Editorial

وزیر خزانہ کا ملکی ترقی کیلئے عزم

پچھلے کچھ ماہ سے پاکستانی روپیہ استحکام حاصل کررہا ہے۔ ڈالر کے نرخ میں روزانہ معمولی کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ یہ نگراں دور میں ڈالر کے ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف کیے گئے کریک ڈائون کے نتیجے میں ممکن ہوا۔ اُس وقت ڈالر 330کی حد عبور کر چکا تھا۔ کریک ڈائون کے بعد اب تک اُس میں پچاس روپے کی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ ملکی معیشت کے لیے خوش کُن امر قرار پاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں واضح کمی یقینی بنائی گئی۔ گھی، تیل کی قیمتوں میں بڑی کمی ہوئی۔ اسی طرح اشیاء ضروریہ کے داموں میں زیادہ نہ سہی کچھ نہ کچھ کمی ضرور دیکھنے میں آئی۔ اس برس ٹیکس اہداف کی اب تک کامیابی کے ساتھ تکمیل بڑی کامیابی قرار پاتی ہے۔ بیرونِ ممالک سے سرمایہ کاری کے بڑے معاہدے طے پائے ہیں۔ گو ملک مشکل دور سے گزر رہا ہے اگر معیشت کی درست سمت کا تعین کرلیا جائے اور ملکی ترقی اور خوش حالی کے لیے نیک نیتی پر مبنی اقدامات تواتر کے ساتھ یقینی بنائے جائیں۔ سب سے بڑھ کر وسائل سے مسائل کا حل نکالنے پر توجہ مرکوز کی جائے تو تمام تر پریشانیوں کا جلد خاتمہ ممکن ہے اور ملک کچھ ہی سال میں استحکام کی منزل کو پہنچ سکتا اور عوام خوش حالی کے ثمرات سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ عام انتخابات کے نتیجے میں مرکز اور صوبوں میں حکومتوں کا قیام عمل میں آچکا ہے اور وفاق میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت نے اپنی ذمے داریوں کی ادائیگی کا آغاز بھی کردیا ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) ہیڈ کوارٹرز کا پہلا دورہ کیا ہے۔ حکام نے وزیر خزانہ کو ٹیکس وصولیوں پر بریفنگ دی۔ وزیر خزانہ نے ایف بی آر کو ریٹیل، رئیل اسٹیٹ اور زراعت سمیت دیگر شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے، ایف بی آر میں اصلاحات پر کام جاری رکھنے کی ہدایت کردی۔ حکام کی جانب سے رواں مالی سال ٹیکس وصولیوں کے ہدف اور مستقبل کے اقدامات پر بھی بریفنگ دی گئی جبکہ آئی ایم ایف کے ساتھ اقتصادی جائزہ مذاکرات کیلئے تیاریوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔ ایف بی آر حکام نے ڈیجیٹلائزیشن کے عمل پر بھی وزیر خزانہ کو بریف کیا، وزیر خزانہ نے ڈیجیٹلائزیشن پر کام تیز کرنے اور ٹیکس وصولیوں کے نظام میں مکمل شفافیت لانے کی ہدایت کردی۔ وفاقی وزیر کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے آٹھ مہینوں میں ریونیو اکٹھا کرنے کا مجموعی ہدف کامیابی سے حاصل کرلیا ہے اور پورے سال کے ہدف کو بھی حاصل کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ وزیر خزانہ نے اہداف کے حصول میں ایف بی آر ٹیم کی کوششوں کو سراہا۔ دوسری طرف وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ حکومت کو پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا، دوست ملکوں سے قرض لے کر رول اوور کرانے کا فارمولا اب نہیں چلے گا۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے مہنگائی اور شرح سود میں جلد کمی کی توقع ظاہر کی اور اخراجات میں کمی کا عزم کیا۔ وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ دوست ملکوں نے کہہ دیا ہے کہ مدد کرنا چاہتے ہیں پر امداد کی صورت نہیں سرمایہ کاری کے ذریعے۔ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پی آئی اے نج کاری درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے، بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو بھی پرائیویٹ سیکٹر میں لے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریونیو لیکیج روکنے کے لیے ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن ہوگی۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ایف بی آر کو مکمل ڈیجیٹائز کرنا ہے، دعا کریں جس مشن پر آیا ہوں وہ پورا ہو اور ہم ملک کو بہتری کی طرف لے کر جائیں۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ توانائی کے مسائل حل ہونے تک صنعتوں کی مسابقتی ترقی نہیں ہوسکتی۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے ہمیں کیا کرنا ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا سندھ کا منصوبہ وفاق میں منتقل کر سکتے ہیں، پرائیویٹ انویسٹمنٹ بھی ایس آئی ایف سی کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ اس وقت میکرو استحکام ہے، اسے مستقل کرنا ہے، یہ سہ ماہی سال 2023کے مقابلے میں بہتر ہے، اسپیشل اکنامک زونز میں ہم نے تیز رفتاری کے ساتھ کام کرنا ہے، ہم نے ایکسپورٹ کے انجن کو چلانا ہے، سی پیک فیز ٹو کو فاسٹ ٹریک پر کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے کے مقابلے میں جی ڈی پی بہتر ہے، ٹیکسٹائل سیکٹر نے بہت اچھا کام کیا ہے، پی ایس ڈی پی میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی طرف جائیں گے، آئی ایم ایف پروگرام کے بعد مشرق وسطیٰ کے بینکوں سے رابطہ کریں گے، جب آئی ایم ایف پروگرام ہوجائے گا تو ہماری کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری آئے گی۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ آئی ٹی سیکٹر میں ساڑھے 3ارب ڈالر کی برآمدات متوقع ہے، ہم نے مستحکم گروتھ کی طرف جانا ہے۔ نئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ملک اور قوم کو مشکلات کے بھنور سے نکالنے کے لیے خاصے پُرجوش اور کچھ کر گزرنے کے عزم کے حامل دِکھائی دیتے ہیں۔ قرضوں کے رول اوور کے حوالے سے اُنہوں نے بالکل درست بات کی ہے۔ اسی لیے وہ دوست ممالک کی جانب سے پاکستان میں مزید سرمایہ کاری لانے کے متمنی نظر آتے ہیں۔ ملکی خزانے پر مستقل بوجھ ادارے کی نج کاری کے معاملے میں بھی اُن کی رائے بالکل بجا ہے۔ موجودہ حالات میں ریٹیل، رئیل اسٹیٹ اور زراعت سمیت دیگر شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں اُن کی ہدایت درست معلوم ہوتی ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ اُن کے دور وزارت میں صورت حال بہتر رُخ اختیار کرے گی اور معاشی مشکلات میں واضح کمی دیکھنے میں آئے گی۔ ٹیکس اہداف کی کامیابی سے تکمیل یقیناً خوش کُن امر ہے اور اس کے لیے ایف بی آر کی کاوشیں ہر لحاظ سے قابل تحسین ہیں۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ یہ ادارہ پورے سال کے ٹیکس اہداف بھی اسی طرح حاصل کرے گا۔ ملک عزیز قدرت کا عظیم تحفہ ہے۔ یہ وسائل سے مالا مال ہے۔ زرعی ملک ہونے کے ناتے یہاں کی زمینیں سونا اُگلتی ہے۔ ان زمینوں میں قدرت کے عظیم خزینے مدفن ہیں۔ یہاں کئی حسین وادیاں، مقامات، پہاڑ اور دیگر خوبصورتی کی حامل جگہیں واقع ہیں۔ سیاحوں کے لیے یہ خطہ بہت پُرکشش ہے۔ سیاحت کے فروغ کے ضمن میں کاوشوں کی ضرورت ہے۔ ملک میں وسائل کی بھرمار ہے، بس انہیں درست خطوط پر بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا کرلیا گیا تو ان شاء اللہ صورت حال از خود بہتری کی جانب گامزن ہوجائے گی۔
