Column

بجلی صارفین سے اربوںروپے کی ناجائز وصولیاں

ضیاء الحق سرحدی
خیبر پختونخوا میں شہریوں کو سوئی گیس کے بعد بجلی کے بھاری بل موصول ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ وزارت توانائی اور نیپرا کے ذرائع کے مطابق جنوری کے بجلی بلوں میں دسمبر کے مہینے کا فیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ کے پیسے ڈالے گئے ہیں دستاویزات کے مطابق جنوری کے مہینے میں پانی کے ذرائع سے 10592میگاواٹ بجلی حاصل کی گئی جبکہ ایندھن سے نجی پیداواری یونٹوں سے 7297میگاواٹ بجلی حاصل کی گئی ہائیڈل ذرائع سے بجلی کی پیداوار پر فیول یا ایندھن کی کوئی لاگت نہیں آئی جبکہ نجی ذرائع سے بجلی بنانے پر ایک کھرب 12ارب 29کروڑ سے زائد کے اخراجات آئے جو صارفین کے بجلی بلوں میں ڈال دیئے گئے جس سے صارفین کے بجلی بلوں میں ایک لاکھ روپے تک کا اضافہ ہو گیا۔ صارفین بجلی کو بھاری بل موصول ہونے پر لوگوں کا پریشان اور مشتعل ہونا قدرتی امر ہے کیونکہ یہاں ایسا ماحول بن چکا ہے کہ صارفین پر مسلسل بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ فیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ کے نام پر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے ابھی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف عوام کی چیخ پکار جاری تھی اور بھاری بلوں سے عوام کی پریشانی ختم نہیں ہوئی تھی کہ عوام کو بجلی کے بھاری بل بھیج دیئے گئے ۔ کم سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے بل بھی کئی کئی ہزار روپے ہیں ہماری یہ سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ برسراقتدار طبقے نے کبھی بھی عوام کا نہیں سوچا اور نہ ہی عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا نوٹس لیا اور نہ عوام کی پریشانی کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس وقت ملک میں پانی اور تیل سے بجلی پیدا کی جارہی ہے پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیداواری لاگت کم ہے لیکن اس کے باوجود فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر عوام سے بھتہ وصول کیا جا رہا ہے۔ نامزد وزیر اعظم جناب شہباز شریف جب اقتدار سے باہر تھے تو انہوں نے خود فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مخالفت کی تھی اور اقتدار میں آنے کے بعد اس کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا، اب نامزد وزیراعظم کو عوام کے بہترین مفاد میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ہر ماہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کا سلسلہ ختم کرانا چاہئے جبکہ بجلی کے بھاری بلوں سے پریشان صارفین کو ریلیف دینے کے لئے اقدامات اٹھانے چاہئیں تا کہ کم آمدن والے طبقے کی پریشانی ختم ہوسکے۔ عوام کا المیہ یہ ہے کہ مہنگائی کے طوفان میں وہ اس طرح سے بے دست و پا ہیں کہ حکومت اور اس کے ادارے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بجائے مزید لوٹ مار کرنے اور ان کی جیب کاٹنے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ حکومت نے اپنے خسارے پورے کرنے اور آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کرنے کی خاطر پیٹرول اور بجلی کو ہدف بنارکھا ہے، پیٹرول اپنی قیمت سے کم از کم بھی نصف دو گنازیادہ قیمت پر فروخت ہورہا ہے، بجلی اور گیس پر کتنی قسم کے ٹیکس ہیں ، انہیں شمار کرنا بھی ممکن نہیں۔ اس کے باوجود ڈسکوز نے غیر اخلاقی، غیر قانونی حرکت کرتے ہوئے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا اور نا جائز طور پر اضافہ بل وصول کئے ، جسے دھو کہ اور فراڈ کے سوا کوئی دوسرا نام دینا ممکن نہیں ہے۔ جرم نیپرا کی تحقیقات میں ثابت ہو چکا ہے، اب صرف تحقیقاتی رپورٹ شائع کر دینا کوئی سزا نہیں ہے، لازم ہے کہ پہلے مرحلہ میں فوری طور پر عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس کیا جائے ، اور حکومت اس مجرمانہ حرکت کرنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے ان کے خلاف مجرمانہ اقدامات کے مقدمات درج کرکے، گرفتار کیا جائے۔ حکومت اگر کوئی ایکشن نہیں لیتی تو لازم ہے کہ سپریم کورٹ از خود نوٹس کے تحت کارروائی کرے تا کہ ان مجرموں کو قرار واقعی سزادی جائے۔ ایک طرف آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں۔ اسلام آباد میں سرکاری دفاتر اور رہائشگاہوں کو سالانہ 10ارب روپے کی مفت بجلی فراہم ہوتی ہے۔ غریب لا چار مفلس اور دو وقت کی روٹی کے حصول کیلئے دردر ٹھوکریں کھانے والی عوام کے ساتھ یہ بھونڈا مذاق نہیں تو اور کیا ہے کہ ماہانہ بیسں پچیس ہزار روپے تنخواہ لینے والے افراد پر تو بھاری ٹیکس ڈال کر ان سے بجلی اور گیس کے بلوں کی مد میں بھاری رقوم وصول کی جاری ہیں جبکہ بیوروکریسی کو دس ارب روپے کی سالانہ مفت بجلی کی سہولت میسر ہے، بھاری سودی قرضوں میں ڈوبے ہوئے ملک کے ساتھ یہ صریحاً زیادتی کے زمرے میں آتا ہے۔ مملکت خداداد میں ایسا لگتا ہے کہ عوام کے سر پر تو ذخیرہ اندوزوں، بلیک میلروں اور کالی بھیڑوں کو مسلط کر دیا گیا ہے جبکہ ملک کے ایک خاص طبقہ نے سہولیات اور مراعات کو صرف اپنا حق سمجھ رکھا ہے۔ یہ کیسا دوہرا نظام ہے۔ خدارا پاکستان اور اس کے غریب عوام پر رحم کھایا جائے اور اشرافیہ کی مراعات مفت بجلی کی سہولت کو فوری ختم کیا جائے، عوام پہلے ہی حکمرانوں سے نالاں ہے، اسے مزید بر انگیختہ نہ کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button