں خالی ہاتھ بیٹھے رہتے ہیں ، متبادل نوکری یا کاروبار نہیں کرتے جب ان کی عمر ڈھلنے لگتی ہے تو مایوسیوں کی سائے بھی دراز ہونا شروع ہوجاتے ہیں، پھر وہ اپنی ناکامیوں کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں۔
(19) بعض لوگ وسائل (Resources)کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں، اگر دستیاب وسائل کو دانائی سے استعمال کریں تو وسائل میں اضافہ بھی ہوجاتا ہے اور کامیابی کا سفر بھی شروع ہوجاتا ہے، اگر کوئی یہی خواب دیکھتا رہے کہ کہیں سے میرے پاس کروڑوں روپے آجائیں تو میں ایک فیکٹری بنائوں گا پھر یہ تو شیخ چلی کے خواب دیکھنے والی بات ہوئی۔ جبکہ یہ ہونا چاہئے کہ اپنے پاس موجود رقم سے چھوٹا سا کاروبار شروع کر دیا جائے۔
(20) ناکامی زندگی کا ایک حصہ ایک جزو ہے.۔ ناکام ہونا کوئی گناہ یا جرم نہیں ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مزید محنت اور کوشش درکار ہے۔ ناکامی ایک آئینہ کی طرح ہمارے خد و خال میں پائے جانے والی خامی یا ہماری کارکردگی کی کمی و بیشی کی نشان دہی کرتی ہے۔ یہ ہمیں کام کرنے سے مزید محنت کرنی سے نہیں روکتی ہے۔ بلکہ صحیح سمت میں رہنمائی کرتی ہے۔ خامیوں پر قابو پانا ، زندگی کے بہترین رہنمائے اصول صبر و تحمل اور قوت و برداشت سے حالات کا مقابلہ کرنا سکھاتی ہے۔ اس لئے ناکامی پر غمناک نہیں ہونا چاہئے۔
اگرچہ ناکامی، کامیابی کا زینہ ہوتی ہے مگر ناکام لوگ اپنے مقصد کو پانے کے لیے اُس حد تک لگن اور جوش و جذبے کا مظاہرہ نہیں کرتے جس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں عموماً وقت کا صحیح استعمال محنت اور مستقل مزاجی نہیں ہوتی ہے۔ وہ آرام پسندی اور soft zoneسے باہر نہیں نکلتے۔ وہ خود کو عطا کردہ خداداد صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد نہیں کرتے اور نہ ان صلاحیتوں کو کام میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔ آپ ناکامی کا خوف دل سے نکال دیں، اعتماد کے ساتھ کسی بھی کام کو شروع کریں۔ تو ایک نہ ایک دن آپ ضرور کامیاب ہوجائیں گے ۔ ناکامی، ایک استاد کی طرح ہے جو آگے بڑھنے کا راستہ بتاتا ہے۔۔
کامیاب لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کا مستقبل ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ وہ دوسروں کو الزام دینے کے بجائے اپنی کوشش پر بھروسہ کرتے ہیں اور کامیاب ٹھہرتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں جب تک آپ مقصد و منزل کو پانے کے لئے انتھک جدوجہد نہیں کریں گے۔ مشکلات کا مقابلہ نہیں کریں گے ۔soft zoneکو نہیں چھوڑیں گے ، مطلوبہ مقصد کے کام کو ٹھیک سے وقت نہیں دیں گے۔ دل و جان سے محنت نہیں کریں گے تو پھر کامیابی کیسے ملے گی۔
مگر کبھی بھی ناکامی سے گھبرائیے گا نہیں۔۔ چاہے جتنے دکھ، تکلیف، پریشانی آجائے۔۔ اللّہ پہ یقین ہمیں ہر مشکل سے نکالتا ہے۔۔ رات جتنی گہری کیوں نہ ہو۔۔ صبح روشنی ضرور پھیلتی ہے۔۔ اور نہ ہی کبھی ناکامی اور اپنی ہار سے گھبرائیں۔۔ کیوں کہ ناکام وہی ہوتا ہے، ہارتا وہی ہے جو کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
کبھی ناکامیوں کا اپنی ہم ماتم نہیں کرتے۔
مقدر میں جو غم لکھے ہیں ان کا غم نہیں کرتی۔
اندھیروں کی شکایت کیا اندھیرے پھر اندھیرے ہیں۔
اجالے بھی ستم اس دور میں کچھ کم نہیں کرتے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button