فلسطین کا نوحہ اور عالمی برادری
فلسطین وہ سرزمین ہے، جہاں پچھلے پانچ ماہ سے زائد عرصے سے آتش و آہن برس رہا ہے۔ درندہ صفت ناجائز ریاست اسرائیل مظلوم فلسطینیوں پر مسلسل بم باریاں جاری رکھے ہوئے۔ 31ہزار سے زائد فلسطینی مسلمان شہید ہوچکے ہیں، ان میں 11ہزار سے زائد ننھے بچے بھی شامل ہیں، خواتین کی بھی بڑی تعداد شہدا میں شامل ہے۔ غزہ لہو لہو ہے۔ پورا انفرا سٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔ لگ بھگ تمام عمارتیں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ جگہ جگہ ملبے کے ڈھیر ہیں، اُن کے نیچے دبے نہ جانے کتنے فلسطینی زندگی کی قید سے آزاد ہوچکے اور کتنے حیات ہیں، کوئی اندازہ نہیں۔ جگہ جگہ نالے ہیں، کہیں اولادیں اپنے ماں، باپ کی موت کے غم میں مبتلا ہیں تو کہیں والدین اپنے بچوں کی موت کے دُکھ سے نڈھال ہیں۔ اسرائیل نے جنگی اصولوں کو ابتدا سے ہی یکسر بالائے طاق رکھا ہے۔ اسپتالوں پر متواتر حملے کررہا، اسکولوں کو نشانہ بنارہا، عبادت گاہیں بھی اُس کے شر سے محفوظ نہیں، امدادی اداروں کے مراکز بھی اُس کے نشانے پر ہیں۔ فلسطین میں بدترین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ دُنیا بھر کے ممالک جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ بھی بارہا حملوں کو روکنے پر زور دے رہا ہے، لیکن اسرائیل کسی کو خاطر میں نہیں لارہا۔ شدید غذائی قلت کی صورت حال ہے۔ امداد کے سلسلے متروک ہیں، جس کی وجہ سے ایک طرف بم باری زندگیاں چھین رہی ہے تو دوسری جانب بھوک سے اطفال جاں بحق ہورہے ہیں۔ رمضان المبارک میں بھی ظالم اسرائیل کے حملوں میں کمی نہیں آسکی ہے۔ گزشتہ روز بھی سو جیتے جاگتے فلسطینی مسلمانوں کو موت کی آغوش میں بھیج دیا گیا۔ ماہ صیام میں بھی اسرائیل کی جانب سے مسلسل بمباری اور فائرنگ کا سلسلہ جاری، 24گھنٹوں میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 100فلسطینی شہید ہوگئے۔ اقوام متحدہ اور عالمی رہنمائوں کی جانب سے رمضان المبارک میں جنگ بندی کے مطالبے کے باوجود اب تک اس میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی، غزہ میں رمضان سے پہلے جنگ بندی کے لیے کوششیں کرنے والے ممالک قطر، امریکا جنگ بندی کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق یروشلم میں اسرائیلی فوج نے نوعمر لڑکے سمیت تین فلسطینی شہریوں کو گولی مارکر شہید کر دیا، زیتون محلہ میں اسرائیلی حملے میں خواتین اور بچوں سمیت متعدد شہری شہید ہوئے۔ جنین پناہ گزین کیمپ کے قریب حماس اور اسرائیلی فوجیوں کے درمیان شدید فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے، شمالی غزہ میں شدید غذائی قلت سے مزید دو بچے دم توڑ گئے، غذائی قلت سے جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد 27تک پہنچ گئی۔ یہ صورت حال انتہائی افسوس ناک ہے۔ کسی میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ وہ ظالم اسرائیل کو بزور قوت روکے۔ دُنیا میں کوئی بھی ایک ملک ایسا نہیں۔ ظالم اسرائیل کے پاپ کا گھڑا لبالب بھر چکا ہے۔ اب اس کی تباہی کا آغاز ہونے والا ہے۔ ظلم کی انتہائوں پر پہنچنے والوں کا یہی مقدر ہوتا ہے۔ حماس فلسطین کی آزادی کی جنگ میں سرخرو ہوگی۔ ظالم اسرائیل پر جیت اس کا مقدر بنے گی۔ قدرت کی مدد اُس کے شامل حال ہوگی۔ اسرائیل کا نام صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button