Column

صارفین کے حقوق کا عالمی دن

وجاہت علی راجپوت
آج پندرہ مارچ کو صارفین کے حقوق کا دن عالمی سطح پر منایا جاتا ہے اگر اس کو تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کی سب سے پہلے آواز امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے 15مارچ سن 1962ء کو اٹھائی تھی اس سے پہلے بھی سن 1906ء میں امریکہ میں دو ایکٹ وجود میں آئے تھے پھر اسی طرح باقی بھی ممالک میں کنزیومر ایکٹ وجود میں آتے گئے اور یہ دن پہلی مرتبہ سن 1983ء میں منایا گیا تھا اگر اقوام متحدہ کی بات کریں تو اس کی قرارداد میں صارفین کے آٹھ حقوق کو تسلیم کیا گیا تھا جیسا کہ اطمینان ، انتخاب ، حفاظت ، معلومات ، صحت مند ماحول ، نمائندگی ، شکایت کی صورت میں ازالہ اور سنوائی وغیرہ ۔اسی طرح پاکستان میں 1995ء میں کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ وجود میں آیا اور اسکے صوبوں میں کے پی کے، بلوچستان اور پنجاب میں 2005ء میں وجود میں آیا اور سندھ میں 2015ء میں وجود میں آیا سن 2007ء میں صارفین کے حقوق کی آواز کو بلند کرنے کے لیے کنزیومر کورٹ قائم کی گئی تھیں اور پنجاب پہلا صوبہ تھا جس نے سب سے پہلے ’’ کنزیومر رائٹس‘‘ پر کام کیا تھا سب سے پہلے جانتے ہیں صارف ؍ کنزیومر کون ہوتا ہے ؟ کنزیومر ؍ صارف ایک فرد یا لوگوں کا گروپ ہو سکتا ہے جو کہ سامان، ضرورت کی اشیا وغیرہ کو خریدتے یا استعمال کرتے ہیں وہ صارف/کنزیومر کہلاتے ہیں اگر کنزیومر رائٹس کی بات کریں تو یہ صارفین کے حقوق کہلاتے ہیں جو کہ صارفین کے لیے جاننا بہت ضروری ہے جیسا کہ صارف اپنی دن بھر کی محنت ، جدو جہد کی کمائی سے مارکیٹ میں جاکر کوئی بھی چیز خریدتا ہے تو اسکے پاس اسکا قانونی حق موجود ہے کہ جو چیز وہ خریدنے لگا ہے اسکو اچھی طرح جانچے اور اس میں دیکھے کہ اس میں کوئی کمی و بیشی نہ ہو ، چیز بلکل درست ہو،میعاری ہو ،عمدہ کوالٹی کی ہو، وارنٹی شدہ ہو ، اس کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن اگر وہ خریدی ہوئی اشیاء ورانٹی سے پہلے ہی خراب ہو جاتی ہے یا اس میں کوئی نقص نکل آتا ہے یا جو دکاندار نے بیچی گئی چیز پر تعریفوں کے جو پل باندھے تھے اس پر وہ خریدی ہوئی اشیاء پورا نہیں اترتی تو آپ کے پاس آپ کا پورا "کنزیومر رائٹ” موجود ہے دکاندار کے پاس جاکر اس چیز کی شکایت کریں، چیز تبدیلی کا کہیں ان سب کے باوجود اگر دکاندار آپ سے غلط لہجہ میں بات کرتا ہے یا پھر وہ چیز واپس نہیں لیتا تو آپ کو بالکل بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں ایک ایکٹ جو کہ "کنزیومر ایکٹ 2005کہلاتا ہے جس کے تحت صارفین کی شکایات کا ازالہ کیا جاتا ہے آپ اسکو زیر استعمال لاتے ہوئے اپنی اشیاء کا ازالہ کر سکتے ہیں جو کہ قانون میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے اگر اسکے طریقہ کار کی بات کریں تو سب سے پہلے آپ کو خریدی ہوئی اشیا کی ’’ رسید‘‘ درخواست کی ساتھ لگانی ہے اور متعلقہ فرد کو جس سے ہم نے خریداری کی ہوگی اسے پندرہ دن کے اندر ریکوری کا ’’ لیگل نوٹس‘‘ بھیجنا ہے، اگر پندرہ دن کے اندر آپ کا نقصان نہیں پورا ہوتا تو پھر آپ نے عدالت سے رجوع کرنا پھر عدالت کارروائی کرے گی اور کیس کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر تمام تر الزامات سچ ثابت ہوتے ہیں تو پھر کنزیومر عدالت دکاندار ٹریڈر یا کمپنی کو حکم دے سکتی ہے کہ صارف کو خراب دی گئی چیز کی اصل قیمت بمعہ ہرجانہ ادا کرے اور صارف نے عدالت جانے کے لیے وکیل سے رجوع کرکے جتنی فیس ادا کی وہ بھی ادا کرے اور مزید اس کی وجہ سے جو صارف کا وقت ضائع ہوا ان سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت دکاندار کو سب کچھ ادا کرنے کا حکم دے سکتی ہے اور مزید اس میں دو سال تک قید کا بھی حکم دے سکتی ہے یا پھر جرمانہ اور سزا دونوں دے سکتی ہیں ’’ کنزیومر ڈے‘‘ منانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ شہری جو کہ اپنے حقوق سے آگاہ نہیں ہیں انہیں اپنے حقوق کا علم ہو جائے جو کہ قانون نے ان کو مہیا کئے ہیں لیکن وہ شہری جن کو اپنے کنزیومر رائٹس کی اہمیت کا علم ہے وہ نہ صرف اپنی شکایت درج کرواتے ہیں بلکہ ان سہولیات سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ اگر اس کو اسلامی نظریہ سے دیکھا جائے تو حدیث نبویؐ بھی موجود ہے:
’’ جب کوئی تم سودا کرو تو یہ کہہ دیا کرو کہ کوئی دھوکہ نہیں ہوگا ‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button