Column

اب ایک اور ڈرامہ

صفدر علی حیدری
یہ مہینا ، احساس کا مہینا ہے ۔ دن بھر بھوکا پیاسا رہ کر انسان کو سمجھ آتی ہے کہ کس طرح وہ سال بھر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں سے مستفید ہوتا ہے اور شکر کرنا تک اسے یاد نہیں رہتا ۔ ایسے میں وہ اللہ کا شکر بجا لاتا ہے مگر شکر کی بہترین صورت یہ ہے کہ اس کے ضرورت مند بندوں کا احساس کیا جائے ۔ ان کی مدد کی جائے ، ان کا خیال رکھا جائے ۔ بھوکے پا پیٹ بھرا جائے ۔ مساکین کا خیال رکھا جائے ۔ اپنے غریب ہمسائے کو سالن کی ازیت سے بچایا جائے ۔ حق ہمسائیگی ادا کیا جائے ۔ غریب رشتہ داروں کو دیا رکھا جائے ۔ ہم پڑھتے آئے ہیں کہ جو کچھ ہمارے پاس ہماری ضرورت سے زیادہ ہے اس میں کسی ایسے کا حصہ ہے جس کی جیب خالی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو ضرورت سے زہادہ بھرا ہوا پیٹ سخت ناپسند اس لیے ہے کہ کچھ لقمے بچا کر کسی غریب کی بھوک مٹائی جا سکتی ہے ۔ روزے کا کفارہ بھی تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا اسی لیے رکھا گیا ہے کہ اس طرح غریب کا پیٹ بھرنے کے اسباب پیدا ہوں گے ۔
وہ کسی کو دے کے آزماتا ہے تو کسی کو کچھ نہ دے کر ۔ اگر دیکھا جائے تو اس کا امتحان زیادہ سخت ہے جس کو اس نے بہت کچھ نواز رکھا ہے ۔ اگر اسے سچ میں احساس ہو جائے تو غریب کو گھر گھر امداد کے لیے رلنا نہ پڑے بلکہ صاحب استطاعت گلی گلی مستحقین کو ڈھونڈتا پھرے ۔ شکر کی بہترین صورت بھی تو یہی ہے کہ اس کی دی ہوئی نعمتوں کو معصیت میں خرچ نہ کیا جائے بلکہ اس کی رائے میں لٹایا جائے مگر افسوس ایسا اکثر صورتوں میں نہیں ہوتا۔ شیخ سعدی نے فرمایا تھا: دانت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعتیں کھا کھا کر گھس گئے مگر زبان نے شکر کا کلمہ پڑھنا نہیں سیکھا ۔
ہم ایک غریب ملک کے باشندے ہیں ۔ یہاں عوام کی ایک بڑی تعداد زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل میں دن رات الجھی ہوئی ہے ۔ جان توڑ محنت کے بعد غریب کے بچے اپنے منہ تک روکھی سوکھی روٹی کا لقمہ منہ تک لے جا پاتے ہیں ۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے پالیسی ساز ملک کو درست طریقے سے چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں نہ عزم سو ملک دن بدن معاشی بد حالی کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ ٹھوس پالیسیاں بنانے کی بجائے یوٹیلیٹی اسٹورز ، زکوٰۃ فنڈ اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے لایعنی پروگراموں کی مدد سے عوام کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ قوم کو یاد ہو گا کہ پچھلے ماہ رمضان میں کس طرح عوام کو دس کلو آٹے کے ایک تھیلے کے لیے ذلیل و خوار کیا ہے اور انتہائی ناقص آٹا عوام کو دیا گیا ۔ آدھی قوم ماہ رمضان میں مال زکوٰۃ اور آٹے کے لیے خوار ہوتی رہی ۔ کئی لوگ اس کوشش میں جان کی بازی ہار گیا ۔ اس سال بھی آٹے کے نام پر چوکر تقسیم کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔
یہ کالم خاص طور پر ایک نئے ڈرامے کو بے نقاب کرنے کے لیے لکھا گیا ہے۔ احساس کفالت پروگرام کے تحت عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جا رہا ہے۔ میں نے پروگرام کی شفافیت جاننے کے لیے اپنا اور اپنا اہلیہ کا پتہ کرایا ۔ پہلے تو خاتون وزیر اعلیٰ کی تقریر سننا پڑی، پھر دس بارہ منٹ کے انتظار کے بعد ایک آدمی نے بتایا کہ ہم نا اہل ہیں ( نا اہل لوگوں کو سب نا اہل لگتے ہیں ) پوچھنے پر بھی وجہ نہیں بتائی گئی۔ کہا سسٹم بتا رہا ہے۔ بے اختیار منہ سے نکلا ’’ لعنت ہو آپ پر اور آپ کے سسٹم پر ‘‘۔
پھر خیال آیا گھر کی ملازمہ کا چیک کیا جائے تو نتیجہ وہی نکلا۔ پھر کئی ایک غریب خواتین کا چیک کرایا گیا تو پتہ چلا سارے نااہل ہیں۔ مجھے ہنسی بھی آئی اور غصہ بھی آیا۔ ہنسی اس لیے آئی کہ ن لیگی نوسر باز ہیرا پھیری سے یہاں بھی باز نہیں آئے۔ اور غصہ اس لیے آیا کہ خوامخواہ اتنا وقت برباد کیا ، حالانکہ پتہ تھا یہ بھی دو ہزار والی سبسڈی نکلے گی ۔ ایک خاتون وزیر نے انگلی اٹھا اٹھا کر دو ہزار روپے کی خوش خبری سنائی تھی ۔ پھر لوگوں نے ان کا کتنا مذاق اڑایا یہ ایک الگ کہانی ہے ۔
کاش یہ نو سر باز اپنی ڈرامہ بازیاں چھوڑ کر کوئی کام ڈھنگ سے کر سکیں ۔ امید تو نہیں ہے ہاں دعا کی جا سکتی ہے کہ اللہ ان کو ہدایت دے یا پھر قوم کے سر یہ بلا دور کرے
آخر میں حسب روایت ایک افسانچہ ۔۔۔
اہلیت ۔۔۔۔
’’ السلام علیکم جی فرمائیے ‘‘! کوئی دس منٹ بعد ایک آواز کانوں تک پہنچی تو میں نے بے ساختہ کہا ’’ و علیکم السلام ! جی فرمائیے! وہ ۔۔۔ مجھے احساس کفالت پروگرام کی معلومات لینا تھی، ’’ جی اپنا نام بتائیے ! ‘‘ میں نے نام بتا دیا۔
شہر اور ضلع اور آئی ڈی کارڈ کا بھی پوچھا گیا۔ میں نے ساری معلومات فراہم کر دی۔
’’ ہم سسٹم سے چیک کر کے بتاتے ہیں۔ آپ انتظار کریں ‘‘ تھوڑی دیر کے بعد آواز آئی ’’ معذرت چاہتے ہیں آپ اس سہولت کے اہل نہیں ہیں ‘‘ ’’ کک ۔۔ کیا مطلب ۔۔۔ ؟‘‘ مطلب یہ کہ آپ یہ سہولت نہیں لے سکتے۔ آپ نا اہل ہیں ’’ اگر میں نا اہل ہوں تو کیا میاں نواز شریف اہل ہو گا ‘‘ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا تو کٹک کی آواز کے ساتھ دوسری جانب سے کال کاٹ دی گئی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button